خدارا! محبتیں بانٹیں

تین گھنٹے کی مغز کھپائی کے بعد ایک ہی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کچھ لوگوں کا’’ کوا‘‘ سفید ہی ہوتا ہے۔ اور’’ میں نہ مانوں ‘‘ان کے اتنے اندر تک دھنس چکا ہوتا ہے کہ کوئی بات سمجھ دانی میں اترتی ہی نہیں۔ لاکھ مثالیں پیش کر دو مگر نتیجہ وہی کتے کی دم ، بارہ برس بھی نلکی میں رکھنے کے بعد ٹیڑھی نکلے۔ہوا کچھ یوں کہ میرے ایک عزیز جو اپنے مخالف مسلک کا سمجھ کرمجھ سے کوئی سوال پوچھ بیٹھے۔ میں نے جواب ان کی امید کے خلاف دیا۔ بس پھر کیا تھا جھٹ سیکانوں کو ہاتھ لگاتے اٹھ کھڑے ہوئے ہاں !ہاں! تم تو ہو ہی ایسے، مشرک، گستاخ، اور دروازے کی طرف بڑھ گئے۔ بمشکل انہیں منا کر بٹھایا کہ حضور !ایسی کوئی بات نہیں۔ یہ تو اپنا نکتہ نظر بتلایا ہے اور باقاعدہ دلیل بھی پیش کر دی۔ مگر وہ تھے کہ کچر کچر زبان چلا کر مجھے کافر بنا دیا۔ خدا بھلا کرے میرے دوست کا، جس نے آکر معاملہ رفع دفع کیا۔ وگرنہ؛ یقین کیجیے ان پر تو خون سوار ہو چکا تھا۔ وہ کہتے ہیں نا کمبختی آئے تو اونٹ چڑھے کو کتا کاٹے، یہ محاورہ مجھ پر صادق آرہا تھا۔
اس بحث سے ایک اور بات یہ بوجھی کہ معاشرے کی رگوں میں نفرتیں اس حد تک سرائیت کر چکی ہیں کہ مقابل مسلک والے زہر لگتے ہیں۔ بات اگرچہ برحق ہوگی مگر چوں کہ بتانے والے کسی اور دکان کے خریدار ہیں اس لیے وہ دو نمبر یعنی غلط ہی ٹھہرے گی۔ اپنا عیب ہی ہنر معلوم ہوگا۔برداشت کا مادہ ہی ختم ہو چکا۔ تعصب کی عینک کسی طور اترتی ہی نہیں۔ کٹی ہوئی ٹکٹیں تھام رکھی ہیں۔ معمولی سی بات، معمولی سے اختلاف، معمولی سی کج فہمی پر جہنم کا ٹکٹ لا تھمایا جاتا ہے جیسے خدا نے جنت انہیں ٹھیکے پر دے رکھی ہو۔ حد تمام تب ہوتی ہے جب اچھا بھلا سمجھ بوجھ والا آدمی بھی کافر کا لیبل چسپاں کر دیتا ہے۔ کہ بس!! میں جنتی؛ باقی سارے جہنمی۔۔۔۔ یہ ٹکٹ اور لیبل ہر ہی مسلک کے پیروکار کی جیب سے (سوائے چند کے) برآمد ہوجاتی ہے۔ اور ان ٹکٹوں، لیبلوں کی فروخت میں مرکزی کردار اس مسلک کے وڈیروں کا، زعما کا ہے۔ جو نفرت کے پرچارک تو ہیں محبتوں کے ہر گز نہیں۔ وہ اپنے معتقدین کو برداشت، رواداری کا سبق نہیں دیتے۔ جو نفرت کا ہی سبب بنتے ہیں۔ جو عالم تو نہیں البتہ کٹھ ملا ہو سکتے ہیں۔(ہاں البتہ چند گنے چنے نام ہیں جو محبتوں کا درس دیتے ہیں۔ جو محبت کرنا سکھاتے ہیں۔ جو بتاتے ہیں کہ ہر شخص قابل عزت، قابل احترام ہے۔ اس کے لیے ہم مسلک ہونا ضروری نہیں)۔
