ہم اورنظام الاوقات 

وقت انسان کا بہترین خزانہ اورگراں قدر سرمایہ ہے لیکن جتنا یہ قیمتی خزانہ ہے انسان اتنا ہی زیادہ اسے بے فکری،لاپرواہی اور بے دردی سے ضائع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ،حالانکہ لوگ اپنی ملکیت کی چیزوں میں سے کسی چیز کو اتنی بے دردی اور غفلت کے ساتھ اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
محمد حسین آزاد اپنی مشہور کتاب’’نیرنگ خیال‘‘میں ’’وقت ‘‘کے عنوان کے تحت اپنے قلم کوحرکت دیتے ہیں: ’’وقت ایک پیر ہن کہن سال کی تصویرہے،اس کے بازؤں میں پریوں کی طرح پرواز لگے ہیں کہ گویا ہوا میں اڑتاچلاجاتا ہے،ایک ہاتھ میں شیشۂ ساعت ہے کہ جس سے اہل عالم کے لوگوں کی کشت امیدیاررشتۂ عمر کو کاٹاجاتاہے یا ظالم خونریزہے کہ جو داناہیں اسے قابو میں کرلیتے ہیں لیکن اوروں کی چوٹیاں پیچھے ہوتی ہیں،اس کی چوٹی آگے ہوتی ہے،اس میں محل نظربات یہ ہے کہ جو وقت گزر گیا وہ قابو میں نہیںآسکتا،ہاں جو پیش بین ہواسے پہلے ہی سے روک لے‘‘۔اس پیش بینی کاتقاضہ یہ ہے کہ پہلے سے ایک نظام الاوقات ترتیب دیا جائے اور پھراپنی زندگی کواس کاپابند کیاجائے۔نظام الاوقات کے جہاں بہت سارے فوائد ہیں ان میں سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہر کام اپنے مقررہ وقت پرہو جاتاہے اور پھر پوری دلجمعی کے ساتھ ہوتا ہے،ورنہ عموماًہوتایہ ہے کہ جب انسان کے ذمہ بہت سے کام ہوں اور ان کے لیے کوئی اوقات کانظام مقررنہ ہو تو ایک کام کی ادائیگی کے وقت دل دوسرے کاموں میں اٹکارہتاہے اوریوں انسان کی طبیعت ایک انجانی سی الجھن کاشکاررہتی ہے جو کہ پریشانی کاباعث بنتی ہے۔دنیاکی تاریخ میں جتنی بھی علمی شخصیات گزری ہیں،جنہوں نے عظیم کارنامے سرانجام دیئے ہیں ان کی پابندی نظام الاوقات ضرب المثل ہے اوریہی ان کے کارناموں کابنیادی رازہے۔
وقت کی قدروقیمت کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ جس طرح انسان کو روح زندگی میں صرف ایک مرتبہ ملتی ہے اور جسم سے نکل جانے کے بعدپھر کبھی واپس نہیںآسکتی،اسی طرح ’’آج‘‘ہماری زندگی میں صرف ایک مرتبہ ہی آتاہے اور پھر گزرجانے کے بعدکبھی ہاتھ نہیںآتا۔کیاآپ نے کبھی سوچا ہے کہ اپنے اس ’’آج‘‘کو آپ نے کس بے دردی کے ساتھ ضائع کیاہے؟۔آپ اپنی نیند میں خلل کو ناپسند کرتے ہیں غذااورلباس کے معاملہ میں ہر وقت چاق وچوبندرہتے ہیں۔یہ اچھی باتیں ہیں،لیکن وقت کا مسئلہ سب سے زیادہ اہمیت کاحامل ہے۔یہ زندگی کو بنانے اوربگاڑنے والاہے۔ لارڈمیلبورنی((LARDELBOURNEکاقول ہے کہ’’ ایک نوخیزنوجوان کے کانوں میں صرف ایک ہی بات پڑھنی چاہیے کہ اس زندگی میں تمہیںآپ اپنی راہ بنانی ہے،فاقہ مست ہو کر زندگی گزارتے ہویاسیر ہو کر،یہ تمام ترتمہاری ذاتی کوششوں پر موقوف ہے‘‘۔
وقت کاصحیح استعمال صرف یہی نہیں کہ زندگی کوکامیاب بنانے کے لیے ایک لازمی عنصر ہے۔بلکہ انسان میں نیک سیرت،عمدہ خصلت اوراچھااخلاق پیدا کرنے میں بڑی تاثیر اور بڑاعمل دخل رکھتاہے۔ ایک بزرگ کا قول ہے کہ :’’کبھی بھی سُست و کاہل نہ بنو‘‘،اپنے وقت کے خانوں کو ٹھوس اورمفیدوکارآمدمشغلہ سے بھرارکھو،اس لیے کہ وقت کے جن گوشوں میں روح کے لیے کوئی کام نہیں ہوتااور جسم کو مشغول رکھنے والاکوئی شغل نہیں ہوتا،ان خالی جگہوں میں نفسانی خواہشات دبے پاؤں داخل ہو جاتی ہیں اور مزید فرماتے ہیں،تجربہ بتاتا ہے کہ نفسانی ترغیب و تحریض کے موقع پر مطمئن وبے فکر ،تندرست وکاہل آدمی کبھی بھی پاکبازنہیں رہ سکاہے ۔شیطان کو اپنے آپ سے دور رکھنے میں تمام مشاغل میں سے سب سے زیادہ اہم مفید جسمانی مشغلہ ہے‘‘۔
رومن فلسفی اور سیاست دان سنیکاوقت کی قدروقیمت کا اظہار کچھ اس طریقے سے کرتاہے کہ’’ہم سب وقت کی قلت اور اس کے مختصر سے مختصرہونے کی شکایت کرتے ہیں اور کیفیت یہ ہے کہ ہمارے پاس وقت کی اتنی بہتات ہوتی ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ ان فاضل اوقات کو ہم کہاں اور کس طرح صرف کریں۔ہماری زندگی اس طرح گزرتی ہے کہ ہم یا تو بالکل کچھ کرتے ہی نہیںیاجو کچھ کرتے ہیں وہ مقصدسے ہی ہٹاہوا ہوتاہے۔یاجو کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ کہیں روش اس طرز کی ہوتی ہے کہ گویازندگی کے دن کبھی ختم ہونے والے نہیں۔‘‘زندگی میں وقت کو کامیاب اور پُر مسرت بنانے کے لیے صحیح محنت اور مسلسل جانفشانی بنیادی چیز ہے،کوئی کتناہی ذہین کیوں نہ ہو،کتناہی غیر معمولی دل ودماغ فطرت کی جانب سے لے کر کیوں نہ آیا ہو اگر وہ محنتی ومستقل مزاج نہیں تومحض اس کی غیر معمولی ذہانت اسے زندگی میں کامیاب نہیں بنا سکتی۔دنیامیں بڑے آدمی وہی ہوئے ہیں جنہوں نے وقت کی قدرکرتے ہوئے اسے کارآمد بنایا اور مسلسل محنت کی ہے۔

حصہ
mm
امیر حمزہ بن محمد سرور سانگلہ ہل ضلع ننکانہ کے رہائشی ہیں۔انہوں نے عربی اور اسلامیات میں ماسٹرز کیا ہے۔ سانگلہ ہل کے نواحی گاؤں علی آباد چک نمبر112میں مستقل رہائش پذیر ہیں ۔ان دنوں فیصل آبادمیں ایک رفاہی ادارے کے ساتھ منسلک ہیں، ان کے کالمز روز نامہ’’ امن ‘‘ روزنامہ’’ قوت‘‘روز نامہ’’ سماء‘‘ روزنامہ’’حریف‘‘ میں شایع ہوتے ہیں۔اپنے نام کی مناسبت سے ’’امیرقلم ‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں۔ ماہ نامہ’’ علم وآگہی ‘‘اوراسی طرح دیگردینی رسائل وجرائدمیں مختلف موضوعات پرمضامین سپردقلم کرتے رہتے ہیں۔انہوں نے نیشنل لیول پرکئی ایک تحریری مقابلہ جات میں حصہ لیااورنمایاں پوزیشنیں حاصل کیں ۔شعبہ صحافت سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ای میل:hh220635@gmail.com

جواب چھوڑ دیں