پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر اہل مذہب پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ مذہب کے نام پر سیاست کرکے دراصل مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بات ’’دلیل‘‘ کے طور پر کہی جاتی ہے مگر اس بات کو دلیل کہنا دلیل کی توہین ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سوشلزم، کمیونزم، سیکولر ازم، لبرل ازم، صوبائیت، لسانیت، سرمایہ داری، طبقاتی کشمکش، وڈیرہ شاہی، غربت اور امارت کی بنیاد پر سیاست ہوسکتی ہے تو مذہب کے نام پر سیاست کیوں نہیں ہوسکتی؟ اسلام کا معاملہ تو ویسے بھی یہ ہے کہ اسلام میں دین اور دنیا کی کوئی تفریق ہی نہیں۔ دین دنیا میں نعرے بازی کے لیے نہیں آیا دنیا کو بدلنے کے لیے آیا ہے اور دنیا کی ایک اہم چیز سیاست بھی ہے۔ چناں چہ سیاست اگر خرابی کا شکار ہے تو دین سیاست کو بھی بدلے گا۔ چوں کہ دین سیاست کو بدلنے کا پابند ہے اس لیے مذہب کے نام پر سیاست نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ پسندیدہ یعنی ’’Recmended‘‘ ہے۔ اقبال نے صاف کہا ہے
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں
جلال پادشاہی ہو یا جمہوری تماشا ہو
جدا ہوویں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اقبال کے ان اشعار کا مفہوم عیاں ہے۔ مسلم معاشرے میں اگر سیاست دین سے منسلک نہیں تو وہ چنگیزی کے سوا کچھ نہیں۔ یہاں تک کہ مسلم معاشرے میں قوم کو حقیقی معنوں میں قوم بنانے کے لیے بھی ہم دین کے محتاج ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ سیکولر اور لبرل افراد اہل مذہب پر تو الزام لگاتے ہیں کہ وہ مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں مگر جب ضرورت محسوس ہوتی ہے تو سیکولر اور لبرل عناصر ان کے ترجمان اور پاسبان خود مذہب کو اپنے سیاسی و سماجی یہاں تک کہ صحافتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں۔ اس کی حالیہ مثال عاصمہ جہانگیر کے حوالے سے سامنے آئی۔ ذرائع ابلاغ کی اکثریت نے عاصمہ جہانگیر کو ’’ہیرو‘‘ بلکہ ’’Icon‘‘ کے طور پر پیش کیا۔ اس کے خلاف سوشل میڈیا پر زبردست ردِعمل ہوا۔ لوگوں نے عاصمہ جہانگیر کے سیکولر اور لبرل تشخص کو نمایاں اور ان کی اسلام بیزاری پر تبصرے کیے۔ چوں کہ ان کے بارے میں یہ عام خیال ہے کہ انہوں نے ایک قادیانی سے شادی کی ہوئی تھی اس لیے کہیں کہیں اس بات کا بھی ذکر ہوا۔ وہ بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھتی تھیں اور اسے چھپانے کی ضرورت بھی محسوس نہ کرتی تھیں۔ اس لیے ان کا بھارت سے تعلق زیر بحث آیا۔ امریکا کے محکمہ خارجہ نے ان کے انتقال پر ’’افسوس‘‘ کا اظہار ضروری سمجھا۔ اس تناظر میں مغرب کے ساتھ ان کے تعلقات پر بھی خیال آرائی ہوئی۔ یہ تمام تبصرے اور تجزیے ’’آزادی اظہار‘‘ کے ذیل میں آتے ہیں۔ اس لیے کہ ان تبصروں اور تجزیوں میں کوئی بات بھی ’’بے بنیاد‘‘ یا ’’خلاف واقعہ‘‘ نہیں۔ مگر روزنامہ جنگ کو تبصروں اور تجزیوں پر کافی تکلیف محسوس ہوئی اور اسے ’’اچانک‘‘ یاد آیا کہ ایک ’’چیز‘‘ اسلام بھی ہے اور عاصمہ جہانگیر کے سلسلے میں جو کچھ سوشل میڈیا پر کہا گیا وہ ’’خلاف اسلام‘‘ ہے۔ روزنامہ جنگ کی اس دہائی سے ہمیں یاد آیا کہ ابھی چند ماہ قبل جیو کے پروگرام ’’رپورٹ کارڈ‘‘ میں حسن نثار اور ریٹائرڈ ائر وائس مارشل شہزاد چودھری نے پردے کا مذاق اُڑایا تھا۔ حسن نثار نے کہا کہ پردہ امہات المومنین اور عہد رسالتؐ کے لیے تھا۔ شہزاد چودھری نے مزید جرأت کی۔ انہوں نے فرمایا کہ وہ لاہور یا پنجاب کی لڑکیوں کو اچھی طرح جانتے ہیں وہ پردے کو ہرگز قبول نہ کریں گی۔ پردہ مولویوں اور ملاؤں کی ’’ایجاد‘‘ نہیں۔ پردہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا حکم ہے اور نص صریح سے ثابت ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ حسن نثار اور شہزاد چودھری نے اللہ اور رسولؐ کے حکم کا مذاق اُڑایا۔ جیو نے چوں کہ اس کا نوٹس لیا اور اس پر معذرت کی، اس لیے معلوم ہوا کہ میر شکیل اور جیو کی رائے بھی پردے کے بارے میں یہی ہوگی۔ ہمارے معاشرے میں لاکھوں خواتین ایسی ہیں جو شرعی پردہ نہیں کرتیں۔ مگر پردہ نہ کرنا ایک بات ہے اور پردے کا مذاق اڑانا اور اسے ازکار رفتہ قرار دینا دوسری بات۔ پردہ نہ کرنا کمزوری اور انحراف ہے اور پردے کا مذاق اڑانا اسلام کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا ہے۔ لیکن اسلام کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے ادارے کو عاصمہ جہانگیر کے حوالے سے یاد آیا کہ سوشل میڈیا پر ان کے انتقال کے بعد جو کچھ ہوا وہ ’’خلاف اسلام‘‘ ہے‘‘۔ ہمیں روزنامہ جنگ کی اس ’’اسلام پسندی‘‘ پر کوئی اعتراض نہیں۔ اسلام جس کو جب یاد آجائے اچھا ہے۔ لیکن اس ضمن میں جنگ نے کہا کیا ہے؟ 16 جنوری 2017ء کے جنگ میں شائع ہونے والی خبر کی چند سرخیاں یہ تھیں۔
عاصمہ جہانگیر کے خلاف مہم، مسلم معاشرے میں کبھی ایسی مثال نہ رہی۔
آنحضرتؐ نے یہودی کے جنازے کا احترام کیا۔
وفات پر خوشی جیسے عمل کو قرآن و حدیث کی تائید حاصل نہیں۔
حدیث ہے مرنے والے کے بارے میں خیر کی بات کرو۔
رسول اکرمؐ اقدار کا احترام کرتے تھے۔
آپ نے دیکھا مذکورہ نکات میں ہر طرف اسلام اور آپؐ کا اسوۂ حسنہ نظر آرہا ہے۔ ایک اسلامی معاشرے میں ایسا ہی ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنی ہر بات اور اپنے ہر عمل کے سلسلے میں قرآن و سنت سے رجوع کرنا چاہیے۔ یہاں کہنے کی ایک اہم بات یہ ہے کہ روزنامہ جنگ نے مذکورہ تمام باتیں ’’جید علما‘‘ سے کہلوائی ہیں۔ بہترین۔ اس لیے کہ قرآن و سنت کا علم علما ہی کے پاس ہے، چناں چہ ’’جید علما‘‘ سے رجوع کرنا بھی بہترین بات ہے۔ جنگ نے جن جید علما سے رجوع کیا ہے ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز، مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق، مفتی ڈاکٹر راغب حسین نعیمی، مفتی محمد زاہد، مفتی محمد نعیم، علامہ محمد امین شہیدی، مفتی عبدالرحمن، گلزار احمد نعیمی، علامہ ثاقب اکبر، مولانا قاری سید اکبر اور سمیعہ راحیل قاضی۔
