خدا تک پہنچنے کا راستا

وہ مئی جون کا مہینہ تھا۔ سورج آگ برسا رہا تھا۔ گرم ہوا کے جھونکے چہروں کو جھلسا رہے تھے۔ عین دوپہر کے وقت وہ خیالوں میں مگن گھر کی سمت جارہی تھی کہ اچانک کوئی چیز کے گرنے اور پھڑپھڑانے کی آواز سن کر وہ رک گئی۔ اس نے دھڑکتے دل سے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کلیجہ منہ کو آگیا۔وہ ایک بے زبان پرندہ تھا۔ پیاس کی شدت نے یقینا اُس کی اُڑان چھین لی تھی۔پرندے کی پھڑپھڑاہٹ اسے بے چین کیے جارہی تھی۔یکایک اس کے دل میں بجلی کی سی تیزی سی ایک خیال کوندھا۔ وہ کیوں نہ اُسے اُٹھا کر گھر لے جائے مگر اُس نے خیال جھٹک دیا۔ اچانک اسے اُس پانی کی بوتل کا خیال آیا جو صبح کالج آتے وقت اس کی ماں نے اسے دی تھی۔اس نے بیگ سے پانی کی بوتل نکال کر دیکھی تو اُس میں تھوڑا ساپانی تھا۔ اس نے پرندے کے منہ میں پانی کے دو بوند ٹپکائے تو پرندے کی پھڑپھڑاہٹ سکون میں بدل گئی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے پرندہ اس کے ہاتھوں سے اُڑ کر دُور درخت پر جا بیٹھا اوریقینا اپنی مخصوص بولی میں دعائیں دیتا ہوا اُڑ گیا۔ اس نے پرندے کے اُڑتے ہی بوتل بیگ میں رکھی اور گھر کی سمت چل دی۔ گرمی کافی بڑھ گئی تھی مگر وہ اپنے اندر عجیب سی ٹھنڈک اور سکون محسوس کر رہی تھی۔ وہ یہ سوچتے ہوئے ایک دکان کی طرف بڑھی کہ چھوٹو کے لیے آئس کریم خرید لے ۔وہ آئس کریم لے کر مڑی ہی تھی کہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے ایک بچی کندھے پربورا اُٹھائے ، اُس کے سامنے گھڑی تھی۔ وہ ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے آئس کریم کی طرف دیکھ رہی تھی۔وہ مسکرائی اور آئس کریم بچی کو پکڑا کرگھر کی طرف ہو لی۔وہ ابھی ذرا سا ہی چلی ہوگی کہ ایک بڑھیاپر اُس کی نظر پڑی۔ بڑھیا ایک بڑی سی گٹھری اُٹھانے کی کوشش کر رہی تھی۔ نینا نے بڑھیا سے پوچھا :”اماں!اتنی سخت دھوپ اور جھلسا دینے والی گرمی میں آپ یہاں کیا کر رہی ہیں اور یہ اتنا وزن کہاں لے جا رہی ہیں۔” اماں نے نینا کی طرف دیکھا اور بولیں: ” بیٹا! نظر اب صحیح کام نہیں کرتی اور نہ ہی پاؤں میں اتنی سکت ہے کہ چل سکوں ۔ لیکن میں وزن اُٹھانے پر مجبور ہوں۔میں یہ کپڑے بیچ کر اپنے غریب خانے کا کاروبار چلاتی ہوں،اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہوں۔ آج تو جو کمائے تھے، وہ نہ جانے کہاں گر ا دیے ہیں میں نے۔ اب پاس کوئی پیسہ نہیں کہ گاڑی میں جانے کا سوچوں۔سوپیدل ہی چل پڑی ہوں۔ سانس لینے کے لیے یہاں چھاؤں میں رُکی تھی۔ مجھے کچی بستی تک جانا ہے۔”

