عافیہ کے حقوق نسواں؟

ہرسال ’’عالمی یوم خواتین‘‘منانے کا مقصد یہ بیان کیا جاتا ہے کہ کسی امتیاز کے بغیرمعاشرے میں مساوی حقوق حاصل کرنے کیلئے خواتین کی جدوجہد ’’انسانی حقوق‘‘ کا احترام کرنے کے بارے میں اجتماعی کوشش کرنا ہے۔ لہذا ’’انٹرنیشنل ویمن ڈے‘‘ کو اپنا دن سمجھ کر منائیں کہ آپ معاشرے میں خواتین کیلئے حقیقی مثبت فرق قائم کرنے کیلئے کیا کرسکتے ہیں۔
عورتوں کے حقوق کے حوالے سے مغرب کا فلسفہ اپنی جگہ مگر کیا پاکستان سمیت مسلمانوں کے کسی ملک میں خواتین کے حقوق کیلئے دن منانے کی ضرورت ہے؟ ایسا ملک جہاں کی اکثریت کا دین اسلام ہو جو سکھاتا ہے کہ بیٹی ایک نعمت ہے، بیٹی کا ہونا شرم کی بات نہیں ہے اور جنت ماں کے پیروں کے نیچے ہے۔ عصمت دری ایک ناقابل معافی جرم اور ناقابل قبول گالی ہے۔ اس لئے خواتین کے دن کے موقع پرتقاریر اور سیمنار منعقد کرنا خواتین کے تحفظ، فلاح و بہبود کیلئے کافی نہیں ہے ۔
عافیہ کو ”Woman of the Century” کا خطاب امریکی تنظیم آئی آر سی (IRC) نے دیا ہے۔ اس سال نیویارک میں عورتوں کا عالمی دن Free Political Prisoners کے عنوان سے عالم اسلام کی دو بیٹیوں دختر پاکستان ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور دختر فلسطین احد تمیمی سے منسوب کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی، ساؤتھ افریقہ، برطانیہ میں برمنگھم، مانچسٹر، ناروے ، ترکی اور کئی دیگر ممالک میں ’’عالمی یوم خواتین ‘‘ ڈاکٹر عافیہ سے منسوب کیا جارہا ہے۔ میری پاکستان میں تمام انسانی اور عورتوں کے حقوق کی جماعتوں کے رہنماؤں سے اپیل ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی قید ناحق کے خاتمہ اور وطن واپسی کیلئے آگے بڑھ کر بھرپور کردار ادا کریں۔
عورتوں کے حقوق کے حوالے سے صورتحال تشویشناک ہونے کے ساتھ ساتھ شرمناک بھی ہے۔ دیہات کی عورت مرد کے ساتھ کھیتوں، کھلیانوں اور بھٹوں میں مساوی مزدوری کرنے کے باوجود معاشرتی اور معاشی حق سے محروم ہے۔ گھریلو کمسن ملازمائیں نہ صرف چائلڈ لیبر قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے بلکہ تشدد کا شکار ، تحفظ اور انصاف سے محروم ہے۔ دیہاتوں میں کاروکاری اورنو عمر لڑکیوں کی قرآن سے شادی جیسی جاہلانہ رسومات کو ختم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی ہے۔ شہروں میں اسکول، کالج، یونی ورسٹی، اسپتال، دفاتر اور فیکٹریوں میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اگر خواتین کے عالمی دن کے موقع پر عافیہ کی پندرہ سالہ طویل قید ناحق پر نظر دوڑائی جائے تو دنیا بھر کیلئے یہی پیغام ہے کہ عافیہ وہ شخصیت ہے جس نے اکیلے عورت پر تاریخ میں ہونے والے ہر ظلم کو سہا ہے۔
عافیہ کے ساتھ ہونے والے مظالم کا جائزہ لیا جائے تو وہ کون سا ظلم ہے جو اکیلی عافیہ پر نہیں کیا گیا۔ ایک عورت کو جس طرح ستایا جاسکتا ہے وہ تمام حربے عافیہ پر آزمائے گئے ہیں یا دوسرے لفظوں میں ایک عورت پر جو جو مظالم کئے جاسکتے ہیں وہ تمام مظالم اکیلی عافیہ نے سہے ہیں۔ذرا سوچئے، اغواء اسے کیاگیا، بچے اس سے چھینے گئے، سرحد پار انسانی اسمگلنگ کا جرم اس کے ساتھ کیا گیا،خفیہ عقوبت خانے میں انسانیت سوز مظالم اس پر ڈھائے گئے، پانچ سال تک اسے لاپتہ رکھا گیا،گولیاں اسے ماری گئی، پاکستانی شہری ہونے کے باوجود غیرقانونی طور پر پہلے پاکستان سے افغانستان اور پھرافغانستان سے امریکہ منتقل کیا گیا،جھوٹا اور من گھڑت مقدمہ اس پر قائم کیا گیا،امریکی جیل میں برہنہ کیا گیا ، کپڑوں کی واپسی کیلئے قرآن پاک اس کے قدموں پھینک کر چلنے کا کہا گیا، عدالت میں قانونی دفاع کے حق سے محروم رکھا گیا،مرضی کے وکیل کرنے کا حق اس سے چھین لیا گیا، جو جھوٹا الزام لگایا گیا تھا وہ ثابت نہ ہونے کے باوجود 86 سال کی ناقابل فہم سزا سناکر اب اسے امریکی جیل کی اندھیری کوٹھری میں قید تنہائی کی اسیر بنا دیا گیا ہے۔
