دنیا کی دوسری امتوں کے لیے انقلاب ’’ضروری‘‘ ہوگا، مگر مسلمانوں کے لیے انقلاب ’’ناگزیر‘‘ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انقلاب کے بغیر زندگی بندگی نہیں بن سکتی، اور بندگی کے بغیر بسر ہونے والی زندگی شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ انقلاب ایک ’’جدید تصور‘‘ ہے اور اسلام کا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ یہ وہی دلیل ہے جو تصوف کے سلسلے میں دی جاتی رہی ہے۔ کہا جاتا رہا ہے کہ اسلام کے آغاز میں تصوف کی اصطلاح موجود نہ تھی۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اسلام کی ابتدا میں تصوف ایک ایسی ’’حقیقت‘‘ تھی جس کا کوئی ’’نام‘‘ نہ تھا۔ اب تصوف کا ایک نام ہے، مگر یہ نام حقیقت سے محروم ہوچکا ہے۔ اقبال نے ’’مدرسے‘‘ پر ہی نہیں خانقاہ پر بھی چار بڑے اور ہولناک الزامات لگائے ہیں۔ اقبال نے کہا ہے
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ
یعنی اقبال نے مدرسے اور خانقاہ کو زندگی، محبت، معرفت اور نگاہ سے عاری قرار دیا ہے۔ استثنائی مثالوں سے قطع نظرکرلیا جائے تو اقبال کے چاروں الزامات درست معلوم ہوتے ہیں۔ انقلاب کا قصہ بھی تصوف جیسا ہی ہے۔ ابتدائے اسلام میں انقلاب کا کوئی نام نہیں تھا، یعنی انقلاب نام کے بغیرموجود تھا۔ مگر اب انقلاب کی اصطلاح موجود ہے اور اس اصطلاح کی ہماری انقلابیت گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوچکی ہے۔ یہاں تک کہ سوشلسٹوں نے انقلاب کی اصطلاح کو استعمال کرکے اس کا مفہوم ہی بدل ڈالا ہے۔
مذاہبِ عالم کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو مذاہبِ عالم کی پوری تاریخ ہی انقلاب کی تاریخ ہے۔ اس دعوے کے دو دلائل ہیں: انقلاب کسی تصور کے مکمل اثبات اور کسی تصور کے مکمل انکار کا نام ہے اور ہر نبی نے حق کا اثبات اور باطل کا انکار کیا۔ مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتایا کہ حق کیا ہے، اور انہوں نے بتایا کہ نمرود، اس کی بادشاہت بلکہ اس کی خدائی باطل ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی یہی کیا۔ انہوں نے حق کا اعلان کیا اور باطل کی تردید کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ بھی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حق کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کا باطل کون ہے؟ اہم بات یہ ہے کہ انبیاء و مرسلین صرف حق کا اعلان اور باطل کی نشاندہی کرکے نہیں رہ گئے، بلکہ انہوں نے حق کو بسر اور غالب کرنے، اور باطل کو مٹانے کی جدوجہد بھی کی۔ اس جدوجہد کا ایک پہلو یہ ہے کہ انبیاء و مرسلین نے حق و باطل کی کشمکش کے سلسلے میں کبھی طاقت کے ہولناک عدم توازن کو مسئلہ نہیں بنایا۔ بلاشبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جلیل القدر پیغمبر تھے، مگر دنیاوی معنوں میں آپؑ کی قوت نمرود کی قوت کے مقابلے میں کچھ بھی نہ تھی۔ نمرود کے پاس حکومت تھی، ریاست تھی، فوج تھی، بے پناہ دولت تھی اور گمراہ قوم تھی۔ اس کے مقابلے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام محض ایک فرد تھے، مگر آپؑ کسی خوف کے بغیر نمرود کے خلاف صف آراء ہوگئے۔ فرعون کی طاقت کے سامنے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دنیاوی طاقت کچھ نہ تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک میں بھی یہی صورت تھی۔ کفار اور مشرکین بہت قوی تھے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم معاشی، سیاسی اور عسکری اعتبار سے کسی قوت کے حامل نہ تھے۔ ان حقائق کے باوجود تمام انبیاء کی سنت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سے لاکھوں گنا باطل کو چیلنج کیا اور تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔ ایک نبی نے بھی اللہ تعالیٰ سے یہ نہیں کہا کہ ہمارے حریف کے پاس حکومت ہے، ہمیں بھی حکومت دے۔ اُس کے پاس ریاست ہے، ہمیں بھی ریاست دے۔ اُس کے پاس سرمایہ ہے، ہمیں بھی سرمایہ دے۔ اُس کے پاس ایک قوم ہے، ہمیں بھی ایک قوم دے۔ جب یہ سب کچھ ہمیں مل چکے گا تو پھر ہم باطل کو چیلنج کریں گے۔ غزوۂ بدر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فوج دی گئی مگر افرادی قوت اور ہتھیاروں کے اعتبار سے اس فوج کا حریف فوج کے ساتھ کوئی موازنہ ممکن نہ تھا۔ ان حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ حق کی بنیاد پر برپا ہونے والا انقلاب اتنا اہم ہوتا ہے کہ وہ ظاہری اسباب کو خاطر میں نہیں لاتا۔
غور کیا جائے تو کلمۂ طیبہ جیسا بڑا انقلابی فقرہ دنیا میں نہ کبھی تخلیق ہوا ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ یہ کلمہ اپنے ابتدائی حصے یعنی ’’لا الٰہ‘‘ کے ذریعے انفرادی، اجتماعی، ریاستی، یہاں تک کہ پوری کائنات میں موجود ہر جھوٹے خدا اور اُس کی خدائی کا انکار کرکے اسے منہدم کردیتا ہے۔ جب ’’نہیں ہے کوئی الٰہ‘‘ کے ذریعے تمام جھوٹے خداؤں کا انکار ہوجاتا ہے تو پھر ’’الا اللہ‘‘ کے ذریعے حقیقی خدا زندگی کے ایک ایک گوشے اور کائنات کے ایک ایک ذرّے پر سایہ فگن ہوجاتا ہے۔ کلمے کے دوسرے جزو ’’محمد الرسول اللہ‘‘ کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ پاک، سیرتِ طیبہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعتِ مطہرہ تمام باطل اور خودساختہ نظاموں کو منہدم کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو بالادست بنانے کے لیے بنی نوع انسان کے سامنے آجاتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو دنیا میں اسلام سے بڑی انقلابی قوت کا تصور محال ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کی انقلابیت قرآن کے اس حکم سے بھی ظاہر اور ثابت ہے جس میں مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ تم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ۔ غور کیا جائے تو قرآن کا یہ حکم انفرادی، اجتماعی، بین الاقوامی، سیاسی، معاشی، تمدنی، تہذیبی اور علمی زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اسلام کی انقلابیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں نے ملوکیت کو قبول تو کرلیا مگر کبھی ملوک کو خلفائے راشدین کے سائے کے برابر بھی نہ سمجھا۔ اسلامی تاریخ کو دیکھا جائے تو وہ مرکز جُو اور مرکز گریز قوتوں کی کشمکش کی داستان ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ تجدید کا ادارہ اپنی نہاد میں خود ایک انقلابی ادارہ ہے، اس لیے کہ یہ ادارہ بجائے خود مرکز جُو قوت کا مظہر ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ کی مرکز جُو حرکت یا مرکز جُو قوت مسلمانوں کو تاریخ کے مضافات سے گھسیٹ کر لاتی ہے اور انہیں پھر سے مرکز کے ساتھ منسلک کردیتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ مسلمانوں کا دین بھی انقلابی ہے، تہذیب بھی انقلابی ہے، تاریخ بھی انقلابی ہے، علم بھی انقلابی ہے، تربیت بھی انقلابی ہے۔ امام غزالیؒ ، مجدد الف ثانیؒ ، شاہ ولی اللہؒ ، مولانا مودودی،ؒ حسن البناؒ اور سید قطبؒ کا کارِ تجدید اسلام کی انقلابیت کا مظہر ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جو مسلمان انقلابی نہیں اُسے اپنے ایمان، فہمِ دین اور فہمِ دنیا پر غور کرنا چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ انقلاب کیوں ضروری ہوتا ہے؟
فراق گورکھ پوری ہندو تھے مگر مسلم تہذیب کے دائرے میں سانس لینے کی وجہ سے اسلام کی انقلابیت کا ایک ذرّہ انہیں بھی فراہم ہوگیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا ہے
اگر بدل نہ دیا آدمی نے دنیا کو
تو جان لو کہ یہاں آدمی کی خیر نہیں
انسان کی زندگی کے دو مراکز ہیں: دین اور دنیا۔ اگر انسان کا اصل اصول دین ہوگا تو وہ دنیا کو بدل دے گا اور اسے دین کے مطابق ڈھال لے گا۔ انسان کا اصولِ حیات دنیا ہوگی تو دنیا دین کو بدل کر اپنے مطابق بنالے گی۔ اس صورت میں دین یا تو فنا ہوجائے گا، یا وہ دنیا کی کائنات کا ایک جزو ہوگا اور اس کو زندگی میں کوئی مرکزی حیثیت حاصل نہ ہوگی۔ ایسا ہوگا تو انسان انسان نہیں رہے گا۔ زندگی زندگی نہیں رہے گی۔ بدقسمتی سے مغرب نے جو دنیا تخلیق کی ہے اس نے انسان کو انسان اور زندگی کو زندگی نہیں رہنے دیا۔ اس صورتِ حال کی وجہ ظاہر ہے۔ نطشے نے کہا: خدا مرگیا۔ مالرو نے کہا: انسان مرگیا۔ لارنس نے کہا: انسانی تعلقات کا ادب مرگیا۔ باخت کہہ گیا ہے کہ مصنف کی موت واقع ہوچکی ہے۔ دریدا کہہ گیا ہے کہ معروضی معنی یعنی Objective Meaningکا کوئی وجود نہیں، معنی دائمی طور پر التوا میں ہیں۔ یعنی دریدا کے مطابق معروضی معنی کا انتقال ہوچکا۔ آخر اتنے بڑے بڑے سانحات کے بعد زندگی کیسے زندگی رہ سکتی ہے؟ اور انسان کیسے انسان رہ سکتا ہے؟ ایک زمانہ تھا کہ مغرب ہمارے لیے ایک فلسفہ تھا، مگر اب مدتوں سے مغرب ہمارے لیے ’’تجربہ ‘‘ہے۔ فلسفے سے لڑنا آسان ہے مگر تجربے سے لڑنا مشکل ہے۔ اس لیے کہ تجربہ حساسیت پرقابض ہوجاتا ہے اور اسے دلیل کی قوت سے شکست دینا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس تجربے کی ہولناکی یہ ہے کہ ہماری ریاست، ہماری سیاست، ہماری معیشت، ہماری عسکری قوت، ہماری سماجیات، ہمارے علوم، ہمارے فنون، ہمارا علم، ہمارے ذرائع ابلاغ غرضیکہ ہمارا سب کچھ مغرب کے زیراثر ہے۔ امریکہ کے ممتاز اسکالرسیموئل پی ہن ٹنگٹن نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف
“The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order”
میں زندگی کے ایسے 15دائروں کا ذکر کیا ہے جن میں مغرب کو پوری دنیا پر بالادستی و غلبہ حاصل ہے۔
