جاوید چوہدری کی خدمت میں

یہ بات مسلم ہے کہ امت مسلمہ اس وقت بہت سے مشکلات کا شکارہے، ہر طرف سے حوادثات اور مشکلات نے جکڑا ہوا ہے، ان مشکلات میں جتنا غیروں کا ہاتھ ہے اس سے کئی گنا زیادہ اپنوں کا ہاتھ بھی ہے۔جس کی سب سے بڑی وجہ آپس کے اختلافات ہیں، اس وقت مسلمان تفرقہ بازی اور فرقہ پرستی کے ساتھ ساتھ دو اور طبقوں میں بھی تقسیم ہیں، ایک مذہبی طبقہ دوسرا سیکولر طبقہ ، جن کے درمیان اکثر و بیشتر کشمکش چلتی رہتی ہے، سیکولر طبقہ جو کہ یورپ سے بہت زیادہ متاثر ہے وہ قدم بہ قدم یورپ کی مدح سرائی کرتے نہیں تھکتے، وہ بات بات پر یورپ کی مثال دیتے نہیں شرماتے۔
اس مرتبہ تو حد ہی کردی ہے ایک معروف و مشہور دانشور صاحب نے تو اسلام کی شاندار اور جاندار تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے، یورپ اور امریکہ کے پیسوں سے پلنے والے انگریزوں کے آلہ کار نے تاریخ اسلام کو خون ریزی اور قتل و غارت گری سے تشبیہ دی ہے، ایکسپریس نیوز کے اینکر اور روزنامہ ایکسپریس کے کالم نگار جناب جاوید چوہدری اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ہم نے چودہ سو سالوں میں کیا کیا، ہم نے جنگوں، لڑائیوں اور حرام خوری کے علاوہ کچھ نہیں کیا، دانشور صاحب لکھتے ہیں کہ آپ 2018 سے ہزار سال پیچھے جائیں تو آپ کو محمود غزنوی ہندوستان پر حملہ کرتا نظرآئے گا، آپ کو عرب میں لاشیں بکھری پڑی نظر آئیں گی۔ محترم آپ کو اگر عیسائیت کے بجائے اسلام سے عقیدت اور محبت ہوتی تو آپ کبھی اسلام اور مسلمانوں کے لیے قربانی دینے والوں کی قربانیوں کا مذاق نہ اڑاتے، آپ کبھی ان کے بے لوث قربانیوں کو فساد اور حرام خوری قرار نہ دیتے۔ دانشور صاحب یہ سطور لکھتے ہوئے آپ کو اسلام کی عفو و درگزر سے بھری تاریخ نظر نہیں آئی، آپ کو فتح مکہ یاد نہ آیا، آپ کو صلح حدیبیہ کی ناموافق شرائط پر دستخط کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نظرنہیں آئے، وادی طائف میں لہولہان رسول صلی اللہ علیہ و سلم نظر نہ آئے جو اللہ کا حکم لانے والے جبرائیل علیہ السلام سے اپنے دشمنوں کو بچانے کے لیے سفارش کرتے رہے، یورپ اور امریکہ کی عقیدت مندی میں یہ سطور لکھتے ہوئے آپ شاید یہ بھول گئے کہ تاریخ انسانی میں سب سے زیادہ قتل و غارت یورپ اور امریکہ نے کی ہیں، جنگ عظیم اول میں دو کروڑ جبکہ جنگ عظیم دوئم میں پانچ کروڑ انسان لقمہ اجل بنے، یہ جنگیں کرنے والے ممالک کوئی اور نہیں بلکہ یہی یورپی دہشت گرد ممالک تھے، دانشور صاحب آپ یہ بھول گئے کہ تاریخ انسانی میں سب سے پہلے ایٹم بم امریکہ نے استعمال کیا، ہیروشیما، ناگاساکی اور جاپان میں لاشوں کے دھیر لگانے والے یورپ کے دہشت گرد نہیں تو اور کون تھے۔ عراق، شام، مصر، افغانستان،سیریا میں قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ یہ یہی یورپی دہشت گرد ہیں، جن کا کام دنیا میں فساد برپا کرکے، ملکوں کو آپس میں لڑا کر اپنا اسلحہ بیچنا اور اپنے مفادات حاصل کرنا ہے، جو زمین کو پرامن بنانے کے بجائے جنگ زدہ دیکھنا چاہتے ہیں۔
دانشور صاحب آگے لکھتے ہیں کہ ہم مسجدوں میں یہودیوں کے پنکھے اور اے سی لگاکر، عیسائیوں کی ٹونٹیوں سے وضو کر کے، کافروں کے ساونڈ سسٹم پر اذان دے کر ان سب کی بربادی کے لیے بدعائیں کرتے ہیں، یہ لکھنے کے بعد شاید اپنے ان سطور کو بہت ہی جلد بھول گئے کہ چار پانچ سطور آگے لکھ دیا کہ جنگ عظیم اول سے قبل پورا عرب ایک تھا، یہ خلافت عثمانیہ کا حصہ ہوتا تھا، یورپ نے 1918ء میں عرب کو 12 ملکوں میں تقسیم کردیا، جب چوہدری صاحب خود تسلیم کرتے ہیں کہ یورپ امت مسلمہ کا دشمن ہے یورپ نے امت مسلمہ کو فرقوں اور ٹولوں میں تقسیم کیا ہے تو بھلا کون ہوگا ایسا پاگل جو اپنے دشمن کے لیے دعائیں کرتا ہوگا، یورپ نے پورے امت مسلمہ کو تقسیم کر ڈالا وہ امن پسند جب کہ امت مسلمہ کی صرف بدعاوں سے تکلیف ہوتی ہے۔
دانشور صاحب امت مسلمہ کی ناکامی کے داستان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہم نے کیا چیز ایجاد کی ہے، ہم نے پانچ سو سال سے دنیا کو کوئی دوا، کوئی ہتھیار، کوئی نیا فلسفہ، کوئی اچھی کتاب اور کوئی اچھا قانون نہیں دیا، دانشور صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ کیا قرآن مجید کتاب کامل نہیں؟ اس کتاب کے ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں کے لیے کسی اور قانونی کتاب کی ضرورت ہے؟ کیا اسلام کامل واکمل قانون حیات نہیں؟ ان سے بڑھ کر دنیائے یورپ کے پاس کوئی کتاب کوئی قانون موجود ہے، کیا یہ شعبہ ہائے زندگی کے لیے ایک کامل و اکمل دستور حیات نہیں، کیا قانون اسلام کے ہوتے ہوئے کسی اور قانون کی ضرورت ہے؟ یورپ اور امریکہ کے بنے ہوئے قانون سے انصاف کی آس لگانا بیل سے دودھ نکالنے کی مترادف ہیں، انسانوں کی زندگیاں تو ختم ہوسکتی ہیں مگر یورپ کے قانون سے کسی کو انصاف نہیں مل سکتا۔
آگے دانشور صاحب چور مچائے شور والی کہاوت کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں کا یہ حال ہے کہ اگر ان کے بوڑھے والدین کی دیہاڑی نہ لگے اس دن ان کے گھر کا چولہا نہیں جلتا، کاش کہ دانشور صاحب کو یہ خیال آچکا ہوتا کہ ملک کے دولت کس کے پاس ہے، ان غریب نوجوانوں کا یہ حال کیوں ہے؟ ان کے گھر میں فاقے کیوں پڑتے ہیں؟ ان کو تعلیم اور روزگار مہیا کیوں نہیں ہے؟ کاش کہ ان غریب نوجوانوں سے گلہ کرنے کے بجائے ذرا ان بڑے مگرمچھوں سے بھی گلہ کرلیتے جنہوں نے پورے ملک کے دولت کو لوٹ لیا ہے، جن کی کرپشن اور بدعنوانیوں نے غریب عوام کا جینا محال کردیا، جنہوں نے غریب عوام کے پیسوں سے بیرون ممالک میں عالی شان محل بنا لیے ہیں، جنہوں نے تعلیم و تدریس کو غریب کے پہنچ سے دور رکھا ہے، اگر کوئی غریب تعلیم حاصل بھی کرلے، کوئی غریب ڈگری حاصل بھی کر لے مگر رشوت کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے غریب در در کے ٹھوکرے کھاتے ہیں، جبکہ امیروں کی اولاد جعلی ڈگریاں بنوا کر، رشوتیں دی کر نوکریاں حاصل کرلیتی ہیں۔
آخر میں حسب معمول اس معاشرے کے سب سے زیادہ مظلوم طبقے پر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ ہمارے علماء کی تقاریر سن لیں جو اپنے مائیک کی تار ٹھیک نہیں کرسکتے، جو اپنا پیغام اپنے مریدوں تک مارک زکربرگ کی فیس بک کے ذریعے پہنچاتے ہیں، جو لوگوں کو تھوکنے کی تمیز تک نہیں سکھاسکے، ان کے تقایر سے آپ کو ایسا محسوس ہوگا کہ نعوذبااللہ پوری کائنات کا نظام مولانا اللہ دتہ چلا رہے ہیں، دانشور صاحب یہ سطور لکھتے ہوئے شاید یہ سمجھ رہے تھے کہ مدارس میں سائنس، بیالوجی اور ٹیکنا لوجی کی تعلیم دی جاتی ہے، وہ یہ بھول گئے کہ یہ تعلیم تو کالج اور یونیورسٹیوں میں دی جاتی ہیں، انجینئر اور ڈاکٹر پیدا کرنا توکالج اور یونیورسٹیوں کی ذمہ داری ہے نہ کہ مدارس اور مساجد کی، دانشور صاحب ایٹم بم بنا اور سائنس پر ریسرچ کرکے جدید ہتھیار بنانا کالج اور یونیورسٹیوں کی ذمہ داری ہے، مدارس کی ذمہ داری حفاظ کرام و علماء کرام تیار کرنا ہے جو کہ مدارس احسن انداز میں تیار کررہے ہیں، آپ کے کالج اور یونیورسٹیاں لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں، جب کہ مدارس کے پاس ایک روپے کا بجٹ نہ ہونے کے باوجود صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے جید علماء کرام، مفتیان عظام اور حفاظ کرام پیدا کررہے ہیں، جو صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں امت مسلمہ کی دینی راہنمائی کررہے ہیں، برخلاف آپ کے یونیورسٹیوں کے پڑھے ہوئے کو یورپ کی یونیورسٹیوں میں داخلہ تک نہیں ملتا، چوہدری صاحب کچھ معلوم ہوا کہ مائیک کی تار سہی کرنا علماء کا کام نہیں بلکہ دینی راہنمائی کرنا علماء کی ذمہ داری ہے۔

جواب چھوڑ دیں