روشنی ہی امیدہے

یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ سفرایک درس بھی ہے اوردرسِ عبرت بھی ، اسی لئے توکہاگیاہے زمین پرچلوپھرو، سفرکرواوردیکھوہم نے نافرمانوں کاکیاحال کیا۔یہ انہی لوگوں کاماجراہے جنہوں نے رب کی جانب قدم بڑھانے کی بجائے بے منزل سفر کیااورراہ راست سے بھٹکے ، روشنی کوٹھکراکراندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں ماریں ،یوں وہ لوگ نشان عبرت بنادیے گئے اوران کے آثارراہ گیرکے لئے راہوں میں سجادیے گئے ۔معلوم ہواکہ سفرتوضروری ہے لیکن منزل کاتعین بے حد ضروری ۔یہ حقیقت ہے کہ زندگی جہاں خوشی اورغم سے متصل ہے ، وہیں سفرسے بھی عبارت ہے ۔ہرشخص کو سفرجیسی رحمت یاپھرزحمت سے واسطہ ضرورپڑتاہے ، اگر زندگی میں سفرکرنانصیب نہ ہوتوپھرموت کاٹکٹ کٹنے کے بعدزمین سے آسمان کااورقبرسے اگلے جہان کاسفرلازم ہے ۔
ہمیں بھی کئی اسفارسے پالاپڑا، یہ دعویٰ تونہیں کہ گھاٹ گھاٹ کاپانی پیالیکن اتناضرورہے کہ دیہات دیہات کاپانی چکھا، سب کے رنگ وبواورذائقہ میں انفرادیت تھی لیکن مقصدمتفق یعنی پیاس بجھانا، سوہم نے سفرکے وسیلے اپنی کئی تشنگیاں دورکیں ۔کچھ سفرتودلچسپ اورباعث فرحت ٹھہرے اورکچھ باعث زحمت ، بہرکیف سفرکی جوبھی حالت رہی اسی نے خودکواستادمنوایا۔
قصہ مختصرالہ آبادقصورسے ایک عزیزکابلاواآیا، انکارکی گنجائش کہاں تھی ، ان کاحکم سرآنکھوں پر، کشاں کشاں ان کی جانب چلنے کاقصدکیا، کچھ ضروری امورپاؤں کی زنجیربنے، ان سے جان چھڑاتے چھڑاتے تاخیرکے اسیرہوئے ۔فیصل آبادسے نکلنے سے قبل سورج کب کاچہرہ چھپاچکاتھا، اذانِ مغرب اور نمازِمغرب کااختتام ہوچکاتھا، سفرسے متعلق سن گن لی تومعلوم ہوابھائی پھیروسے رات کوالہ آبادکی گاڑی ملناایساہی ہے جیسے صحرامیں نخلستان یاپھرچشمے کی امید رکھنا۔قلیل مسافت نے طول پکڑااوروقت نے اڑان بھری، ہم بس منہ تکتے رہ گئے ، بھائی پھیروسے بائی پاس کے لئے دوسری سواری ، آگے کے لئے تیسری گاڑی اورپھر چوتھی سواری کے مسافرہوئے۔کافی تگ ودوکے بعدجوچوتھی سواری ملی ، اسے عرف عام میں چنگ چی کہاجاتاہے ۔چنگ چی بابونے پرانے حربے آزمائے ، منزل پرپہنچانے کاوعدہ، نہ مانے توگاڑی نہ ملنے کی دھمکی ، ہم نادان تھے سچ پوچھیں توانجان تھے ،مرتے کیانہ کرتے، اس کی چال بلکہ نرغے میں آگئے ،وہ مکڑی ثابت ہوااورہم مکھی، اس کے بُنے جال میں پھنس گئے ، شامت توپھرشامت ہوتی ہے اسے توآناہی ہوتاہے، ہماری بھی شامت آئی۔
وہ بھی تنہا،ہم بھی اکیلے، راہ پُرخطراورہم بے خبر، چھانگامانگا جیساگھناجنگل ، اندھیری اورٹھنڈی رات، ڈاکوؤں اورلٹیروں کادھڑکا، سہمے ہوئے سے دل میں امیدکادِیا روشن کئے منزل کی جانب رواں دواں ، خوف کے سائے سروں پرمنڈلانے لگے اورہم اس کے زیراثر۔یہ تجربہ پہلاتھااورنہ ہی یہ راہ اجنبی،دن کویہاں سے گزرہواتوبے دھڑک گزرے ، رات کوسانسیں رک رک کراوررکشہ رکے بغیردوڑاچلاجارہاتھا۔جب اندھیرے کی رداء ہم پرتن جاتی توخوف کے سائے اوربھی بھیانک معلوم ہوتے ۔ یہ بات نہیں کہ میں ڈرپوک ہوں اوراندھیروں سے خوف زدہ بلکہ اندھیروں میں چھپے ان لٹیروں کاڈرتھاجوصرف جیبوں پرہی نہیں بلکہ عزتوں پربھی ہاتھ صاف کرتے ہیں ۔ڈراورخوف صرف مال لٹنے کانہیں بلکہ عزت جانے کابھی تھا، فکرصرف اپنی نہیں بلکہ اپنوں کی بھی تھی ،اس لئے کہ میں اکیلانہ تھا،میں بھولانہیں کہ اسی شہرمیں کئی عزتیں لٹیں اور اب بھی یہ ڈاکہ زنی جاری ہے۔