نینا نے اماں کی گٹھڑی اُٹھانے میں مد د کی۔ بڑھیا گٹھڑی لیے ذراسا آگے بڑھی تو نینا نے اپنے پرس میں سے کچھ روپے نکال کر زمین پر گرائے اور پھر اماں کو آواز دیتے ہوئے پیسے اُٹھانے کے لیے زمین پر جھکی۔ اُس نے پیسے اُٹھا کر اماں کو تھماتے ہوئے کہا: ”اماں! یہ لیں آپ کے پیسے۔ شاید یہاں گر گئے تھے۔” اماں نے ایک نظر اُسے دیکھا، ساتھ ہی اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اُس نے بہتے آنسوؤں کے ساتھ نینا کے ہاتھ سے پیسے لے لیے۔ پھر وہ آنسو پونچھتے ہوئے آگے بڑھنے ہی والی تھیں کہ نینا نے اپنے بیگ سے پانی کی بوتل نکالتے ہوئے کہا:” اماں! ٹھہریں، پانی پی لیں ۔”اماں نے پانی پیا اورپھر وہ دونوں اپنے اپنے راستے پر ہو لیں۔ نینا کے دل میں سکون ہی سکون تھا۔ اُسے ‘مس اینی’ کی باتیں یاد آنے لگی تھیں: ”بڑے بڑے کاموں کا انتظار نہ کیا کرو کہ پیسے آئیں گے تو خیراتی ادارے میں دیں گے، یتیموں اور فقیروںکی مدد کریں گے، بیوہ کی بے چارگی کاازالہ کریں گے بلکہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں کر گزراکرو۔ اللہ تعالیٰ کو ہم بڑی بڑی عبادتوں ، خدمتوں میں تلاشتے ہیں ۔ مسجدوں ، مندروں ، کلیساؤں میں تلاش کرتے ہیں۔ اُس ذات تک پہنچنے کے لیے خیراتی ادارے ، دارالامان،یتیم خانے قائم کرتے ہیں ۔ جبکہ وہ چھوٹے چھوٹے بہانوں کا انتظار کرتا ہے کہ کب میرا بندہ مجھے پالے۔ وہ انسان کو ایک گلاس پانی ، چند لقمے روٹی ، گرمی میں سایہ ، منجمد کر دینے سردی میں ایک لحاف کے عوض بھی مل سکتا ہے۔ جس خوشی ، راحت ، سکون اور کرم کو ہم بڑے بڑے کاموں میں تلاش کرتے ہیں۔ وہ سکون ، خوشی اور وہ کرم، اللہ تعالیٰ کے بندوں کی خدمت میں پوشیدہ ہے۔دوسروں کو دی گئی چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں ہے۔ یاد رکھو! خدا تک پہنچنے کے راستے کمزور و ناتواں ، مظلوم و بے بس لوگوں کے دلوں سے ہو کر گزرتے ہیں۔جب تک ان کا دل ہمارے لیے نہیں کھلتا، اس وقت تک نہ تو ہم خوشی پا سکتے ہیں اور نہ ہی سکون ، راحت اور کرم۔خدا تک پہنچنے کا راستا اُس کی مخلوق کی خدمت کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔”

نینا کو مغربی سائنسدان ”سگمنڈ فرائیڈ” کا قصہ بھی یاد آنے لگا ۔جب اُس کے پاس ایک امیر ترین شخص آیا او راس سے کہاکہ میرے پاس دنیا کی تمام نعمتیں ، سہولیات، آرائش و زیبائش کا سامان موجود ہے مگر مجھے سکون آتا ہے اور نہ ہی قرار ملتا ہے۔اُس کی با ت سن کر فرائیڈ نے کہاتھا:” تم روزانہ سو روپے کے پھول خرید کر بچوں،بڑوں، بوڑھوں اور غریبوں میں تقسیم کر دیا کرو۔ ”اس شخص نے ایسا ہی کیا۔کچھ دن بعد وہ خوشی محسوس کر رہا تھا۔ نینا بھی جب کبھی اُداس ہوتی تو تعلق مع اللہ کی پختگی کے ساتھ ساتھ کالج سے واپسی پر ٹافیوں کے دو چار پیکٹ، چھوٹے چھوٹے کھلونے، غبارے اور گیند وغیرہ خرید کر کچی بستی کی طرف چلی جاتی ۔ جب وہ ساری چیزیں بچوں میں تقسیم کرنے کے بعد گھر کی طرف روانہ ہوتی تو اُس کا دل خوشی سے سرشار اور چہرے پرسکون و مطمئن ہوتاتھا۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا تھا :” بڑی نیکیوں کے راستے لمبے اور چھوٹی نیکیوں کی مسافتیں چھوٹی ہوتی ہیں ۔ چنا نچہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے لیے چھوٹی چھوٹی نیکیوں سے ابتدا کرو ۔

 

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں