ماں کا قاتل

سارہ کو اللہ نے چاند سا بیٹا دیا تھا۔ بچے کی آمد کی خوشی اپنی جگہ مگر سارہ کا شوہر بیمار ہوگیا تھا۔ شوہر کی بیماری مسلسل بڑھ رہی تھی۔ اس وجہ سے بیٹے کی خوشی بھی وہ کھل کر نہیں منا پائی تھی۔ سارہ کو عبداللہ نام بہت پسند تھا۔ اس نے اپنے شوہر سے مشورہ کیا اور پھر اس بچے کا نام عبداللہ رکھ دیا گیا۔
وہ ایک غریب سے گاؤں میں رہتے تھے۔ جیسے تیسے یہ گھرانہ چل رہا تھا مگر پھر شوہر کا انتقال ہوگیا۔ سارہ بالکل اکیلی اپنے چھوٹے سے بیٹے کے ساتھ رہنے لگی۔ ان کے گھر آمدنی کا بھی کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ زندگی گزر بسر کرنا بہت مشکل ہوگئی تھی۔ سارہ نے کچھ سوچا اور پھر لوگوں کے گھروں میں کام کرنا شروع کردیا۔ ادھر عبداللہ بھی رفتہ رفتہ بڑا ہونے لگا اور پھر ایک دن اسے اسکول داخل کرادیا۔ اسکول جانے کے بعد سارہ کو مزید محنت کرنا پڑی۔ جس کی وجہ سے اس نے کچھ دیگر گھروں میں بھی کام کرنا شروع کردیا۔
سارہ اپنی اولاد کی خاطر لوگو ں کی باتیں بھی سنتی اور دل ہی دل میں روتی رہتی تھی۔ اللہ سے اپنے حال پر رحم کی دعا بھی مانگتی رہتی۔ مشکل پریشانی میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب عبداللہ جوان ہوگیا تھا۔ اس نے میٹرک مکمل کرلی تھی اور کالج جانے لگا تھا۔ ماں کی پوری کوشش تھی کہ اچھی سی اچھی تعلیم و تربیت دے۔ اس لیے وہ اپنے بیٹے عبداللہ کو آوارہ لڑکوں کے ساتھ نہیں گھومنے دیتی تھی۔
عبداللہ نے خوب محنت کی اور اپنی والدہ کی حالت دیکھ کر اسے کئی بار لگتا تھا کہ وہ پڑھائی چھوڑ کر کہیں کام کرنے لگ جائے مگر اس کی ماں نے ہمیشہ اسے ایسی کسی بھی حرکت سے منع کیا اور بالآخر عبداللہ کی تعلیم مکمل ہوگئی۔ اچھی تعلیم اور بہتر تربیت کی وجہ سے عبد اللہ کو اچھی جاب مل گئی۔ جاب کے لحاظ سے عبداللہ کی تنخواہ بھی اچھی تھی اور یوں وہ دنوں ہی میں پرانی حالت سے اچھی حالت میں آنے لگے۔ عبداللہ نے شہر میں گھر خریدا اور پھر والدہ کو لے کر وہیں منتقل ہوگیا۔ ماں جب بھی اپنے بیٹے کو دیکھتی اسے اپنی محنت اور تربیت پر ناز ہوتا تھا۔ وہ اپنی تمام مشکلات کو بھول جاتی اور یوں اس کی برسوں کی تھکان چند منٹوں میں اتر جاتی۔ وہ ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرتی کہ اللہ نے بالآخر اس کے دن پھیر دیے تھے اور اس کی سن لی تھی۔
عبداللہ تو تھا ہی مگر سارہ کو بیٹی کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی رہی۔ سارہ نے عبداللہ کی شادی کرنے کا سوچ لیا۔ عبداللہ سے بات کر کر کے اپنے لیے شہر سے ایک اچھی سی بہو لے آئی۔ بہو کے گھر میں آتے ہی رونقیں ہی رونقیں لگ گئیں۔ سارہ نے بہو کی صورت میں ہمیشہ بیٹی کو دیکھی۔ چند روز بعد اللہ نے عبداللہ کو بھی ایک پیارا سا بیٹا دیا۔ بیٹا پیدا ہوا تو سارہ کی خوشی کی انتہا نہیں رہی۔ وہ ہر وقت بچے کی دیکھ بھال کرتی۔ سارہ اب بڑھاپے میں پہنچ چکی تھی۔