جنہیں معتقدین صرف فتوی الاپتے دیکھتے ہیں۔ پھر جب اس کٹھ ملا کی بتائی بات کے الٹ، کسی مسلمان کو،اس معتقد نے دیکھ لیا۔ فورا اس کا وہ عمل اٹھایا اور اس عالم کی کسوٹی پر پرکھ کر فورا سے پہلے کافر کا لیبل چسپاں کر دیا، تو کبھی گستاخ بھاور کرا کر چھوڑا۔ ارے بھائی! مان لیا آپ ہی تقوی میں لتھڑے ہوئے، گناہوں سے پاک صاف ہیں۔ کوئی کمی کجی نہیں ہے فرشتہ ہیں آپ تو۔۔۔ لیکن ہم تو بھائی انسان ہیں۔ ہم سے کمیاں بھی ہوتی ہیں۔ کوتاہیاں بھی سرزد ہوتی ہیں۔ لیکن معافی دینے والی ذات تو خدا کی ہے نا۔۔۔ آپ ہمارے لیے کوئی معیار نہ ہی طے کریں۔ ہمیں امید دلا سکتے ہیں تو دلائیں۔ گناہ گار ٹھہرا کر جہنم میں تو نہ دھکیلیں۔ ویسے آپ ہوتے کون ہو معیار طے کرنے والے؟ اللہ نے کیا آپ کو اس واسطے اتارا دنیا میں؟ کہ تم ایک ایک کو پکڑ کر جہنم کے سپرد کر دو؟ حالاں کہ حضور علیہ السلام کی محنت تو یہ تھی کہ ہر ہر شخص جہنم سے بچ کر جنت میں جانے والا بن جائے۔
دیکھیے! اختلافات بجا ہیں۔ ہر شخص کی نظر، فکر جدا ہے۔ ہر مکتب فکر ہر مسلک کے درمیان اختلافات ہوں گے۔ اور ضرور ہیں لیکن ان اختلافات کو آپسی رنجشوں، نفرتوں کا سبب تو نہ بنائیں۔ علماء اپنے اپنے حلقہ میں فتوی بازی پر بین لگا دیں۔ کوئی کسی پر فتوی نہ الاپے، تا کہ مذہبی جنونیت کے راستے کا پھاٹک بند ہو۔ فتاوی کے لیے ملک بھر میں مستند دارالفتاء موجود ہیں۔ ان کا کام انہی پر چھوڑیں۔ آپس میں محبتوں کو پروان چڑھائیں۔ الجھنوں کو ختم کریں۔ مان لیں کہ کوا کالا ہی ہوتا ہے۔ اگر یہ جمع تفریق کا کھیل ختم نہ ہوا تو خیال کیجیے ہماری ہی اولاد اس آگ میں جلے گی اور بھسم ہو جائے گی تب ہم چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کر پائیں گے۔
میں جانتا ہوں کہ آپ ہی جنت کے ٹھیکدار ہیں لیکن خدارا مقابل کو جہنم کا ٹکٹ نہ تھمائیں۔ جنت میں جگہ نہیں دلا سکتے، جنت کے راستوں کی طرف رہنمائی نہیں کر سکتے، جہنم کی عمیق وادی کے سپرد تو نہ کریں۔ محبت نہیں دے سکتے نفرت تو نہ دیں۔ میں قابل نفرت ہرگز نہیں لیکن آج مسلک کی چھاپ نے بتا دیا کہ ہوں ہی نفرت کے قابل۔۔۔ ٹھیک کہا انہوں نے میں گستاخ ہوں۔ میں ان مسلک ،مسلک کے کھیل کا قائل نہیں۔ میں ان اکابر زعما کا گستاخ ہوں جو خود دکانیں سجائے بیٹھے ہیں۔ خدا تعالی کے دین پر بولی لگاتے ہیں۔ اسلام کا پتہ استعمال کرتے ہیں۔ خدارا! مسلک مکتب فرقہ کے جمع تفریق کا کھیل بند کر دیجیے۔ ہم مزید ان نفرتوں کے متحمل نہیں۔ ہمیں محبتیں چاہیءں۔
خدارا! محبتیں پھیلائیں۔ سلامتی کا باعث بنیں۔ آپ کسی بھی مکتب، مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ دوسرے مسلک مکتب والوں کو عزت دیں۔ محبت دیں، نہیں دے سکتے؟ تو نفرت بھی نہ دیں۔ ایک خدا، رسول، کتاب کو ماننے والے کن چکروں میں الجھ کر رہ گئے۔ خدارا!!!! اپنی آنے والی نسلوں پر رحم کیجیے۔ خدارا!!!!

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں