بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ و ر پیدا

اللہ رب العالمین کا احسان ہے کہ اُس نے ہمیں ایک اعلیٰ و ارفع مقصد عطا کیا ہے۔ اللہ کی کتاب۔ قرآن مجید اور سیرت النبیؐ کے ذریعے لوگوں کو اپنے رب سے ملانے اور ایک نصب العین سے آگاہ کرنے کا عزم ہمارے سینوں میں موجزن ہے۔ اس راستے میں ہمارے پیشِ نظر کوئی غرض نہیں اور ہم اپنے کام میں مخلص رہنے کی دعائیں کرتے ہیں۔ انبیائے کرام کے اس مشن میں وقت ، مال ، عمر اور صلاحیتیں لگانے کے لئے ہم کوشاں ہیں اور رہیں گے۔ ان شااللہ۔
اس سفر میں منزل کی تمنا کرنا اور نتائج کا منتظر رہنا داعئ دین کا مقصد نہیں ہوتا کیونکہ اللہ کو صرف کوشش مطلوب ہے۔ اس کوشش کے بعد سب کچھ اللہ کے سپرد کرنا ہوتا ہے۔ ایک داعی بساط بھر محنت اور پوری سعی کے بعد مطمئن ہو جاتا ہے اور اُمید کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتا یہ بساط بھر محنت اور پوری کوشش ہے کیا؟ سب کچھ اللہ کے حضور پیش کرنے کے بعدسکون کا سانس لینا یا پھر ہر پل تڑپنا ، ہر لمحہ فرض کی پُکار محسوس کرنا، دراصل مقدور بھر کوشش ایک جہدِ مسلسل ہے۔ بقول شاعر یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چور ہر جانا۔ یعنی آرام وسکون کے لمحات میں بھی داعی غا فل نہ رہے۔
سچ تو یہ ہے کہ جن کے رُتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مقصد تو بہت اعلیٰ ہو لیکن اپنے مقام کی نزاکت کا احساس نہ ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم لوگوں سے یہ تو چاہیں کہ وہ اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کریں لیکن یہ نہ اُن کو سمجھا سکیں کہ وہ بدل کر کیسی زندگی اختیار کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم خود، ہماری عبادتیں، اخلاق و معاملات اُس درجے کے ہی نہ ہوں کہ لوگ کچھ اپنا بھی سکیں۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ؐ ، صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین کی زندگیاں سادہ تھیں اور دنیا مختصر تھی۔ یہ روشن ستارے اگر اپنی دنیا سجاتے تو لوگوں کے دلوں میں جگہ کیونکر بنا پاتے۔۔۔۔
ہماری محفلیں ، لین دین اور طرزِ زندگی دنیا کی محبت کے آئینہ دار ہوئے تو یہ اندیشہ ہوگا کہ وہ اعلی وارفع مقصد نہ چاہتے ہوئے بھی ہوا میں کہیں معلق نہ ہو جائے۔ معیارِ زندگی بڑھانے کی تگ و دو میں اقدارِ زندگی اور تر جیحاتِ زندگی نہ بدل جائیں۔ جبکہ ایک بہترین مقصد کے لئے ہم نے خود کو پیش کیا ہواہے۔
ہمارے تعلقات، رشتہ داری اور اِن کو نباھنے کے انداز لوگوں کی نظروں کا محور ہوتے ہیں۔ لوگوں کو خیر خواہی اور صلہ رحمی کے طریقوں سے آشنا کرنے کے بعد بھی اگر کوئی اپنوں کی خبر گیری کرنے، تعلقات نباہنے اور خود کو روایتی خاندانی جھگڑوں سے دُور رکھنے میں کامیاب نہ ہو سکے تو پھرداعی دین کا منصب نہیں پاسکتا۔
ہم ہی تو ہیں جو کبھی کبھی جلد بازی کا بھی مظاہرہ کرتے ہیں۔ جس طرح ہمارے بچے ہمارے قرب، محبت، وقت اور حوصلہ افزائی کے طلبگار ہوتے ہیں۔ کبھی کسی کو زیادہ اور کبھی کسی کو مختلف انداز میں نفسیات اور جذبات کو سمجھتے ہوئے یہ سب کچھ دینا ہوتا ہے۔ اسی طرح اس مشینی دور کا ہر فرد مختلف حالات کا شکار ہے۔ قرآن مجید جو ایک Master key ہے۔ اس کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لئے بھی کوئی جادو نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کام صبروتحمل اور وقت مانگتا ہے۔
مختصر یہ کہ دعوت کی راہیں کٹھن ہیں اور اصلاحِ معاشرہ ایک کام نہیں بلکہ Passion ہے ۔ کسی کو قرآن و سیرت کا پیغام دینے میں ہم تو بہت مخلص ہوتے ہیں۔ اور اسی لئے بہر حال اُن کے دلوں میں مقام بنانا شروع کردیتے ہیں۔ لوگ تو ہمیں اُسی مرتبے پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ ہماری قدر کرتے ہیں۔ مزید کے طلبگار ہوتے ہیں۔ مگر ہماری مصروفیت ، جلد بازی اور مختلف رویے اُن کو کچھ اور ہی سمجھا جاتے ہیں ہمیں تو در اصل اُن کے دلوں پر راج کرنا ہوگا۔ اور اس کے لئے محبت والفت کے پیمانوں کو اتنا بھرنا ہوگا۔کہ وہ لبریز ہونے لگیں چھلکنے لگیں۔ تاکہ جواباً لوگ بھی وہ محبت ہمیں دینے لگیں او راس راہ میں ہمارے شریک سفر بن جائیں۔ ان شاء اللہ

جواب چھوڑ دیں