سارہ کی اب طبیعت بھی خراب رہنے لگی تھی۔ وہ اکثر کھانستی رہتی ۔ شروع شروع میں عبداللہ جیسے جاب سے گھر آتا فوراً ماں کے پاس جاتا اور انہیں دوائیں دے کر پھر سوتا تھا۔ یہ بات سارہ کو جوان رکھے ہوئے تھی۔ مگر پھر جیسے عبداللہ کا رویہ بدلنا شروع ہوگیا تھا۔ اب وہ اس کے پاس بھی نہیں آتا۔ کبھی کبھار بس آکر پوچھ لیتا۔ گویا یہ نظر انداز کرنا ایک بوڑھی ماں کو اور زیادہ کمزور کرگیا۔ اب تو یہ حالت ہوگئی تھی کہ کئی کئی روز تک وہ عبداللہ کی شکل دیکھنے کو بھی ترس جاتی تھی۔ جب کبھی عبداللہ ملتا وہ اس شکایت کرتی تو عبداللہ اپنی نوکری، پھر بچے کی ذمے داریاں اور اپنی بیوی کے ناز نخرے لے کر بیٹھ جاتا۔ اس کا دل کرتا کہ وہ اپنے بیٹے کو یاد لائے کہ اسے کیسے کیسے حال میں پال پوس کر بڑا کیا۔ مگر وہ یہ سب اپنے لبوں تک لانے سے اس لیے گھبراتی تھی کہ کہیں اس کے بیٹے کو برا نہ لگے۔
کچھ دنوں سے موسم بہت سرد تھا اور اس کے کمرے میں سردی کو روکنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ پرانا بوسیدھا سا ایک پلنگ پڑا تھا۔ سردی اس قدر شدید تھی کہ بڑھیا کو برداشت نہیں ہورہی تھی۔ اس نے کئی بار بیٹے کو آواز دی مگر عبداللہ نہیں آیا۔ اس کی کمزور ہڈیاں سردی کی شدت بردشت نہیں کر پا رہی تھیں۔ اس کا بستر بھی کوئی خاص نہیں تھا۔ وہ رات جیسے تیسے اس نے کاٹی مگر اگلے ہی روز خود چل کر عبداللہ کے پاس گئی۔ اس کی آنکھ نم تھیں اور امید بھی کہ وہ عبداللہ سے جو بھی کہے گی وہ فوراً لاکردے دے گا۔ ’’عبداللہ بیٹا! رات بہت سردی تھی، میری پرانی رضائی پھٹ چکی ہے۔ مجھے نئی رضائی لا کر دے دو‘‘۔ اس کے جملوں میں لرزش تھی۔
عبداللہ نے ماں کو بیٹھایا اور پھر رضائی کی بات پر اپنی ایک لمبی سی لسٹ نکال کر سامنے رکھ دی۔ ’’اتنی ساری چیزیں گھر کے لیے لانی ہیں۔ رضائی کے لیے اس ماہ پیسے ممکن نہیں۔ اگر یہ ماں آپ جیسے تیسے گزارہ کرلیں تو میں کوشش کروں گاآئندہ ماہ آپ کو رضائی لاکر دے دوں گا‘‘۔ عبداللہ نے ناراضی جیسا لہجہ اپناتے ہوئے عذر پیش کیا۔ والدہ چھپ چھاپ اٹھ کر آگئی۔ سارہ جس نے ایک رات اتنی مشکل سے کاٹی تھی اس ایک مہینہ کاٹنا پہاڑ لگ رہا تھا۔ مگر اپنے بیٹے کی خوشی کے لیے وہ اٹھ کر آگئی تھی۔ وہ کمرے تک بوجھل قدموں سے پہنچ اور آتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ اس کا دل پھٹ رہا تھا۔ جس بیٹے کی زندگی کے لیے اس نے دنیا جہاں کی باتیں برداشت کیں اس کا سرد لہجہ اس سے برداشت نہیں ہورہا تھا۔ جس بیٹے کے لیے اس نے بارش سے گیلے بستر پر لیٹ گئی اور پوری رات بیٹے کو اپنے اوپر لیٹا کر تھپکی دیتے سلایا تھا آج اسی بیٹے نے اسے ایک ماہ تک سردی میں ٹھٹھرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔
خیر قسمت کے سامنے اس نے ہار ہی مان لی تھی۔ رات بس جاگتے، تڑپتے ، روتے ہی گزرتی۔ دو دن تک یہ سلسلہ رہا مگر سارہ کی زبان مکمل طور پر گنگ ہوچکی تھی۔ اس رات بہت زور کی بارش ہوئی تھی۔ سردی کی شدت میں اضافہ ہوچکا تھا۔ پارہ منفی پر چلا گیا تھا۔ سارہ کا دل چاہ کہ وہ اپنے بیٹے کو بلا کر اپنے پاس بیٹھائے رکھے۔ کئی بار آوازیں دینے کے باوجود عبداللہ نہیں آیا۔ سب لوگ گہری نیند سوگئے۔ رات دھیرے دھیرے بیتنے لگی۔ ہر سیکنڈ منٹ اور ہر منٹ گھنٹے کی رفتار سے گزرنے لگا۔ رات گویا ایک صدی کی ماند ہوچکی تھی اور پھر وہ صدی بھی بیت گئی۔
