معاشرہ ابھی زندہ ہے 

یہ کہنا شاید آپ کو عجیب لگے مگر حقیقت یہی ہے کہ معاشرہ بھی اپنا وجود رکھتا ہے۔ جہاں اس میں بسنے والے افراد کی زندگی سانس لیتی ہے۔ یہاں چلتی پھرتی زندگی کی گواہی، اس معاشرہ میں رہنے والے افراد کی روزمرہ کی زندگی، ان کے رویوں اور ان کے رہن سہن اور طرز زندگی سے ملتی ہے۔ اگر معاشرے کے افراد میں آپس میں رواداری، محبت ، سلوک ، احسان مندی ہے اور وہ ایک دوسرے کے لیے احساس رکھتے ہیں تو یقیناً وہ معاشرہ زندہ ہے اور زندگی کی طرف رواں دواں ہے۔
جس طرح ہر فرد میں مثبت اور منفی رویے موجود ہوتے ہیں،ان کی سوچ میں ، ان کے عمل میں اس کا اظہار ہوتا ہے اسی طرح معاشرے میں رونما ہونے والے مختلف منفی اور مثبت واقعات بھی اس کی تصویر کو خوبصورت یا بدنما دکھاتے ہیں۔
مثال کے طور پر آج کل کی بھاگتی دوڑتی زندگی میں ایک لمحے کے لیے رک کر روزمرہ کی زندگی میں آپ کسی کے لیے ایک اچھا کام کرتے ہیں تو آپ کا یہ عمل دوسروں کے لیے مثال بن جاتا ہے۔ اگر آپ اپنے کام پر جارہے ہیں یا شام کو واپس گھر آرہے ہیں ، تو اپنے اطراف میں نظر دوڑاتے رہیں، تو آپ کو ایسے لوگ ضرور نظر آئیں گے جن کے لیے کچھ کرکے آپ کو بے پناہ مسرت ملے گی۔ کسی ضعیف کو سڑک پار کرادینا ، کسی مفلس کو کھانا کھلادینا ، کسی انسان ک مشکل میں رہنمائی کرنا، یہ تمام چھوٹی چھوثی خوبصورت باتیں ہیں جو زندگی میں مثبت تبدیلیاں لاتیں ہیں۔ معاشرے کی اجتماعی تصویر کو خوبصورت بناتی ہیں۔
مگر دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ ہم عام انسان کسی حاجت مند کی ضرورت کو نظر انداز کر کے یا اس سے بغیر احساس کے بات کرکے اپنے رویے سے دکھ پہنچاتا ہے تو یہ اس معاشرے کی بدنما تصویر ہے۔
کبھی کسی کے لیے بے غرض ہو کر کام کریں تو آپ کا یہ رویہ نہ صرف آپ کو اندرونی خوشی کے احساس سے دوچار کرے گا بلکہ دوسروں کے دلوں میں بھی اس نیکی کو سرانجام دینے کی خواہش کو پیدا کرے گا۔
ابھی کل ہی کی بات ہے اکیڈمی جانے کے لیے گھر سے نکلی اسٹاپ تک جانے کے لیے رکشے کاانتظارکرتے، وقت گذرنے کا بھی احساس ہورہا تھا اس لیے بہتر یہی سمجھا کہ پیدل واک کر کے ہی پہنجا جائے۔ ابھی کچھ فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ ایک رکشہ پاس آکر رکا۔ اس میں سے ایک ادھیڑ عمر آدمی کہنے لگے !
” بیٹا بیٹھ جاؤ۔۔ اسٹاپ تک ہی جانا ہے نا آپ نے ”
میں نے سوچا کرائے کی بات کرلینی چاہے یہ نہ ہو کہ بعد میں زیادہ مانگ لیں۔ مگر کچھ کہنے سے پہلے ہی کہنے لگے بیٹھ جائیں۔ تھوڑی پس وپیش کے بعد بیٹھ گئی۔جب اسٹاپ آیا میں نے کرائے کا پوچھا تو کہنے لگے
” میں نے اسٹاپ تک آنا ہی تھا اس لیے سوچا آپ کو بٹھالوں ”
میں سوچنے لگی آج کے دور میں ہر انسان خودغرضی کی انتہا پر ہوتے ہوئے اپنے بارے میں سوچتاہے وہیں ایسے انسان بھی ہیں جو بے غرض ہو کر کسی کا احساس کرتے ہوئے مدد کررہے ہیں۔آپ نے بھی یقیناًاپنی روزمرہ زندگی میں کہیں نہ کہیں ایسا مشاہدہ ضرور کیا ہوگا یہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر کسی کی کی گئی چھوٹی سی نیکی کو ہم اپنے اطراف میں بتائیں پھیلائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ معاشرے کے افراد کی سوچ اور ان کے رویوں میں تبدیلی نہ آئے۔
زندگی انہی چھوٹی چھوٹی باتوں سے عبارت ہے۔ کبھی سوچیے اور غور کیجیے۔۔۔
صبح سویرے ا
اٹھ کر صرف ایک لمحے کے لیے یہ سوچیں کہ آج ایک نئے دن کے آغاز میں ممکن ہے آپ کو کوئی ایک ایسی چھوٹی سی نیکی کا موقع ملے جسے آپ اپنی جلدبازی میں نظرانداز کر کے گذر جائیں گے۔اگر کوشش کریں اور اس موقعے کو نہ گنوائیں تو آپ کا یہ عمل آپ کے اردگرد بسنے والے افراد کی سوچ میں تبدیلی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک انسان دن بھر کی مصروفیات کے بعد شام کو اپنے گھر کے دیگر افراد کے ساتھ اپنے گذارے ہوئے دن کی باتیں شیئر کرتا ہے تو اس کی کی گئی ایک نیکی گھر کے کسی فرد کی سوچ میں بھی آسکتی ہے اور اسی طرح ایک کڑی سے دوسری کڑی ملتی جائے گی اور اس طرح چھوٹی چھوٹی نیکیوں کا یہ سلسلہ معاشرے کو ایک بہتر شکل دے گا۔اس بارے میں سوچیے گا ضرور اور ایک بار عمل کرکے یہ بتائیے گا کہ !
“معاشرہ ابھی زندہ ہے اس میں بسنے والے افراد کے ذہن اور دل مردہ نہیں ہیں۔۔۔ “

جواب چھوڑ دیں