ایک جانب یہ صورت حال ہے کہ روزنامہ جنگ کو سوشل میڈیا پر عاصمہ جہانگیر کی فکر و شخصیت کے تجزیے کے حوالے سے اسلام، قرآن و سنت اور ’’جید علمائے کرام‘‘ شدت سے یاد آئے۔ دوسری جانب روزنامہ جنگ اور جنگ گروپ کے انگریزی اخبار دی نیوز اور جیو نے عمران خان کی تیسری شادی کو ’’شرمناک اسکینڈل‘‘ کی طرح رپورٹ کیا ہے۔ اس سلسلے کی تفصیلات رونگٹے کھڑی کردینے والی ہیں۔ روزنامہ جنگ نے عاصمہ جہانگیر سے متعلق خبر 16 فروری 2018ء کو رپورٹ کی اور عمران خان کی شادی سے متعلق خبر 19 فروری 2018ء کو رپورٹ کی۔ جنگ نے عمران خان کی شادی کی پہلی خبر صفحہ اوّل پر 6 کالمی سرخی کے ساتھ رپورٹ کی، خبر کی سرخی یہ تھی۔
’’66 سالہ عمران خان نے اپنی پیرنی بشریٰ سے تیسری شادی کی تصدیق کردی‘‘۔
بلاشبہ عمران خان کی ’’تیسری شادی‘‘ کی خبر اہم تھی مگر اتنی اہم نہیں کہ اسے صفحہ اوّل پر چھ کالم کی سرخی کے ساتھ رپورٹ کیا جائے۔ روزنامہ جسارت میں یہ خبر ایک کالمی سرخی کے ساتھ صفحہ اوّل پر رپورٹ ہوئی۔ یہ خبر اپنی ’’خبریت‘‘ کے اعتبار سے بھی اتنی ہی اہم تھی۔ زیادہ سے زیادہ یہ خبر صفحہ اوّل پر دو کالمی سرخی کے ساتھ شائع ہوسکتی تھی۔ مگر روزنامہ جنگ نے اسے صفحہ اوّل پر چھ کالمی سرخی مہیا کرکے خبر کو ’’Scandalous‘‘ بنانے کی شعوری کوشش کی۔ پاکستان کے ہر اخبار پڑھنے اور ٹی وی دیکھنے والے کو معلوم ہے کہ عمران خان کی عمر 66 سال ہے۔ چناں چہ عمران خان کی خبر میں تیسری شادی کو رپورٹ کرتے ہوئے ان کی عمر ’’بتانے‘‘ کی ضرورت نہ تھی۔ اگر عاصمہ جہانگیر کے سلسلے میں اسلام کو یاد کرنے والے روزنامہ جنگ کو عمران کی تیسری شادی کے حوالے سے بھی اسلام یاد آجاتا تو اسے معلوم ہوتا کہ اسلام کسی کو بھی 66 سال کی عمر میں شادی سے نہیں روکتا۔ یعنی 66 سال کی عمر میں شادی کرنے میں مذہبی، روحانی، اخلاقی اعتبار سے کوئی قباحت نہیں ہے۔ چناں چہ عمران کی عمر کو دھماکا خیز انداز میں پیش کرنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ تیسری شادی میں ’’عیاشی‘‘ کا وہ رنگ پیدا کیا جائے جو کہیں موجود ہی نہیں۔ خبر کی سرخی میں قارئین کو چیختی چنگھاڑتی سرخی کے ذریعے یہ بھی بتانا ’’ضروری‘‘ سمجھا گیا کہ عمران نے اپنی ’’پیرنی‘‘ سے شادی کی ہے۔ اسلام، اخلاق اور تہذیب کسی کو پیر، پیرنی، مرید یا مریدنی سے شریعت کے مطابق شادی کرنے سے نہیں روکتے۔ لیکن روزنامہ جنگ نے ’’پیرنی‘‘ کے لفظ کے ذریعے نکاح کے تجربے کو ’’اسکینڈل‘‘ اور ’’عیاشی کا مظہر‘‘ بنانے کی کوشش کی ہے۔ چھ کالمی خبر اور 19 جنوری کے جنگ میں موجود ایک اور خبر میں کچھ ذیلی سرخیاں بھی موجود ہیں۔ ذرا ان ’’ذیلیوں‘‘ پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے۔
(شادی کی) تقریب میں عمران کا کوئی فیملی ممبر شریک نہیں تھا۔
نکاح کا ڈراپ سین کرنا تھا۔
بچے نکاح کو قبول نہیں کررہے۔ عارف نظامی
کسی کی قسمت میں وزارت عظمیٰ کی تین شیروانی اور کسی کی قسمت میں صرف شادی تھی، طلال چودھری
عمران نے بہنوں کو میسج کیا شادی کرنے جارہا ہوں، دعا کریں، مگر جواب نہیں ملا، رئیس انصاری
اسلام اس بات کو پسند کرتا ہے کہ شادی میں پورا خاندان شریک ہو۔ مگر یہ کوئی شرعی یا اخلاقی اصول نہیں، چناں چہ اگر عمران خان کی شادی میں ان کی بہنوں نے شرکت نہیں کی تو اس بات کی کوئی اہمیت نہیں۔ مگر شادی کو ’’اسکینڈل‘‘ بنانے کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا۔ بچے نکاح کو قبول نہیں کررہے اس کا کوئی ٹھوس ثبوت کہیں موجود نہیں اور اگر بچے شادی کو قبول نہ کررہے ہوں تو یہ عمران کا مسئلہ ہے جنگ یا معاشرے کا مسئلہ نہیں۔ لیکن اس بات سے بھی شادی کو اسکینڈل بنانے میں مدد ملتی ہے۔ نکاح کا ڈراپ سین کرنا تھا کی ذیلی سرخی شادی کو شادی سے زیادہ ڈراما ثابت کررہی ہے اور اس سے شادی کی خبر کو اسکینڈل بنانے میں مدد مل رہی ہے۔ طلال چودھری کے یہ فرمانے کا کوئی جواز ہی نہیں تھا کہ میاں نواز شریف نے تین بار وزارت عظمیٰ کی شیروانی پہنی اور عمران کے حصے میں تین بار شادی کی شیروانی آئی۔ لیکن اس بیان کو رپورٹ کرنے سے معلوم ہوا کہ اصل مسئلہ ’’سیاسی‘‘ ہے۔ اس لیے شادی اور نکاح کے عمل کو ’’اسکینڈل‘‘ بنایا گیا۔ ورنہ ہمیں اچھی طرح معلوم بھی ہے اور یاد بھی کہ محبت کی جو شادیاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں گھروں سے بھاگ کر کرتے رہے ہیں وہ اخبارات اور ٹیلی وژن چینلوں پر کس ’’اہتمام‘‘ اور کس ’’تکریم‘‘ کے ساتھ رپورٹ ہوتی رہی ہیں۔ لیکن یہ قصہ ابھی ختم نہیں ہوا۔
روزنامہ جنگ اور دی نیوز نے عمران کی شادی کی خبروں کو شہہ سرخیوں میں رپورٹ کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے ان خبروں کے ساتھ ایک تصویر بھی شائع کی ہے۔ اس تصویر میں جمائما اور ریحام ہی نہیں سیتا وہائٹ اور ان کی بیٹی ٹیرن کی تصویر بھی موجود ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ جمائما اور ریحام خان عمران کی سابقہ بیویاں ہیں مگر سیتا وہائٹ عمران کی بیوی نہیں تھی۔ چناں چہ سوال یہ ہے کہ اس کی تصویر شائع کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟ میر شکیل الرحمن کہہ سکتے ہیں کہ سیتا وہائٹ عمران خان کی سابقہ ’’گرل فرینڈ‘‘ تھی اور ٹیرن عمران کی مبینہ بیٹی ہے لیکن عمران اپنی ’’پرانی زندگی‘‘ پر کئی بار ’’پشیمانی‘‘ کا اظہار کرچکے ہیں مگر جو جنگ عاصمہ جہانگیر کے مسلمہ ’’نظریات‘‘ اور ’’نظریاتی تعلقات‘‘ کو زیر بحث لانے پر ناراض ہے اور اسے بہت زور سے اسلام یاد آیا ہے وہ عمران کی ’’تیسری شادی‘‘ کے حوالے سے ’’سیتا وہائٹ‘‘ کا ’’گڑا مردہ‘‘ اکھاڑ کر لایا اور اسے ’’نمائش‘‘ کے لیے پیش کیا۔ حالاں کہ اسلام اس عمل کو پسند نہیں کرتا۔ بدقسمتی سے عاصمہ جہانگیر کا دفاع کرنے والا جنگ 21 فروری 2018ء کی اشاعت میں عمران خان کی تیسری شادی کے حوالے سے ایک ہولناک ترین مقام پر کھڑا نظر آیا۔ اس روز جنگ نے صفحہ اوّل پر ریحام خان کا ایک انٹرویو رپورٹ کیا۔ انٹرویو میں ریحام نے جو بات کہی اسے جنگ نے دو کالمی سرخی اور دو کالمی ذیلی سرخی میں رپورٹ کیا۔ ملاحظہ کیجیے۔