صبح سورج کی کرنوں سے نئے دن کا آغاز ہوچکا تھا۔ رات کی بارش سے سب کچھ دھل کر اجلا اجلا ہوچکا تھا۔ عبداللہ نے اٹھتے ہی سب سے پہلے اپنے بیٹے کو گود میں لیا۔ بہت سارا پیار کیا۔ پھر ناشتے کی ٹیبل بھی سج گئی۔ سب نے خوب سیر ہوکر ناشتہ کیا۔کسی بھی سارہ کا خیال نہیں آیا۔ عبداللہ نے جلدی جلدی آفس جانے کی تیاری کی۔ جیسے ہی وہ گھر سے نکلنے لگا اس کی نظر ماں کے کمرے کی جانب اٹھ گئی۔ کمرے کا دروازہ بند تھا۔ کسی کے ہونے نہ ہونے کا احساس تک نہیں ہورہا تھا۔ اچانک اس کے قدم ماں کے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔ اس نے دھیرے سے کمرے کا دروازہ کھولا۔ اس کی ماں کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ واضح محسوس ہورہی تھی۔ عبداللہ نے آگے بڑھ کر ماں کو بلایا۔ مگر کوئی آواز نہیں آئی۔ اس نے ہلکے سے ہلا کر جگانے کی کوشش کی مگر وہ نہیں اٹھیں۔ اسے خدشہ ہوا اور پھر وہ یقین میں بدلتا چلا گیا۔ ایک دم سے عبداللہ لگا جیسے اس کے قدموں نے ساتھ دینے سے انکار دیا ہو۔ وہ وہیں کھڑے کھڑے گر گیا۔ سارہ دنیا سے آنکھیں پھیر چکی تھی۔
عبداللہ کی دنیا اجڑ چکی تھی۔ ماں جیسی عظیم نعمت اس سے کہیں دور چلی گئی تھی۔ عبداللہ کو ماں کے چہرے کی مسکراہٹ دیکھے گویا صدیاں بیت چکی تھیں۔ مگر اب وہ مسکراہٹ اس کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کی پچھتاوہ بن چکی تھی۔ وہ پچھتاوا جس سے وہ کبھی بھی پیچھا نہیں چھڑا پائے گا۔ انتقال کی خبر سنتے ہی سب لوگ جمع ہوگئے۔ عبداللہ کو سعادت مند بیٹے جیسے القابات سے نوازا جانے لگا۔ کسی نے ماں کی خدمت پر جنت کی نوید سنائی۔ کسی نے ڈھیروں دعائیں دیں۔ کسی نے عبداللہ جیسے بیٹے سب کو دینے کی دعا دی۔
اس وقت عبداللہ کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ چیخ چیخ کر سب کو بتائے کہ اس کی ماں مری نہیں بلکہ اس نے اپنی ماں کا قتل کیا ہے۔ وہ قاتل اور ظالم بیٹا ہے نہ کہ سعادت مند۔ اس کا دل چاہ کہ وہ سب کو بتا دے اس جیسا بیٹا کسی ماں کو نہ ملے۔ جس کے لیے اس کی مان نے سب کچھ لٹا دیا اسی نے اپنی ماں کا گھلا گھونٹ دیا۔ اسے اپنے انجام سے خوف آرہا تھا۔ مگر شاید اب کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اب اس کے ہاتھ سے سب کچھ نکل چکا تھا۔ ماں چل دیں مگر اس کے لیے ہمیشہ کا پچھتاوا رہے گیا۔
قارئین! نا جا نے ایسی کتنی ہی مائیں اس دنیا سے ایسی حالت میں رخصت ہوجاتی ہیں۔ خدارا اپنی ماں، اپنی جنت کی ایک پکار کا جواب دے دیں۔ ہوسکتا ہے اس کی ایک پکار کے پیچھے اس کی پوری زندگی ہو۔ ماں باپ کو کبھی نظر انداز نہ کریں۔ بس ایک بار یہ سوچ لیں کہ جب تم کچھ نہیں تھے تب انہوں نے تمہارے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔ ماں وہ عظیم نعمت ہے کہ جس کے دل میں شفقت کے علاوہ کچھ نہیں، خود بے آرام ہوتی ہیں مگر تمہیں آرام پہنچاتی ہیں۔ دن بھر کام کرتی ہیں، تھکن اٹھاتی ہیں مگر کبھی بھی ماتھے پر شکن نہیں لاتیں۔ ماں کا کوئی ثانی نہیں شاید اس کے لیے ماں کے پیروں تلے جنت ہے۔

جواب چھوڑ دیں