ہم سے دغابلکہ دھاندلی ہوئی،رکشے والے نے اپنی عادت سے مجبور سرِراہ نیندمیں لپٹے ایک گاؤں میں اترنے کاحکم صادرکیا ، انگڑائی لیتے ہوئے انکشاف کیاکہ میرااورآپ کاساتھ یہیں تک تھا، میراگھرآگیا، اب اگرکوئی گاڑی ملی توآپ کے نصیب، کرایہ بھی چارگنازیادہ وصول کیا، چوروں اورلٹیروں سے لٹتے لٹتے بچے اورلٹ بھی گئے جیسا کہنے والے نے کہا کہ کچھ بھی نہ کہااورکچھ کہہ بھی گئے۔ شکرخداکاکہ جیب میں کھلے پیسے موجودتھے ورنہ بندے نوٹ ہاتھ سے جاتے اورہم ہاتھ ملتے رہ جاتے ۔دورسے بس آتی دکھائی دی، پتاچلاکہ سٹاف کی بس ہے ،صاحب بس نے بڑی مشکل سے بس پرسوارہونے کی اجازت مرحمت فرمائی، اس بس کی بھی بس ہوچکی تھی، خیرآسمان سے گرے کھجورمیں تواٹکناہی تھا، سوہم بھی اسی بس میں اٹک گئے۔ یہاں بھی ہمدردی کے بجائے بے دردی ملی، کرایہ دگنادیناپڑا، جو ہو ا سو ہو ا یہ حقیقت توکھلی کہ مجبورہونابھی کتنی بڑی مجبوری ہے ، مجبوری میں انسان اپنے جان ومال یہاں تک کہ عزت بھی لٹادیتاہے ،شایداسی لئے شریعت نے مجبورکواستثناء دیاہے ۔مجبورکے لئے حرام بھی حلال ہوجاتاہے لیکن یہاں تومجبوری سے فائدہ اٹھانے والوں نے اپنے لئے سب کچھ حلال سمجھ رکھاہے ، یہاں گنگاالٹی بہتی ہے ، اکثرپاکستانی اس میں نہ صرف ہاتھ دھوتے بلکہ نہاتے بھی ہیں ،بعض تو کپڑے بھی دھونے بیٹھ جاتے ہیں ۔
چلتے چلتے بس اچانک راستے سے ہٹ کر کسی راستے پہ مڑگئی، پیچھے دیکھتے توکوئی ہل چل نہیں ، سامنے نظرجاتی توکسی ذی روح کانام ونشان نہیں ، اوپرکاسانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ گیا،رگوں میں دوڑتاخون منجمدہوتامحسوس ہوا،ہم’’ کاٹوتولہونہیں ‘‘کی عملی تصویر بنے بیٹھے تھے۔ مری اورکشمیرکی سنگلاخ چوٹیوں پربل کھاتی زگ زیگ سڑکوں پہ بے خوف سفرکیامگرڈرکوسوں دورتھالیکن یہاں توہمواراورموت کی گھاٹیوں سے بے نیازسڑک بھی اژدھے کی طرح کاٹے جارہی تھی ، ہم وسوسوں میں گھرے تریاق کی تلاش میں تھے ، دل تھاکہ حلق کوآتا۔واقعی اللہ اللہ کرکے منزل پرپہنچے اورسچ مچ سکھ کاسانس لیا۔
پورے سفرمیں ایک ہی چیزتھی جوحوصلہ بڑھائے ہوئے تھی،جومنزل پربخیروعافیت پہنچنے کااستعارہ تھی ، وہ تھی امید۔یہ امیداس روشن دیے سے پھوٹ رہی تھی جو دیا ہمارے دلوں کے طاقچوں میں ٹمٹمارہاتھا۔امیداسی پہ تھی جوامیدوں کامحورومرکزہے اوروہ میرامہربان رب ہے ، وہ زمین وآسمان کانورہے ،وہ روشنی ہے اورروشنی ہی امیدہے، اسی سے بھٹکے ہوؤں کومنزل ملتی ہے ۔ کہاجاتاہے کہ امیدپہ دنیاقائم ہے ، وضاحت کچھ یوں ہے کہ اسی کے سہارے یہ دنیاچلتی ہے، اگراس پہ امیدنہ ہو تو پھر چور اورلٹیرے جان ہی نہیں ایمان بھی لوٹ لیتے ہیں، اقبال نے اسی لئے توکہاہے ؂
بتوں سے تجھ کوامیدیں خداسے نومیدی
مجھے بتاتوسہی اورکافری کیاہے ؟

جواب چھوڑ دیں