عمران نے بحیثیت شوہر مجھ سے بے وفائی کی، سہی آدمی نہیں، ریحام
بشریٰ کے ساتھ عمران کے برسوں سے ناجائز تعلقات تھے۔
بلاشبہ اس خبر میں جو کچھ کہا ہے ریحام نے کہا ہے مگر رپورٹ روزنامہ جنگ نے کیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جنگ کے پاس عمران کے بشریٰ کے ساتھ ناجائز تعلقات کے ’’ناقابل تردید شواہد‘‘ ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ شواہد پیش کیے جانے چاہئیں کیوں کہ یہ اتنا بڑا الزام نہیں، اتنا بڑا ’’بہتان‘‘ ہے کہ جس کا تصور بھی محال ہے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ قندیل بلوچ کی پہلی برسی کے موقع پر دی نیوز میں ایسا مضمون شائع ہوا جس میں قندیل بلوچ کی ’’جسمانی نمائش‘‘ کو قومی فریضہ قرار دیا گیا تھا۔ طارق جان نے اپنی تصنیف سیکولرزم مباحثے اور مقالمے میں 13 اگست 2010ء کے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے اس سروے کا ذکر کیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ قرار داد مقاصد قائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر سے متصادم ہے اور ایک سروے میں 60 افراد نے اس بات کی تصدیق کی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سروے ملک گیر بنیاد پر نہیں صرف ’’29 افراد‘‘ کی بنیاد پر مرتب کیا گیا تھا اور ان میں سے بھی 18 افراد یعنی 62 فی صد نے قرار داد مقاصد کی حمایت میں رائے دی تھی۔ طارق جان نے اپنی تصنیف میں صفحہ 259 پر میر شکیل الرحمن کے اخبار میں شائع ہونے والے دو اور حوالے پیش کیے ہیں۔ ان میں سے ایک حوالہ یہ ہے۔
’’وہ سوال جو پاکستان کی نئی نسلوں کو پلٹ پلٹ کر آنے والے بھوت کی طرح پریشان کرتا ہے صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ ملک باقی رہے گا یا نہیں بلکہ یہ کہ اس کے وجود میں آنے کا کوئی جواز بنتا تھا؟‘‘
دوسرا حوالہ یہ ہے۔
’’ہندو مسلم لادینی یکجہتی کی بنیاد پر ایک خود مختار کشمیر وجود میں آئے‘‘۔
یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ جنگ کو ان امور کے بارے میں نہ اسلام یاد آتا ہے نہ رسول اکرمؐ کی احادیث اور آپؐ کا اسوۂ حسنہ، نہ ’’جید علمائے کرام‘‘ اور ان کی ’آرا‘‘۔ بدقسمتی سے ’’جید علمائے کرام‘‘ کو بھی نہ ازخود کچھ ’’نظر‘‘ آتا ہے، نہ سمجھ آتا ہے۔ آپ نے دیکھا مذہب کے سیاسی استعمال پر ناراض ہونے والے خود مذہب کو کس طرح سیاسی اور صحافتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر کا دفاع کرنے والوں کا یہ حال ہے تو خود عاصمہ جہانگیر کا کیا حال ہوگا؟۔ یہ بات تو ’’جید علمائے کرام‘‘ سے بھی پوچھی جانی چاہیے۔بدقسمتی سے ان تمام باتوں کا میاں نواز شریف سے بھی گہرا تعلق ہے۔
اہم بلاگز
نوکری یا کاروبار؟
دنیامیں فی زمانہ اگر کسی کے معیارزندگی کا اندازہ لگانا ہو تو اس کی تعلیمی قابلیت کم،بینک بیلنس اور اس کے پاس مادی اشیا سے لگایا جاتا ہے۔یہ بھی ایک سچ ہے کہ جیہندے گھر دانے اونہدے کملے وی سیانے۔لیکن اس حقیقت سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ پیسہ ہر کسی پر عاشق نہیں ہوتا اور جس پر عاشق ہو جائے پھر وہ مٹی کو بھی ہاتھ میں پکڑے تو وہ بھی سونا بن جاتی ہے وگرنی سونا بھی مٹی۔سوال یہ ہے کہ پیسہ کیسے کمایا جائے؟اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ کام کیا جائے جس میں منافع ہو نا کہ اجرت،یعنی بزنس کیا جائے نوکری نہیں۔اگر کاروبار میں اتنا منافع نہ ہوتا تو کبھی بھی آپ ﷺ یہ نہ فرماتے کہ کاروبار میں منافع کے نو حصے ہیں۔جب آپ کاروبار کر لیتے ہیں تو پیسے کو کیسے دوگنا کرنا ہے اس کا فارمولہ بھی ہمارے پیارے آقا ﷺ نے بیان فرما دیا کہ کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ کر کے اللہ سے کاروبار کرلو۔یہی وجہ ہے اللہ دنیا میں دس گنا اور آخرت میں ستر گنا لوٹا کر دیتا ہے۔اس سے بھی زیادہ اگر آپ کو چاہئے تو اس کا بھی حل پیارے رسول ﷺ نے ہم پر واضح فرما دیا کہ صدقہ کرو مسلمان کا صدقہ اس کی عمر میں اضافہ کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے اور اللہ کے ذریعے تکبر اور فخر(کی بیماریوں)کو زائل کرتا ہے۔
لیکن ہم کاروبار کرنے سے قبل ہی اس کے نقصانات سے ڈرنا شروع کر دیتے ہیں اسی لئے پاکستان میں کاروبار کی بجائے نوکری کو ترجیح دی جاتی ہے کہ کچھ بھی نہ ہو کم سے کم اس سے ہر ماہ تنخواہ تو مل جایا کرے گی۔اس کا سب سے بڑا نقصان جو ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ ہم ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو تنخواہ وصول کرنے کے بعد دوسرے ماہ کی تنخواہ کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔جس کا سب سے بڑا نقصان ہمیں اور کمپنی کو یہ ہوتا ہے کہ ہم اس جوش وجذبہ سے کام نہیں کرتے جس ولولہ سے ذاتی کاروبار میں کر سکتے ہیں۔اسی لئے دنیا کے کامیاب بزنس مین خیال کرتے ہیں کہ منافع،اجرت سے بہتر ہوتا ہے۔کیونکہ اجرت آپ کا پیٹ پالتا ہے لیکن منافع آپ کی قسمت بدل دیتا ہے۔لہذا ہمیں یہ سوچے بغیر کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے کام کو ترجیح دیتے ہوئے چھوٹے سے کام سے ہی بھلے ہو اپنا کام کرنا چاہئے،ایک بار ایک صحابی پیارے رسول ﷺ کے پاس آئے اور مدد چاہی۔آپ ﷺ نے پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ ہے تو صحابی نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ میرے پاس اس کلہاڑی کے اور کچھ بھی نہیں،آپ ﷺ نے وہ کلہاڑی لی اور اپنے دست ِ مبارک سے لکڑی کا دستہ اس میں ڈال کر کہا کہ جاؤ اور جنگل سے لکڑیا ں کاٹ کر لاؤ اور اسے بازار میں فروخت کر کے اپنی گزر بسر کرو۔وہ آدمی چلا گیا اور پھر چند ماہ بعد دربار رسالتﷺ میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ اپنا کاروبار...
ترکی کی شام میں مداخلت ۔ پس منظر و پیش منظر
اس قضیے کو سمجھنے کی ابتدا ترکی کے شام پر حالیہ حملے سے کی جائے تو گتھی سلجھنے کے بجائے مزید الجھے گی ۔ اس لیے ہم اس معاملے کو بنیاد سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
کردستان
ترکی کا جنوب مشرقی علاقہ
ایران کا شمال مغربی علاقہ
عراق کا شمالی علاقہ
اور شام کا شمال مشرقی علاقہ
یہ کردوں کا مسکن ہے ۔ اسے کردستان کہا جاتا ہے ۔ یہ سارا خطہ تین لاکھ بانوے ہزار مربع کلومیٹر پر محیط ہے ۔ کردستان کے اس منقسم خطے میں سے ترکی کے پاس ایک لاکھ نوے ہزار، ایران کے پاس ایک لاکھ پچیس ہزار، عراق کے پاس 65 ہزار اور شام کے پاس بارہ ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ ہے ۔
کرد قوم اس خطے میں تین سو سال قبل مسیح سے آباد ہیں ۔ساتویں صدی میں یہ مسلمان ہوئے ۔ اس وقت نوے فیصد سے زائد کرد سنی مسلمان ہیں ۔ حالیہ وقتوں میں ان کی کل آبادی ساڑھے تین کروڑ کے لگ بھگ ہے ۔ سب سے زیادہ تعداد ترکی میں آباد ہے ۔ یہ تعداد تقریبا ًڈیڑھ سے پونے دو کروڑ کے آس پاس ہے ۔ ایران میں قریب قریب نوے لاکھ ، عراق میں اسی لاکھ اور شام میں تیس لاکھ کے عدد کو چھوتے ہیں ۔
جنگ عظیم اول سے قبل یہ سارا خطہ خلافت عثمانیہ کے زیر نگیں تھا ۔ جنگ خلافت عثمانیہ کی شکست پر منتج ہوئی ۔ شکست کا سب سے نمایاں نتیجہ یہ سامنے آیا کہ چھوٹی چھوٹی قومی سلطنتیں تشکیل پاگئیں ۔ یہ صورتحال مسلمانوں کے حریفوں کے لیے بےحد حوصلہ افزا تھی ۔ یہیں سے مسلمانوں کا حقیقی زوال شروع ہوا ۔
معاہدہ سیورے
۔10اگست 1920 کو اتحادیوں اور سلطنت عثمانیہ کے مابین ایک معاہدہ طے پایا، جو " معاہدہ سیورے " کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اس معاہدے کے رو سے حجاز مقدس ترکی سے الگ ہوا۔ نیز یہ بھی طے پایا کہ کردوں کی الگ ریاست بنے گی ۔
معاہدہ لوزان
مصطفی کمال اتاترک نے اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔ خلافت کی بساط لپیٹی اور ترکی کی آزادی کا اعلان کر دیا ۔ اس دوران ترکی میں یونانی فوج بڑی تیزی سے پیش قدمی کر رہی تھی ۔ کمال اتاترک نے 1921 کو روس سے دوستی کا معاہدہ کرلیا ۔ اس عمل سے تقویت پاکر 1922 کو یونانی افواج کو شکست سے دوچار کیا اور انہیں ترکی سے نکال باہر کیا ۔ کمال اتاترک کی اس شاندار فتح کی وجہ سے جنگ عظیم کے اتحادی مذاکرات کی میز پہ آنے پر مجبور ہوگئے اور 24 جولائی 1923 کو سوئیٹزرلینڈ کے شہر لوزان میں " معاہدہ لوزان " عمل میں آیا ۔ اس معاہدے کی رو سے سابقہ معاہدہ " معاہدہ سیورے " کو منسوخ قرار دیا گیا ۔ جس کی رو سے ایک آزاد کرد ریاست نے جنم لینا تھا ۔ معاہدہ لوزان کی اہمیت یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں ترکی ،شام اور عراق کی سرحدیں متعین کر دی گئیں ۔ دوسرے لفظوں میں کردوں کے ارمانوں پر نہ صرف پانی پھیر دیا گیا، بلکہ انہیں عملاً ترکی ،شام...
اطاعت و استغفار کے ذریعے آفات سے نجات
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔”جب مال غنیمت کو دولت قراردیاجانے لگے،اورجب زکوٰۃ کوتاوان سمجھا جانے لگے، اور جب علم کو دین کے علاوہ کسی اور غرض سے سکھایا جانے لگے، اورجب مرد بیوی کی اطاعت کرنے لگے اورجب ماں کی نافرمانی کی جانے لگے،اورجب دوستوں کو قریب اورباپ کودور کیاجانے لگے، اورجب مسجد میں شوروغل مچایا جانے لگے اور جب قوم وجماعت کی سرداری،اس قوم وجماعت کے فاسق شخص کرنے لگیں اورجب قوم وجماعت کے زعیم وسربراہ اس قوم وجماعت کے کمینہ اور رذیل شخص ہونے لگیں،اورجب آدمی کی تعظیم اس کے شراورفتنہ کے ڈرسے کی جانے لگے، اورجب لوگوں میں گانے والیوں اور سازو باجوں کادوردورہ ہوجائے، اور جب شرابیں پی جانی لگیں اورجب اس امت کے پچھلے لوگ اگلے لوگوں کو براکہنے لگیں، اور ان پر لعنت بھیجنے لگیں تواس وقت تم ان چیزوں کے جلدی ظاہر ہونے کا انتظار کرو، سرخ یعنی تیزوتنداور شدید ترین طوفانی آندھی کا، زلزلے کا،زمین میں دھنس جانے کا، صورتوں کے مسخ وتبدیل ہوجانے کا،اور پتھروں کے برسنے کا،نیزان چیزوں کے علاوہ قیامت اور تمام نشانیوں اور علامتوں کا انتظارکرو،جو اس طرح پے درپے وقوع پذیر ہوں گی جیسے (موتیوں کی) لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور اس کے دانے پے درپے گرنے لگیں“۔
مذکورہ بالا حدیث میں کچھ ان برائیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو اگرچہ دنیا میں ہمیشہ موجودرہی ہیں اور کوئی بھی زمانہ ان برائیوں سے خالی نہیں رہاہے،لیکن جب معاشرہ میں یہ برائیاں کثرت سے پھیل جائیں اور غیر معمولی طورپر ان کادوردورہ ہوجائے توسمجھ لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا سخت ترین عذاب خواہ وہ کسی شکل وصورت میں ہوا، اس معاشرہ پر نازل ہونے والاہے اوردنیا کے خاتمے کا وقت قریب ترہوگیا ہے۔ مال غنیمت کو دولت قراردئیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اگرسلطنت کے اہل طاقت وثروت اور اونچے عہدے دار مال غنیمت کو شرعی حکم کے مطابق تمام حقداروں کو تقسیم کرنے کی بجائے خود اپنے درمیان تقسیم کرکے بیٹھ جائیں اور محتاج وضرورت مند اور چھوٹے لوگوں کو اس مال سے محروم رکھ کر اس کو صرف اپنے مصرف میں خرچ کرنے لگیں تواس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ اس مال غنیمت کے تمام حقداروں کا مشترکہ حق نہیں سمجھتے بلکہ اپنی ذاتی دولت سمجھتے ہیں۔ امانت کو مال غنیمت شمارکرنے سے مرادیہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس امانتیں محفوظ کرائی جائیں وہ ان امانتوں میں خیانت کرنے لگیں اور امانت کے مال غنیمت کی طرح اپنا ذاتی حق سمجھنے لگیں جو دشمنوں سے حاصل ہوتاہے۔ زکوٰۃکوتاوان سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ کا ادا کرنا لوگوں پر اس طرح شاق اور بھاری گزرنے لگے کہ گویاان سے ان کا مال زبردستی چھینا جارہاہے اورجیسے کوئی شخص تاوان اورجرمانہ کرتے وقت سخت تنگی اوربوجھ محسوس کرتاہے۔ علم کو دین کے علاوہ کسی اورغرض سے سکھانے کا مطلب یہ ہے کہ علم سکھانے اور علم پھیلانے کا اصل مقصد دین وشریعت کی عمل اور اخلاق وکردار کی اصلاح وتہذیب انسانیت اور سماجی کی فلاح وبہوداور خداورسول...
”شکریہ جماعت اسلامی “
”بھائی! فون تو اٹھا لیا کر،میں نے قرضہ تونہیں لیناتھا،کل سے ستر فون کر چکا ہوں مجال ہے جو ایک بار بھی کال اٹھا ئی ہو،چلو بندہ مصروف ہوتا ہے لیکن فرصت میں تو کال کر سکتا ہے ،یعنی اب ہم ایسے گئے گزرے ہوگئے ۔۔۔“سیلانی فون پر جمیل کی ہیلو سنتے ہی شروع ہو گیا،گذشتہ بارہ گھنٹوں میں جمیل کو گیارہ بار فون کر چکا تھا،بارہویں فون پر اس نے کال وصول کی تو سیلانی کاکھری کھری سناناتو بنتا تھا۔
جمیل احمد صغیر سے اسکا پرانا ساتھ اور بے تکلفی ہے ،کراچی یونیورسٹی کی بسوں پر دونوں نے لٹک لٹک کرخوب سفر کر رکھے ہیں ۔کیمسٹری کی کھٹی چنا چاٹ اور رول پراٹھے کھارکھے ہیں،ایک دوسرے سے چھین کر عبداللہ کی بریانی پلیٹ پربھاگتے رہے ہیں، جمیل پڑھنے لکھنے والا بچہ اورتقریبا آدھا جماعتی تھا،فکری اور نظریاتی طور پر وہ جماعتی ہی تھا،مولانا موددودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابیں اس کے بیگ میں رکھی ہوتی تھیں لیکن وہ اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہونے پر تیار نہ ہوتاتھا ،یاروں نے بڑی کوششیں کیں، ربط میں رکھا،گھر کے چکر لگائے، بڑے بڑے لیکچر دیئے لیکن جمیل نے جمعیت میں نہ آنا تھا نہ آیا۔
یونیورسٹی کے بعد غم روزگار نے سارے ہی دوست محبتیں اوررفاقتیں یاد بنا دیں، وہ احباب جن سے روز آرٹس لابی میں مصافحے معانقے ہوا کرتے تھے انہیں بھی گردش دوراں جانے کہاں لے اڑی جو نہیں اڑے جمے رہے ان سے بھی ملاقاتوں میں وقفہ بڑھتا چلا گیا۔جمیل سے بھی کبھی کبھار ہی ملاقات ہوپاتی کبھی اس کا فون آجاتا یا کبھی سیلانی اسے فون کر لیتا ،کل ایک کام کے سلسلے میں سیلانی کو جمیل کی ضرورت پڑ گئی سیلانی نے فون کیا لیکن اس نے اٹھایاہی نہیں پھر فون کیا جواب ندارد،تیسراچوتھا اور وقفے وقفے سے کتنے ہی فون کئے لیکن جمیل سے رابطہ نہ ہواپہلے اسکے نمبر پر گھنٹی بج رہی تھی پھر اس نے فون بھی بند کر دیا،سیلانی کا غصہ پریشانی میں بدل گیا طرح طرح کے وسوسے اسے ڈسنے لگے اس نے چاہا کہ کسی اوردوست سے جمیل کی خیر خبر لی جائے لیکن دونوں کا کوئی مشترکہ دوست بھی ایسا یاد نہ آیا اب جو صبح جمیل کے نمبر سے اپنے فون پر مس کال دیکھی تواس نے نمبر ملایا اور جمیل کی ہیلو سنتے ہی شروع ہو گیاسناتے سناتے سیلانی ذرا دم لینے کو رکاتو دوسری طرف سے آواز آئی
”بس یا کچھ اوررہتا ہے ۔۔۔“
”ابے ! چپ میں سامنے ہوتا ناں تو طبیعت صاف کر دیتا “
”واپس آجا کراچی میں صفائی کرنے والوں کی بڑی ضرورت ہے یہاں سیاست ہی صفائی پر ہورہی ہے“جمیل ہنس پڑا
”یار ! میں تجھے کل سے فون پر فون کئے جارہا ہوں مگر تو نے جواب دینے کے بجائے فون ہی بند کر دیا“
”بدگمان نہیں ہوتے دوست فون بند نہیں کیا تھا ہو گیا تھا اور کال میں اس لئے نہیں لے سکا کہ لاکھوں لوگوں کے شور میں گھنٹی کیا گھڑیال کی بھی کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی“
”لاکھوں لوگ۔۔۔کیامطلب ؟“
”میں کل کشمیر کی ریلی میں تھا“
تو بھی کل جماعت اسلامی کی...
امت کو طعنے
امت کا تصور اتنا جاندار ہے کہ استعمار نے اس کو ختم کرنے کے لیے امت کے وجود کو بزور شمشیر کیک کے ٹکڑوں کی طرح تقسیم کیا،خاردار باڑیں لگائیں،آمد و رفت محدود کی، پاسپورٹ اور ویزے کا دھندا قائم کیا،پھر بندوق کے پہرے بٹھائے،ایک کے بجائے درجنوں پرچم دیے اور ہر قومیت کو صرف اپنے وطن کی عظمت پر لگا دیا، اپنے تئیں باقی سب بھلا دیا اور پھرسب سے اوپر ذہنی غلامی کو قائم دائم رکھنے کے لیے اپنے کالے غلام اس سارے بندوبست کی حفاظت کے لیے چھوڑ دیے۔۔۔!
لیکن امت نے اپنے وجود کا ثبوت دیا اور ہر محاذ پر دیا۔
اڑتالیس کی عرب اسرائیل جنگ میں مجاہدینِ امت نے بے سروسامانی میں اسرائیل کو ناکوں چنے چبوائے۔۔۔73ء کی جنگ میں اسرائیلی پوچھتے تھےاس دفعہ فدائین تو نہیں لڑ رہےنا! پھر جتنی جنگیں عرب قومیت کے نعرے پر لڑی گئیں،ہمیشہ منہ کی کھائی اور جب جب امت کی،قرآن کی صدا بلند ہوئی، دشمن خون کے گھونٹ پی کرر ہ گیا۔آج بھی غزہ کا قید خانہ اور القدس کے مینار خون سے تر ہیں ، امت تابندہ ہے!
افغانستان کی تو مثال ہی دینا وقت کا زیاں ہے ،انڈونیشیا سے مراکش تک امت کے نمائندے بارگاہ الٰہی میں منتخب ہو ہو کر پہنچے اور خون ِرگِ جاں سے حق کی شہادت رقم کی۔رحمھم اللہ۔
بوسنیا کی بات کم کومعلوم ہے۔۔۔1992ء میں نسل کشی شروع ہوئی تو ہر حکومت نے ویسے ہی تاریخی'' کھڑے ہونے'' پر اکتفا فرمایا جیسے آج پاکستان کشمیر کی چتا کے سرہانے ساتھ''کھڑا" ہے۔۔۔امت کو آواز پڑی،امت نے لبیک کہا،عالم اسلام سے جانباز آئے اوردو ہی سال میں سرب افواج کا زور توڑ دیا۔دشمن کو مجبوراََبوسنیا کے قیام کو تسلیم کرنا پڑا! صدرعلی عزت بیگوویچ کا خراج تحسین آج بھی موجود ہے،اسے پڑھیں،معلوم ہو گا امت کیا ہے، کیا کر سکتی ہے!
عراق میں امریکی تسلط کے خلاف ان کہی داستان کبھی لکھی جائے تو استعمار کے خلاف جدوجہد میں امت کاتاریخی کردار سامنے آئے گا اور یہ لکھا جائے گا۔انگریزی میں لکھا بھی گیا ہے،اردو تاحال محروم ہے!
اعلان آزادی 1995ء کے بعد آزاد چیچنیا کے صدر جوہر داؤدییف نے آرمی کا کمانڈر ایک عرب کمانڈر امیر الخطاب کو مقرر کیا تھا،کس قاعدے کے تحت؟یہ امت ہے! وہی خطاب جس نے سعودی عرب میں والدہ کو فون پر کہا تھا کہ جب چیچنیا سے روسی استعمار کا جنازہ نکل جائے گا،خطاب اپنی ماں سے ملنے آ جائے گا!
صرف کشمیر میں پچیس ہزار پاکستانی امت کے وجود کی سند خونِ رگِ جاں سے رقم کر چکے ہیں۔کسی ایک کا باپ یا بھائی بھی یہ گواہی نہیں دے سکتا کہ وہ' 'سب سے پہلے پاکستان'' پر قربان ہوا۔ہر شہید نے امت کے لیے قربانی دی!خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی!
حماس کے ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ کا بانی تیونس کا شہری محمد الزواری بنتا ہے۔۔۔کس نسبت سے؟؟اسی نسبت سے جس نسبت سے بوڑھا شیرسیدعلی گیلانی اپنا آپ پاکستان سے منسوب کرتا ہے۔۔پاکستان کو امت کا ایک حصہ سمجھتے ہوئے۔۔ "اسلام کی نسبت سے ۔۔۔اسلام کے تعلق سے۔۔۔اسلام کے رشتے سے۔۔۔ہم پاکستانی ہیں۔۔پاکستان ہمارا ہے!"
اقبال ابھی تک غلطی سے قومی شاعر ہی ہے،بہت...
طنز و مزاح
عرق النساٗ (طنزومزاح)
عرق النسا کو میں اس وقت تک حکیم کی دکان سے ملنے والے عرقِ گلاب،عرقِ سونف،عرقِ انجبارکی طرح ایک عرق ہی خیال کرتا رہا ، جب تک خود اس مرض میں مبتلا نہ ہو گیا ، نتیجہ یہ نکالا کہ عرق النسا کوئی نسائی مرض ہے اور نہ ہی اس کا کوئی تعلق نسوانیت سے ہے۔بلکہ جوانی میں عرقِ انفعال کی وجہ سے پیدا ہونے والا درد اصل میں عرق النسا ہوتا ہے جسے درد ریح اور بادی کا درد بھی کہا جاتا ہے۔درد ریح میں مبتلا شخص ریح کے نکلنے تک چین سے نہیں بیٹھ سکتا۔اگر یہ درد بڑھ جائے تو گٹھیا کا درد بن جاتا ہے جو کہ بہت ہی’’ گھٹیا‘‘قسم کا درد ہوتا ہے۔یہ درد اگرحد سے بڑھنے لگے تو مریض کو انٹی بائیوٹک دی جاتی ہے،کبھی’’ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ‘‘والا معاملہ درپیش ہوجائے تو دوا کی بجائے دعا کروانی چاہئے اور اگر پھر بھی افاقہ نہ ہو تو ’’آنٹی بائی او ٹک‘‘سے شادی ہی اس کا واحد حل ہوتا ہے۔
کہتے ہیں کہ انسان کی پہلی شادی جوانی میں ،کہ شیوہ پیغمبری ہے، دوسری چالیس کے پیٹے میں ،کہ جب پیٹ نکل آئے اور تیسری شادی بڑھاپے میں ،کہ جب بیماری دل کی دوا لینے کی بجائے ہمارے بوڑھے دل ہارنا شروع کر دیں۔بڑھاپے کی شادی کو ”کم عمری“کی شادی بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ اس کے بعد انسان کی زندگی کم ہی رہ جاتی ہے۔اس عمر کے بارے میں ہی اکھان ہے کہ”ہنگ لگے نہ پھٹکڑی تے رنگ وی چوکھا“
رنگ(color) دیکھ کر اگر کوئی بوڑھا دنگ رہ جائے تو سمجھ لیں دل ہار بیٹھا ہے اور اگر کلر دیکھ کر ’’جوان‘‘کا رنگ اڑ جائے تو سمجھ جاؤ کہ پاکٹ ہار بیٹھا،ایک طالب علم کمر دردکے علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس گیا ، ڈاکٹر نے طالب علم خیال کرتے ہوئے ، نفسیاتی طور پر ریلیکس کرنے کے لیے پوچھ لیا، کیوں بیٹا’’میر درد‘‘کو جانتے ہو،طالب علم نے اسے بھی ایک’’درد‘‘کی قسم سمجھتے ہوئے فوراً جواب دیا، جی ڈاکٹر صاحب کمر درد سے قبل میں ’’میردرد‘‘کا ہی شکار تھا۔ڈاکٹر نے دوائی لکھ کر دیتے ہوئے کہا کہ لو بچے یہ دوائی کمر درد ہو یا میر درد دونوں صورتوں میں افاقہ اور تسکین کا باعث بنے گی۔ایک ہفتہ دوائی کھانے کے بعد افاقہ تو ہو گیا مگر ’’تسکین‘‘کی تلاش ابھی تک جاری ہے۔اسی طرح ایک فربہ جسم کی حامل خاتون نے جب ڈاکٹر سے کمر درد کے علاج کے لیے دوا ئی چاہی تو داکٹر نے ’’ڈبل ڈوز‘‘double dose لکھتے ہوئے کہا، یہ اس لیے کہ آپ کمر نہیں بلکہ کمرہ اپنے ساتھ اٹھائے پھرتی ہیں،موقع ملے تو کچھ سامان کسی مناسب جگہ اتار پھینکیں ،کمر خود ہی ٹھیک ہو جائے گا۔
ماؤ نے کہا تھا کہ مسائل کا حل بوڑھوں کے پاس نہیں جوانوں کے پاس ہوتے ہیں ، جب کہ آج کے جوان کئی قسم کے درد، ایام جوانی میں ہی پال رکھتے ہیں۔خاص کر جوان طلبا، کیوں کہ تحقیق بتاتی ہے کہ طلبا میں’’ مخفی‘‘ درد سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔جیسے کہ سر درد، پیٹ درد، یہ ایسے...
