فرق تو پڑے گا

یہ 2015 کی پہلی تراویح تھی۔ میں ہر سال تراویح پڑھاتا ہوں اس لیے پاکٹ سائز قرآن اپنے ساتھ رکھتا ہوں۔ راستے کی ایک مسجد میں، میں نے نماز ادا کی اور اس دوران اپنا قرآن بائیک کی بیلٹ میں لگا دیا ۔ جب میں نماز ادا کر کے واپس آیا تو   قرآن پاک ” چوری ” ہوچکا تھا ۔ اس دن مجھے معلوم ہوا کہ ہمارا ملک دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں قرآن تک چوری ہوجاتے ہیں ۔ ہم اس حد تک کرپشن میں لتھڑ چکے ہیں کہ یہ ہمارے وجود کا حصہ بن چکی ہے ۔ اس سے ہمیں گھن تو  خیر کیا آنی تھی اب تو  فخر سے کرپشن اور بے ایمانی کے قصے سنائے جاتے ہیں ۔ وہ شخص بیوقوف سمجھا جاتا ہے جو “موقع پر چوکا نہ  لگائے ”  یعنی سامنے والے کو چونا نہ لگادے ۔

 جنگ عظیم دوئم میں ہٹلر سے پوچھا گیا کہ مسلسل جنگ کے نتیجے میں ہمارے قیمتی ترین لوگ مر رہے ہیں ہم کیا کریں ؟ ہٹلر نے جواب دیا کہ ” اگر ہوسکے تو اپنی قوم کے اساتذہ کو کہیں چھپا دو ۔ اگر استاد محفوظ ہیں تو یہ قیمتی لوگ پھر تیار ہوجائینگے ۔

بدقسمتی یہ ہے کہ ہم تعلیمی کرپشن تک کا شکار ہوچکے ہیں ۔ میں ذاتی طور پر ایک ” استاد ” کوجانتا ہوں جو پانچ وقت کے کرپٹ آدمی ہیں۔  وہ صبح میں ایک گورنمنٹ کالج کے پرنسپل ہیں ، اسی کالج کے نام سے صبح میں اپنا پرائیوٹ کالج چلاتے ہیں اور شام میں اسی کالج میں اپنا کوچنگ چلاتے ہیں ۔ اس گورنمنٹ اورپرائیوٹ کالج کے طلبہ و طالبات کو معلوم ہے کہ اگر ہم نے شام میں پرنسپل صاحب کے کوچنگ میں کلاسیں نہ لیں تو ” پپو کا پاس ہونا مشکل ہو جائیگا “۔

وہ ” استاد  صاحب ” صبح سے شام تک ” تعلیم عام ” کرنے میں مصروف عمل ہیں ۔ سلمان آصف صدیقی صاحب فرماتے ہیں کہ اگر کوئی ٹریفک سگنل بھی توڑتا ہے تو اس کا  ذمہ دار  بھی ایک استاد ہے ، میں سوچتا ہوں کہ جب استاد ہی کرپٹ ہوجائے تو باقی قوم کا بھلا کیا ماتم کیا جائے ؟ آپ اندازہ کریں کہ ہم ” تحریری کرپشن ” تک میں ملوث ہوچکے ہیں ۔ آپ کمال ملاحظہ کریں 2 فروری کو میرا ایک مضمون ” رٹا اسکولنگ سسٹم ” شائع ہوا ، لاکھوں کی تعداد میں پڑھا گیا اور ہزاروں کی تعداد میں شیئر ہوا ۔اس نیک کام اور    پیغام کو عام کرنے کے لئیے میرے ملک کے ہونہار  نوجوانوں  نے اسی مضمون کو ” کاپی پیسٹ ” کیا اور اخبار ات کی زینت بنادیا ۔ میرے ملک کے نامور اخبارا ت کو ہوا تک نہ لگ سکی ایک ہی مضمون ان ہی کے اخبار میں دو مختلف عنوانات اور ناموں سے مع تصویر شائع ہوچکا ہے ۔ سبحان اللہ ہم نیکی کا کام اور پیغام تک کرپشن اور چیٹنگ کے ذریعے سے انجام دے رہے ہیں ۔ میرے ایک دوست نے تو اتنی محنت کی کہ اس پورے کالم کا سندھی میں ترجمہ کر کے اپنے نام اور تصویر کے ساتھ سندھی اخبار میں شائع کروادیا ۔ یہ ان بیچاروں کا قصور نہیں ہے یہ ہمارے تعلیمی نظام کا قصور ہے ۔ اس تعلیمی نظام نے ہمیں سکھایا ہی ” رٹا ” اور ” کاپی پیسٹ ” ہے ۔ ہمارے بچے ” پبلشرز  ” بن گئے ہیں اور پبلشرز کا کام ہی ” چھاپنا ” ہوتا ہے ۔ آپ یقین کریں ہم زوال کی آخری حدوں کے بھی آخر میں پہنچ چکے ہیں ۔ ہمارا پاسپورٹ دنیا کا پانچواں بدترین پاسپورٹ بن چکا ہے ۔ ہم مسجد میں پانی کے گلاسوں تک کو زنجیروں سے باندھ رہے ہیں ۔ میرے محلے کی مسجد میں انرجی سیورز تک پر گرل لگی ہوئی ہے  اور واش رومز کے لوٹے تک نلوں سے بندھے ہوئے ہیں ۔ کام بھی بہت ہے اور وقت بھی بہت تھوڑا ہے ۔ میں شکوہ ظلمت شب کے ساتھ ساتھ کہیں نہ کہیں شمعیں  جلانے کی کوششیں بھی کر رہا ہوں  ۔ آپ سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ آپ بھی اس کام میں میرے ہمنوا بن جائیں۔

حضرت علی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ” علی اگر تمھاری وجہ سے کوئی ایک شخص بھی ہدایت پالے تو یہ تمھارے لئیے 100 سرخ اونٹوں سے بہتر ہے “۔میکسیکو کے ساحل پر پڑی سینکڑوں مچھلیوں کو پانی میں چن چن کر ڈالنے والے بچے سے ایک بزرگ نے پوچھا کہ یہ تو لاکھوں کی تعداد میں تمھارے ایسا کرنے سے کیا فرق پڑیگا  ؟ اس بچے نے ایک چھوٹی مچھلی کو اپنے ہاتھ میں لیا سمندر کی طرف اچھالا اور بزرگ کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولا ” بڑے صاحب ! اس کو ضرور فرق پڑیگا ” ۔ کوشش کریں کہ آپ بھی کسی نہ کسی پر فرق ضرور ڈال دیں ۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں