لباسِ بے لباسی

بعض موضوعات پر لکھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ انہی میں سے آج کا یہ موضوع ہے جو لباس سے متعلق ہے اور جس پر لکھنے سے میں نے اپنے آپ کو بہت روکا ہوا تھا، مگر آج مغرب کی نماز میں پھر ایک ایسا منظر سامنے تھا کہ ضمیر نے پکار کر کہا کہ اس پر نہ لکھنا تمہارا جرم تصور کیا جائے گا۔
کچھ دن قبل فیس بک پر کسی نے لکھا تھا
بعض لوگوں کی جینز اس مقام پر ہوتی ہے کہ جب وہ کھانستے ہیں، تو سانسیں ہمیں روکنی پڑتی ہیں۔
یہ کوئی تین چار سال قبل کی بات ہے۔ میں اپنے چائینز دوست کی دوکان پر ایک کسٹمر کا لیپ ٹاپ مرمت کروانے کے لیے دے کر آیا۔ اس دوکان پر ایک نوجوان چائنیز لڑکی بھی ملازم تھی جو کسٹمرز کو ہینڈل کیا کرتی تھی۔ اس کی نشست کچھ اس طرح تھی کہ وہ دیوار کے ساتھ لگے چھوٹے سے ٹیبل پر اپنا لیپ ٹاپ رکھ کر، دوکان میں داخل ہونے والے کسٹمرز کی طرف پشت کرکے بیٹھا کرتی تھی۔ میں جب بتائے گئے وقت پر اپنے لیپ ٹاپ کے بارے میں معلوم کرنے کے لیے وہاں گیا تو دیکھا کہ اس لڑکی کے پیچھے، سات آٹھ افراد کا جمگھٹا ایک دائرے کی صورت کھڑا ہوا ہے۔ جب لوگ تھوڑے دائیں بائیں ہلے تو لڑکی پر میری نظر پڑی۔ میں نے دیکھا کہ اس کی مختصر ترین شرٹ اوپر کو اٹھی ہوئی تھی اور پینٹ نیچے کی طرف سرک گئی تھی۔ مجھے جھٹکا سا لگا اور سوچ میں پڑ گیا کہ اب اسے کیسے بتاؤں کہ تیرے اوپر گدھ منڈلا رہے ہیں۔ اس کی انگلش اچھی نہیں تھی اور چائنیز مجھے نہیں آتی تھی۔ یکایک میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ میں نے جیب سے اپنا موبائل نکالا، گوگل ٹرانسلیٹر کھولا اور اس پر لکھا:
Put your shirt in the paints
پھر اس کو چائنیز میں ترجمہ کیا تاکہ وہاں کھڑا کوئی دوسرا فرد نہ سمجھ سکے۔ پھر اپنے موبائل اسکرین کو اس کی طرف کرتے ہوئے کہا:
What about my this laptop?
اس نے ایک نگاہ اسکرین پر ڈالی اور اپنی نشست سے فوراََ کھڑی ہوگئی اور کپڑوں کو درست کر کے بیٹھ گئی۔
فیشن بھی کیا کمینی چیز ہے، انسان کو معلوم بھی نہیں پڑتا کہ وہ جہالت کی کس سطح تک گر چکا ہے۔ سخت ترین سردیوں میں، زیبرا کراسنگز پر کھڑی، ٹھٹھرتی کانپتی برہنہ ٹانگوں والی خواتین اور ان کے ساتھ، پاؤں سے نیک ٹائی تک تھری پیس میں ڈھکے ان کے پارٹرنز پر جب نظر پڑتی ہے تو انسان یہی سوچتا ہے کہ فیشن نے ان خواتین کو کتنی مشقت میں ڈال رکھا ہے؟

سات آٹھ سال قبل ظہر کا وقت ہونے پر میں قصیص کی ایک مسجد میں نماز کے لیے داخل ہوگیا۔ میری ایک دو رکعتیں نکل گئی تھیں جن کو میں نے امام کے سلام پھیرنے کے بعد مکمل کیا۔ ساتھ کھڑے نوجوان نے بھی اسی طرح اپنی بقیہ نماز مکمل کی۔ لیکن جب وہ سجدے میں گیا تو میری نگاہ اس پر پڑی۔ میں نے دیکھا کہ وہ بالکل ننگا ہے۔ نماز کے بعد میں مسجد کے باہر کھڑا ہوگیا۔ دل میں یہی خیال آ رہا تھا کہ اگر میں نے اسے اس پر متوجہ نہ کیا تو جب تک یہ اسی طرح رہے گا، مجھے بھی گناہ ملتا رہے گا۔
باہر نکلنے پر میں نے اس کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ وہ ایک انڈین نوجوان تھا۔ میں نے اس سے کہا:
Excuse me! I want to tell you one thing.
He said yes
میں نے کہا:
During prayer, you were almost naked while going for Sajdah
اس نے میری طرف حیرانی سے اس طرح دیکھا جیسے کوئی بریکنگ نیوز سن لی ہو۔ پھر اس نے ہاتھ ملاتے ہوئے سرگوشی کے عالم میں کہا:
Thank you, thank you.
ستر ڈھانپنے کی بات تو ایک طرف، اب ’’سوآۃ‘‘ تک کھل گئی ہیں۔ یہ کمینہ اور بے ہودہ فیشن ہے جس سے اب ہماری مساجد تک محفوظ نہیں رہیں۔ نوجوانوں سے میری گزارش ہے کہ اگر انہیں جنت کا لباس عزیز ہے تو وہ فیشن کے لباس پر ’’تقویٰ‘‘ کے لباس کو ترجیح دیں اور اگر مناسب ساخت کے سلے سلائے کپڑے کسی اسٹور پر موجود نہ ہوں تو کچا کپڑا لے کر کسی درزی سے سلوا لیں، مگر بے حیائی بلکہ کھلی عریانی والے اس لباس کے قریب بھی نہ پھٹکیں۔

 

حصہ

جواب چھوڑ دیں