لوٹ سیل
موسم گرما کی تعطیلات سے کوئی ایک ماہ قبل قطر کے ہر بڑے سٹور اور شاپنگ مال میں آپ کو ایک ہی بورڈ آویزاں نظر آئے گا جس پر لکھا ہوگا ’’خصم%50۔عربی میں ڈسکاؤنٹ کو خصم کہا جاتا ہے۔دوحہ آمد کے ابتدائی دنوں کی بات ہے جب پہلی بار میرا واسطہ خصم سے ہوا (پنجابی والے نہیں عربی والے سے) یعنی ہر اسٹور پر خصم % 50کے بورڈ نظر آئے ، چند لمحے حیران وششدر امن بورڈز کو تکتا رہا کہ کیا واقعی دنیا نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ اب ’’خصم‘‘بھی برائے فروخت ہوگا وہ بھی اچھے خاصے ڈسکاؤنٹ پر۔وہ تو بھلا ہو میرے دوست کا جس نے میری پریشانی بھانپتے ہوئے ’’خصم‘‘ کا اردو ترجمہ کردیا۔قطر میں اگر کلیئرنس سیل کا بورڈ آپ کو نظر آئے تو سمجھ جائیں کہ وہ مال چند دنوں میں ہی کلیئر ہو جائے گا، یعنی واقعتا ہر شے سستی ہی ملے گی، پاکستان میں اگر کسی مال پرلوٹ سیل کا بورڈ نظر آئے تو سمجھ جائیں کہ آٓپ واقعی لٹنے والے ہیں۔اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب دوحہ سے دو ماہ کی تعطیلات گرما گزارنے پاکستان گیا ،چند روز بعد ہی بیگم نے فرمائش کی کہ ساہیوال چلتے ہیں، وہاں سارے برانڈز پر سیل لگی ہوئی ہے،کس وناکس سیل پوائنٹ کا رخ کیا تو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ بہت سے شاپنگ مالز پر واقعی جلی حروف میں لکھا ہوا تھا کہ لوٹ سیل۔ ایک برانڈ میں ہم بھی گھس گئے، روشنیوں کی چکا چوند میں ہر سوٹ ہی پرکشش لگنے کی بنا پر بیگم نے بھی کوئی ستر ہزار کو چونا لگا دیا، گھر پہنچے تو سوٹ کی چمک سے زیادہ بیگم کا چہرہ دمک اور چمک رہا تھا۔ مارے خوشی کے اپنی بھانجیوں کو نمائشی نظر کے لیے یونہی پہلا سوٹ کھول کر دکھایا تو مجھے اندازہ ہوگیا کہ مراد میاں واقعی لوٹ سیل میں ہم لٹ چکے ہیں۔وہ جو جلی حروف میں’’لوٹ سیل‘‘لکھا ہوا تھا اب جعلی سا لگنے لگا۔اس روز میرا ایمان اس بات پر اور بھی پختہ ہو گیا کہ لوٹ سیل محض لوٹنے کے لیے ہی لگائی جاتی ہے۔لوٹ سیل میں لٹنے کے بعد دوتجربات میرے علم میں اضافے کا باعث بنے،ایک یہ کہ لوٹ سیل کا سامان چائنہ کے مال کی طرح ہوتا ہے’’چلے تو چاند تک وگرنہ رات تک‘‘دوسرا یہ کہ لوٹ سیل میں خواتین کے لٹنے کا چانس سو فیصد ہوتا ہے۔
عورت کے لٹنے کی خبریں اکثر اوقات آٓپ اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں مگر مرد کے لٹنے کی کبھی کوئی خبر کسی اخبارمیں شائع نہیں کی جاتی حالانکہ مرد بے چارہ ہر لوٹ سیل پر اپنی بیوی اور دوکاندار کے ہاتھوں لٹتا ہے، عورت لٹتے سے شور مچا دے تو پوری قوم یک آواز سراپا احتجاج بن جاتی ہے اور تو اور منہنی جسم کے متحم چاچا ،ماجھا بھی حسب استطاعت ’’چھیڑو‘‘کے منہ پر طمانچہ دے مارنے کو تیار ہوتے ہیں، بلکہ ایک آدھ کو تو ان کی ہمت کی داد بھی دینا پڑتی ہے ، لیکن لوٹ سیل مرد کے ’’لٹنے‘‘کا ایسا ذریعہ ہے جس پر...
مارچ میں مارچ، اکتوبر میں مارچ
ہم حب بھی حالات حاضرہ سے واقفیت کے لیے ٹی وی آن کرتے ہیں تو ہر طرف مارچ مارچ کی آواذیں سنائی دیتی ہیں ۔
اوہ یہ مارچ ، اس سے تو ہمیں ہمیشہ ہی خوف آتا رہا ہے،
جب بھی مارچ قریب آتا تھا ہاتھ پاؤں پھول جاتے تھے۔ بھوک اڑ جاتی تھی۔اسکول کی کتابیں پہاڑ نظر آتی تھیں،جن کو مارچ سے پہلے سر کرنے کا اساتذہ کی جانب سےحکم ملتا تھا اور ۳۱ مارچ تو یوم جزاء کی طرح محسوس ہوتا تھا،دعائیں وظائف اور مننتیں مانی جاتیں کہ اس مارچ کا اختتام عافیت سے ہو جائے اور ہماری عزت رہ جائے،
مارچ کی اہمیت تو آپ سمجھ ہی گئے ہونگے، کیونکہ ہمارے امتحانات ہمیشہ مارچ میں ہوتے تھے اور ۳۱ مارچ کو رزلٹ آؤٹ ہوتا تھا۔
پھر اللہ کے کرم سے ہم نے میٹرک کر لیا تو مارچ سے نجات کا جشن منایا ،کہ اب یہ ایسا مارچ ہمیں ڈرانے کبھی نہیں آئے گا۔
پھر اچانک مارچ کی اہمیت بڑھ گئی۔ اب اس کا جب دل چاہے آجاتا ہے۔
جولائی میں مارچ ،دسمبر میں مارچ ،مارچ میں مارچ اور اب تو اکتوبر میں مارچ ۔ ہائے ، اللہ رحم کرے!
اب اتنی جلدی مارچ لانے والوں سے میں پوچھتی ہوں، کاش آپ کشمیر کے لے مارچ کرتےاور حکومت کو مجبور کرتے کہ جن لوگوں کوگھروں میں بھوکہ مارا جا رہا ہےانکو آزاد کیا جائے ، لیکن یہ مارچ تو مزید انکو ختم کرنے کے لے آرہا ہے۔
ہم مانتے ہیں کہ آپ کے آباء جوکہ ہند سے تعلق رکھتے ہیں ،انہوں نے مودی کےخوف سے اسی کےدامن میں پناہ لے لی ہے اور اپنےمسلمان بھائیوں کےلہو کا سودا کرلیا ہے اورمزید یہ کہ پاکستان کو اپنا دشمن ملک کہہ کر اس کا دل خوش کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔
لیکن آپ تو اسی ملک میں رہتے ہیں۔ اسی ملک کی *کشمیر کمیٹی* کے ۱۳ سال چیئرمین رہے ہیں۔ 6کروڑ کا سالانہ بجٹ استعمال کرتے رہے ذرا بتائیں اس کا کیا ہوا؟ آپ نے پاکستان کامقدمہ پاکستان کی طرف سے لڑا یا بھارت کی گود میں ڈال دیا ؟
اب آپ انہیں اپنے پیاروں کے ایجنڈے کو مدد دینے کےلیے اچانک ملک میں *مارچ* لاکر انتشار پھیلانا چاہتے ہیں؟ اور اگر اب پھر بےنظیر کے دور کی طرح آپ کو کچھ مال غنیمت سےفیض یاب ہونے کی راہ مل گئی، تو پھر کیا آپ کو آرام مل جائے گا؟
*میں کیوں کہیں اور اپنا لہو تلاش کروں*
*مرے اپنوں ہی کہ ہاتھ ہیں رنگے ہوئے*
”دنیائے مزاح“
”ہاں بھئی کھانے میں کیا ہے؟“
”بلی کا گوشت ہے، کتے کا گوشت ہے،چوہے کے کباب ہیں۔۔۔“
”ارے ارے بھائی!! کیا ہوگیا ہے؟ کیا جنگل میں کھول رکھا ہے ریسٹورنٹ آپ نے۔۔۔“