انسانی اور عورتوں کے حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے مارچ کے مہینہ کا عافیہ کی زندگی سے گہرا تعلق بنتاہے۔ 2 مارچ عافیہ کی پیدائش کا دن ملک بھر میں عقیدت اور احترام کے ساتھ منایا گیا۔گذشتہ کئی سالوں سے 8 مارچ کو ’’عورتوں کے حقوق کا عالمی دن‘‘ عافیہ کے نام منسوب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔23مارچ، 1998 ء میں ’’یوم پاکستان‘‘ کے موقع پر عافیہ کو ’’پرائڈآف پاکستان‘‘ ایوارڈ ملاتھا جبکہ 30مارچ کو عافیہ اور اس کے تین کمسن بچوں کو کراچی سے اغواء کرکے امریکیوں کے حوالے کیا گیا تھا۔
مہذب معاشروں میں خواتین کا احترام کیا جاتا ہے، انہیں بیچا نہیں جاتا ہے۔خواتین ماں، بہن ، بیٹیوں کے حقوق کا ایک نہیں بلکہ سال کا ہردن مختص ہے۔عورت ماں ، بہن ، بیٹی اور بیوی ہر رشتہ میں قابل احترام ہے۔ ہمارے دین اسلام نے تو ہر مومن کی منزل ’’جنت ‘‘کو ماں کے قدموں تلے رکھ دیا ہے۔ کسی عورت کا اس سے بڑھ کر احترام نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اگر خواتین کے حقوق کا احترام نہ کیا جائے تو عالمی دن منانے کا مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ کسی بھی قوم کی غیرت اور حمیت کی پہچان ان کے معاشرے میں ماں ، بہن اور بیٹی کے مقام سے ہوتی ہے مگر افسوس ہم 21 ویں صدی کے آج کے اس ترقی یافتہ دور میں پستی کی سمت میں سفر کررہے ہیں۔
خواتین میں تعلیم کا فقدان ان کی معاشرتی اور معاشی حیثیت قائم کرنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ تعلیم صرف ڈگری کا نام نہیں ہے۔ اپنے نام کے آگے ڈگریاں درج کرنے سے کوئی تعلیم یافتہ نہیں بن جاتا ہے۔ تعلیم اصل میں انسانی سوچ اور رویوں میں شعوراجاگر کرنے اورعملی زندگی میں حکمت اپنانے کا نام ہے۔ عافیہ کا خواب تعلیم یافتہ پاکستان تھا تاکہ ایک باشعور قوم اور ترقی پذیرملک کے پرچم کو اقوام عالم میں سربلند کیا جاسکے۔
خواتین کے حقوق اور ان کی حفاظت کے حوالے سے تو مسلمانوں کی تاریخ قابل فخر رہی ہے۔ پیغمبر اسلام محمد رسول اللہ ﷺ نے خاتون جنت بی بی فاطمہؓ کیلئے چادر بچھاکر دور جہالت میں عورتوں کے احترام کی جو بنیاد رکھی تھی اسے بعد میں آنے والے مسلم حکمرانوں ، ائمہ کرام اور دانشوروں نے بلند ترمقام تک پہنچا یا تھا۔ اقوام عالم کی تاریخ میں محمد بن قاسم، طارق بن زیادمعتصم باللہ اور سلطان محمد فاتح بیٹیوں کی حرمت کی حفاظت کرکے امر ہوگئے۔ جب مسلمان اپنی تاریخ سے روگردانی کرنے لگے تو ان میں ایسی ماؤں کا فقدان ہوگیا جنہوں نے ،محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، عمربن عبدالعزیز، معتصم باللہ، سلطان محمد فاتح، سلطان صلاح الدین ایوبی، محمود غزنوی اور ٹیپو سلطان جیسے جراتمند، نڈر اور عادل حکمرانوں کو جنم دیا تھااوراسلامی تاریخ میں ایک ایسا حکمران برسراقتدار آگیا جس نے چند روزہ حکمرانی اور ٹکوں کے لالچ میں مسلمانوں کی تاریخ پر ’’بیٹی فروشی‘‘ کا شرمناک دھبہ لگا دیاجسے مٹانے کیلئے عافیہ موومنٹ ملکی اور عالمی سطح پر عافیہ کی وطن واپسی کیلئے 15 سال سے جدوجہد کررہی ہے تاکہ مستقبل کا مورخ ہمیں ’’بیٹی فروش‘‘ قوم کے طور پر یاد نہ کرے مگر افسوس کہ دینی حمیت، قومی غیرت اور سیاسی جرات سے عاری 9 وزرائے اعظم گذرگئے۔

جواب چھوڑ دیں