ویٹر اور گاہک کے درمیان ہونے والی یہ گفتگو میرے ذہن کی اختراع نہیں بلکہ ایک معروف ریسٹورنٹ میں prank (مذاق) کرتا Prankster ہے۔ میں اس قسم کی ناقابلِ فہم گفتگو کبھی تحریر نہیں کرتی لیکن میرا موضوع انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں حال ہی میں آنے والا ”پرینک کلچر“ ہے۔ یوں تو تفریح اور مزاح تھکے ہوئے، اعصاب کے لئے ٹانک کا کام دیتے ہیں اور انسان ان سے لطف اندوز ہو کے تازہ دم ہوجاتا ہے۔ لیکن اس کی بھی کچھ حدود ہیں جن کو پار کر لیا جائے تو سوائے بد تہذیبی کے کچھ نہیں بچتا۔
یہ پرینکس عوامی مقامات مثلاََ معروف شاہراہیں، پارکس، شاپنگ مالز یہاں تک کہ تعلیمی اداروں میں بھی کئے جاتے ہیں۔ اکثر یہ لچر گفتگو، گھٹیا الفاظ، تحقیر آمیز رویے اور مخاطب کی تضحیک پر مشتمل ہوتے ہیں۔ بعض اوقات اس کے سبب پرینکسٹر کو جان کے لالے بھی پڑ جاتے ہیں۔ پھر یو ٹیوبر یہ کہہ کر معاملہ رفع دفع کرا دیتا ہے کہ ”بھائی!! کیمرے کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلا دیں۔“ اور وہ متاثرہ بھائی اپنی تمام تر ذلت بھول کر بتیسی نکال کر اس کی بات پر من و عن عمل کرتے نظر آتے ہیں۔
یوں تو کئی پرینکس قابلِ اعتراض ہیں جو تعلیمی اداروں کے احترام کو مجروح کرتے ہیں۔ انکے کمنٹس پڑھ کے اندازہ ہوجاتا ہے کہ عوام ان کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہے۔ ایک پرینک کی مثال دیتی ہوں جس کا عنوان ہے Cute Girl Asking Strangers, Guess Who??? دو دوست ایک معروف شاپنگ مال کے فوڈ کورٹ میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ ایسے میں ایک محترمہ نازل ہوتی ہیں اور ان میں سے ایک کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کے کہتی ہیں: ”پہچانو کون؟؟ یاد کرو ہم اسکول میں ہوتے تھے۔۔۔!“ جب پورا پرینک مکمل ہوگیا اور ان حضرات کو حقیقت کا علم ہوا تو ان افراد میں اتنی بھی غیرت نہ تھی کہ کسی بھی قسم کے غصے کا اظہار کرتے بلکہ ان خاتون کے کہنے پر ایک روبوٹ کی مانند کیمرے کو دیکھ کرہاتھ ہلا دیا۔ جب اس پرینک کے کمنٹس پڑھے تو عوام کی اکثریت اس پرینک کے خلاف تھی اور پاکستان میں بڑھتی بے راہ روی کی طرف توجہ دلا رہی تھی۔ وہیں کچھ روشن خیال افراد اپنی رائے کا اظہار اس طرح کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک بھائی لکھتے ہیں: ”یہاں پر کچھ افراد مفتی بن کر فتویٰ لگا رہے ہیں۔ بھائی!! کیا اب پاکستانیو ں کو سانس بھی نہیں لینے دو گے؟؟ پاکستان اسی extremism کی وجہ سے دنیا بھر میں بدنام ہے۔“
تو بھئی، بات دراصل یہ ہے کہ پاکستان اگر بدنام ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں رہنے والے کچھ افراد کو ضرورت سے ذیادہ سانس لینے دی جا رہی ہے اور وہ معاشرتی اقدار و روایات کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے تک میں بھی ان لوگوں میں شامل تھی جو...
ماس-ٹر
محکمہ تعلیم کی طرف سے جاری کردہ“مار نہیں پیار“نوٹیفیکیشن سے قبل ماسٹر(استاد)کو ایسے خطرناک کردار کے طور پرمعاشر ہ میں پیش کیا جاتاتھا کہ جس کو دیکھتے ہی طالب علم کے جسم کا ماس(skin)ٹر،ٹر کرنا شروع کردیتا تھا۔میرا ایک دوست فرخ الحسن بھٹی بچپن سے ہی پختہ عزم کئے ہوئے تھا کہ اسے بڑے ہو کر اس وجہ سے ماسٹر بننا ہے کہ جتنا ماسٹروں نے اسے مارا ہے خود ماسٹربن کربچوں کو مار پیٹ کر اپنا بدلہ لینا ہے،ماسٹر تو نہ بن سکا البتہ محکمہ جنگلات میں آجکل ٹمبر کوخوردبرد کرنے میں کافی ”ماسٹر“ہو گیا ہے۔اپنے ماسٹرپن کی وجہ یہ بتاتا ہے کہ کیا ہوا درخت کٹوا کے پیچ دیا ایک کی بجائے دس درخت لگواتا بھی تو ہوں،کیا فلسفہ ہے کالے دھن کو سفید کرنے کا،اس کے اسی فعل کو دیکھتے ہوئے میں نے اسے کتنی بار سیاست میں آنے کا مشورہ دیا ہے۔اس کے ماسٹر پن کی ایک مثال ملاحظہ ہوکہ ایک بار جوکالیہ بیلا فاریسٹ میں نئے پودے لگانے کا حکم صادر ہوا،موصوف نے کہیں نئی گاڑی خریدنی تھی تو ظاہر ہے پودے نہ لگوا سکا۔اتفاق سے سیکرٹری فاریسٹ کا دورہ تھا،جناب انہیں گھنٹہ بھر لانچ میں بیلا کے ارد گرد گھماتا رہا،سیکرٹری کے پوچھنے پر کہ کیا تم نے پودے لگوائے بھی ہیں کہ ایسے ہی ہمیں گھماتے جا رہے ہو۔فرخ نے نہائت معصومیت سے جواب دیا کہ سر دریائی علاقہ ہے پانی کا کیا بھروسہ،ہو سکتا ہے کہ دریا کا پانی بہا کے لے گیا ہو۔موصوف برطرف ہوئے اور ماموں کی سفارش سے نوکری پر بحال ہوئے اور انہیں پیسوں سے خرید کردہ گاڑی پر دفتر حاضری دینے پہنچ گئے۔اب آپ ہی بتائیں کہ اس سے بڑا ماسٹر کوئی ہو سکتا ہے۔مگر جس ماسٹر کی بچپن میں فرخ بھٹی بات کیا کرتا تھا اس سے مراد سکول اساتذہ تھے۔وہ تو ماسٹر نہ بن سکا البتہ میں فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ چھوڑ کر دوحہ قطر میں ضرور ایک پاکستانی اسکو ل میں ماسٹربن گیا۔اب میرے پاس سب کچھ ہے ماسوا پیسے کہ کیونکہ فرخ کا کہنا تھا کہ استاد کا کام پیسہ کمانا نہیں یہ کام دیگر”پیشہ ور“لوگوں کا ہے۔جب پیسے کی اہمیت کی سوچ اجتماعیت کی سوچ بن جائے گی تو ماسٹر بھی تو ایسا ہی سوچنے والے ہونگے جیسے کہ ایک گاؤں میں اسکول میں معائنہ ہورہا تھا اور ماسٹر صاحب بچوں کو cupسپ(سانپ) پڑھا رہے تھے انسپکٹر نے اعتراض کرتے ہوئے ماسٹر نے کہا کہ سر یہ سپ نہیں بلکہ کپ ہوتا ہے تو استاد محترم استادی دکھاتے ہوئے بڑے معصومانہ انداز میں گویا ہوئے کہ سر جب تک میری تنخواہ نہیں بڑھائی جائے گی اس وقت تک cup سپ ہی رہے گا۔
ایک بار مجھے ایک طالب علم نے پوچھا کہ سر یہ استاد اور ماسٹر میں کیا فرق ہے تو میں نے جواب دیا کہ ماسٹر و ہ ہوتا ہے کہ وہ جب بچے کو مارے تو ماس ٹر،ٹر ہو جبکہ استاد مارتے ہوئے بھی ایسی استادی دکھا جائے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔میرے ایک استاد محترم تھے جن کے پاس ایک سہراب کی سائیکل تھی وہ...