اس صورتِ حال کے دو ہولناک مضمرات ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہم ایک فرد، ایک گروہ، ایک قوم، بلکہ ایک امت کے طور پر یہ سوچتے ہیں کہ ہماری دنیا اپنی اصل میں ہماری دنیا نہیں ہے بلکہ ہماری دنیا دراصل مغرب کی دنیا ہے۔ مذکورہ صورت حال سے جو دوسرا نتیجہ کروڑوں انسانوں نے نکالا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ دنیا جیسی ہے ہمیں اُسے ویسا ہی قبول کرلینا چاہیے اور اس دنیا کو بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کرنی چاہیے، بلکہ اس دنیا میں اپنے لیے کوئی ایسی جگہ ڈھونڈ لینی چاہیے جو ہمیں انفرادی زندگی کے دائرے میں مذہب کو اختیار کرنے دے اور بس۔ ایک خیال ان دونوں خیالات سے بھی زیادہ ہولناک ہے، اور وہ یہ کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم دنیا کو بدلنے کی صلاحیت کے حامل ہی نہیں۔ ان خیالات کے شعوری یا لاشعوری احساس کے تحت انقلاب ایک نعرہ تو ہے مگر اس نعرے پر کامل یقین کرنے والے لوگ نایاب ہوتے جارہے ہیں۔ یہ ہمارے انفرادی اور اجتماعی مذہبی شعور کی ایسی ہولناک پسپائی ہے کہ اس کے لیے ’’شرمناک‘‘ اور ’’المناک‘‘ کے الفاظ معمولی ہیں۔ اس لیے کہ ایسا مذہبی شعور جو انقلاب کا تمنائی ہو نہ اس کے لیے جدوجہد کرنے والا، وہ کلمہ طیبہ کی معنویت سمجھنے سے قاصر ہے۔ وہ انبیاء کی سنتِ مقدسہ سے کٹا ہوا ہے اور اس شعور کا تجدید کی روایت سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ اس مذہبی شعور کا مسئلہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مغربی تہذیب کے ہولناک ترین اثرات میں سے ایک اثر یہ ہے کہ کروڑوں مسلمانوں کی شخصیتیں دو نیم یا Split ہوگئی ہیں۔ ہمارا ظاہر مذہب کے زیراثر مذہبی ہے اور اس کی مذہبیت بڑھ رہی ہے، مگر ہمارا باطن مغرب کے خوابوں اور Ideals کی گرفت میں ہے۔ چونکہ باطل کی مزاحمت کے لیے باطنی قوت ناگزیر ہوتی ہے اور یہ باطنی قوت ہمیں مغرب کے خلاف مہیا نہیں ہو پارہی اس لیے بہت سے مسلمان مغرب کی مزاحمت کو ناممکن خیال کرتے ہیں، یا کم از کم ان کے اندر وہ تڑپ موجود نہیں جو معرکہ آرائی، فتح اور نئی دنیا کی تخلیق کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔ اس صورتِ حال نے پاکستان سمیت پوری مسلم دنیا میں انقلابی جدوجہد کو ہوا اور پانی کی طرح ناگزیر بنادیا ہے۔ مسلمان یہ جدوجہد نہیں کریں گے تو دنیا انہیں جتنا بدل چکی ہے اس سے زیادہ بدل کر رکھ دے گی۔ لیکن بہرحال موجودہ صورتِ حال کا مفہوم یہ ہے کہ ہم نے انفرادی، اجتماعی اور بین الاقوامی زندگی کے ’’حاضر وموجود‘‘کو ’’تقدیر‘‘ سمجھ کر قبول کرلیا ہے، اور ہم سمجھتے ہیں کہ ’’ہلکی پھلکی موسیقی‘‘ کے مصداق ’’ہلکی پھلکی سیاست‘‘ ہمارے دین، ہماری تہذیب اور ہماری تاریخ کے بڑے بڑے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ اسلام کے خلاف بغاوت تو نہیں لیکن اس طرزِعمل کی پشت پر یہ مسئلہ موجود ہے کہ ہم خود جتنے چھوٹے ہیں، اسلام کو بھی اتنی چھوٹی سی چیز سمجھنے لگتے ہیں۔ لیکن کلمۂ طیبہ اتنی بڑی حقیقت ہے کہ اس کا علَم بردار دوچار لاکھ اور دو چار کروڑ افراد کیا پوری تہذیب کے خلاف خم ٹھونک کر کھڑا ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ حقیقی خدا کو خدا ماننے والا نہ جھوٹے خداؤں سے ڈرے گا، نہ وہ اپنے رب کی بے تکریمی کا مرتکب ہوگا۔اور مسلمان اپنی توہین برداشت کرسکتا ہے مگر اپنے خدا، اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اپنی کتاب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کی توہین برداشت نہیں کرسکتا۔ بہرحال عہدِ حاضر کے مسلمانوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ ’’حاضر و موجود‘‘سے مرعوب، حاضر و موجود سے خوفزدہ، اور حاضر و موجود کی شکست و ریخت کو مشکل بلکہ ناممکن سمجھتے ہیں۔ اس حاضر وموجود کو، جس کے حوالے سے اقبال نے کہا ہے
تُو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخِ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے
دے کے احساسِ زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
فتنۂ ملتِ بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے
لیکن اقبال کے مشورے کے برعکس مسلمانوں کے حکمران، مسلمانوں کے سیاست دان اور مسلمانوں کے دانش وران مسلمانوں کو حاضر وموجود سے بیزار کرنے کے بجائے انہیں حاضر و موجود کا ’’عاشق‘‘ اور حاضر و موجود کے گرد طواف کرنے والا بنا رہے ہیں۔ ’’سلاطین‘‘ کے دائرے میں کوئی امریکہ کا پرستار ہے، کوئی یورپ کا عاشق ہے، کوئی اسٹیبلشمنٹ کا پروانہ ہے۔ حالانکہ ایک مسلمان کے شایانِ شان صرف یہ ہے کہ اس کی زندگی خدا مرکز ہو، رسولؐ مرکز ہو، قرآن مرکز ہو، اور مسلمان اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کا پرستار ہو۔ وہ تہذیب، وہ تاریخ جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدا کردہ تہذیب و تاریخ ہے۔ جو ہمارے مجددین کی پیدا کردہ تہذیب و تاریخ ہے۔ اسی تہذیب و تاریخ نے خود انسان کو بدل کر اس کی تہذیب و تاریخ کو بدلا ہے۔
ہمارے اصل کرداری نمونے یا Role Models تو انبیاء و مرسلین اور خود سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ مگر ہم انبیاء اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے بہت دور کھڑے ہیں۔ چنانچہ آیئے دیکھتے ہیں کہ ہمارے مجددین نے حاضر و موجود کو شکست دے کر کس طرح تاریخ کو بدلا ہے ۔ امام غزالیؒ ایک فرد تھے اور اُن کے سامنے یونانی فلسفے کا چیلنج تھا جس کے علَم برداروں میں ابن رشد اور ابن سینا جیسے بڑے بڑے درجنوں لوگ شامل تھے۔ یونان کا فلسفہ ؟؟؟ کی بالادستی کو چیلنج کررہا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ جس طرح خدا ازلی و ابدی ہے اسی طرح کائنات بھی ازلی و ابدی ہے۔ یہ فکر اسلام کا وہی حشر کرسکتی تھی جو اس فکر نے مغرب میں عیسائیت کا کیا۔ مگر غزالی نے تنِ تنہا یونانی فکر کو شکست دی۔ کسی ریاست کی قوت سے نہیں، کسی حکومت کی طاقت سے نہیں، کسی فوج کے بل بوتے پر نہیں، کسی سرمائے کے وسیلے سے نہیں، بلکہ اپنے بے مثل تقوے اور برتر علم کے ذریعے۔ غزالی نہ ہوتے تو نہ جانے اسلامی فکر کا کیا ہوتا؟ برصغیر میں مجدد الف ثانی نے تن تنہا جہانگیر کو چیلنج کیا۔ اس سے کہا کہ وہ اسلام اور ہندوازم کے اس ملغوبے کو ترک کرے جو اکبر سے جہانگیر کے وقت تک چلا آرہا تھا۔ جہانگیر نے آسانی کے ساتھ مجدد الف ثانی کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے، مگر مجدد الف ثانی وقت کے حکمران، وقت کی ریاست اور اُس کی طاقت کے سامنے کھڑے رہے اور اسلام کو بالادست بناکر دم لیا۔ مجدد الف ثانی کے پاس بھی نہ ریاست تھی، نہ حکومت تھی، نہ فوج تھی، نہ سرمایہ تھا۔ شاہ ولی اللہ نے شعور کی آنکھ کھولی تو معاشرے کو اس فکری، اخلاقی اور تہذیبی زوال میں مبتلا پایا کہ انہوں نے علماء کے نام جو خط لکھا اس میں علماء کو ’’احمقو‘‘کہہ کر مخاطب کیا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ علماء کا یہ حال تھا تو باقی طبقات کا کیا حال ہوگا! اس ماحول میں مسلمانوں کا قرآن سے رشتہ ٹوٹا ہوا تھا۔ علم حدیث ناپید ہورہا تھا۔ مراٹھوں نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کی ہوئی تھی۔ شاہ ولی اللہ نے مسلمانوں کو قرآن سے منسلک کیا۔ علم حدیث سے وابستہ کیا۔ انہوں نے احمد شاہ ابدالی کے ذریعے مرہٹوں کا زور توڑ دیا۔ آج برصغیر کے مسلمان تفہیم اور علم حدیث کی جس روایت کے امین ہیں وہ روایت شاہ ولی اللہ کے بغیر نہیں ہوسکتی تھی۔ مولانا مودودی کا پورا سفر ہمارے سامنے ہے۔ انہوں نے جب اپنے کام کی ابتدا کی اور جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی اُس وقت برصغیر کے مسلمان وقت کی واحد سپر پاور کے غلام تھے اور اُس کی مسلط کی ہوئی غلامی کے خاتمے کا دور دور تک کوئی امکان نہ تھا، دوسری جانب مسلمانوں کو ہندو اکثریت کے جبر کا سامنا تھا، مگر مولانا نے گھٹاٹوپ اندھیروں میں مسلمانوں پر مسلط حاضر و موجود کو چیلنج کیا۔ انہوں نے ایک جانب مسلمانوں کو یہ بتایا کہ حق کیا ہے اور اس کی تفصیلات کیا ہیں۔ دوسری جانب انہوں نے بتایا کہ عصرِ حاضر کا باطل کہاں کہاں موجود ہے اور اس کی تفصیلات یا اس کی تنقید کیا ہے؟ مولانا نے غلامی کی حالت میں پورے یقین کے ساتھ کہا کہ اسلام مغلوب ہونے کے لیے نہیں غالب ہونے کے لیے آیا ہے۔ انہوں نے پیغام دیا کہ قرآن کی دعوت لے کر اٹھو اور دنیا پر چھا جاؤ۔ انہوں نے مغرب کی غالب تہذیب سے مرعوب ہوئے بغیر اپنی بے مثال تصنیف ’’تنقیحات‘‘ میں کہا کہ مغرب کی تہذیب ’’تخمِ خبیث‘‘ ہے، ’’شجرِ خبیث‘‘ ہے اور ’’جاہلیتِ خالصہ‘‘ ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ مولانا کے پاس حکومت نہیں تھی، ریاست نہیں تھی، فوج نہیں تھی، سرمایہ نہیں تھا، ذرائع ابلاغ کی قوت نہیں تھی، مگر انہوں نے صرف اپنے تقوے اور اپنے علم کی طاقت سے پوری امت کے بیانیے یا Narrative کو بدل دیا۔ آج دنیا میں کروڑوں مسلمانوں کے لیے اسلام ہی اصل حقیقت ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو غزالی، مجدد الف ثانی اور مولانا مودودی کا تجدیدی کام ایک بہت بڑے انقلاب کے سوا کیا ہے؟ اقبال نے کہا ہے
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کار کشا، کارساز
کیا ہم نے آپ کو کوئی ’’افسانہ‘‘ سنایا ہے؟ کیا ہم نے کوئی ’’تخیلاتی دنیا‘‘ تخلیق کرکے آپ کو اس کی سیر کرائی ہے؟ جی نہیں۔ ہم نے آپ کے سامنے ٹھوس تاریخی تجربات کو بیان کیا ہے۔ ان تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ ’’حاضر و موجود‘‘ اور ان کی کشش اور جبر نہیں۔ اصل مسئلہ ہمارا ایمان اور ہماری تمنا اور کوشش ہے۔ قرآن نے صاف کہا ہے کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔ ہم انقلاب کی تمنا اور کوشش کریں گے تو ہمیں انقلاب ملے گا، جس طرح غزالی، مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ اور مولانا مودودی کو ملا۔ ہم قومی و صوبائی اسمبلی کی دس پندرہ نشستوں کی تمنا اور ان کے حصول کی جدوجہد کریں گے تو ہمیں دس پندرہ نشستیں مل جائیں گی۔ آیئے غزالی کے ماڈل سے کچھ سیکھیں۔ آیئے مجدد الف ثانی کے نمونے سے جذبہ کشید کریں۔ آیئے شاہ ولی اللہ کی مثال سے اپنے دلوں کو گرمائیں۔ آیئے مولانا مودودی کے شخصیت اور فکر اور ان کے تقوے اور علم کے کسی نہ کسی درجے میں علَم بردار بنیں۔ ان خصوصیات کے بغیر نہ کبھی انقلاب آیا ہے، نہ آسکتا ہے۔ انقلاب نہیں آئے گا تو ہم خود کو کیا اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کو بھی نہیں بچاسکیں گے۔ انقلاب ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اجتماعی زندگی اور اجتماعی موت کا مسئلہ۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ باطل کی ’’ناکام مزاحمت‘‘ بھی باطل کی ’’کامیاب غلامی‘‘ سے لاکھ گنا بہتر ہے۔ باطل کی ناکام مزاحمت سے ہم فنا ہوجائیں گے مگر دین زندہ رہے گا، اور اصل اہمیت تو دین کے زندہ رہنے ہی کی ہے۔ باطل کے غلبے اور اس کی کامیاب غلامی سے ہم تو بچ جائیں گے مگر ہمارے دین، ہماری تہذیب اور ہماری تاریخ کی جان پر بن آئے گی، اور یہ کسی معمولی سے مسلمان کے لیے بھی شرم کی بات ہے۔
1 تبصرہ
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
حیا ہی پروانہ خیر
ویمن یونیورسٹی کی بس میں سب سے پہلی سوار ہونے والی حنا امتیاز معمول کے مطابق آج بھی کسی کتاب کی ورق گردانی میں گم تھی اس لیے اسے اپنے ارد گرد ہونے والی غیر معمولی ہلچل کا علم ہی نہ ہوا۔
آج کی کتب بینی نے اسے خاصا الجھن میں مبتلا کیا ہوا تھا فرانسیسی انقلاب کے وقت وہاں کی عوام نے قلم کاروں کی جس طرح پیروی کی وہ حیران تھی کہ کیسے کوئی قوم اپنے ہی جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے افکار و نظریات کے پیچھے اندھا دھند چل پڑتی ہے چاہے وہ نظریات اخلاق سے کتنے ہی گرے ہوئے کیوں نہ ہوں۔
ڈرائیور کے ہارن کرنے پر اس نے کتاب سے سر اٹھایا تو بس مکمل خالی تھی اس کی ساتھی لیکچرار اور تمام طالبات بس سے پہلے ہی اتر چکی تھیں
یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ آج کیا دن ہے؟
کلاس میں داخل ہوکرحنا نے ابتدائی سلام دعا کے بعد طالبات کی طرف معنی خیز مسکراہٹ سے دیکھا
“ پیاری لڑکیو! آج خیر سے آپ میں سے بیشتر لڑکیوں نے سرخ رنگ کے دوپٹے اور بعض نے تو پورا لباس ہی سرخ پہنا ہے”
“جی میم! آج ویلنٹائن ڈے ہے نا” کسی ایک طالبہ نے جواب دیا
تو ساتھ ہی کسی دوسری طالبہ نے مزید وضاحت بھی پیش کردی “میم اب وہ جونا مناسب سا ویلنٹائن سب مناتے ہیں ویسا تو ہم کچھ نہیں کر رہے بس سب نے سوچا کہ ایک تہوار آرہا تو چلومنا لیا جائے تفریح ہو جائے گی”
ہممم۔۔تویہ باقی طالبات آپ کے ساتھ شامل کیوں نہ ہوئیں؟ جی نائلہ آپ کا اس دن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ حنا نے ایک طالبہ کو مخاطب کیا جوویلنٹائن ڈے منانے والی لڑکیوں میں شامل نہ تھی۔
میم میرے نزدیک ویلنٹائن اخلاقی لحاظ سے انتہائی نا مناسب تہوار ہے اوراس کا ایجنڈا حیا کے منافی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے
"جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے کرو"
نائلہ لیکن ہم کوئی نا مناسب حرکت تو نہیں کر رہے نا۔ ایک دوسری طالبہ نے نائلہ کو ٹوکا
جی جی ایسا ہی ہے میری شہزادی! آپ کی نیت بالکل صاف ہے آپ کا مقصد تفریح کے علاوہ کچھ نہیں ہے یہ مجھے معلوم ہے۔ حنا نے خوبصورتی سے دونوں کی بات چیت میں مداخلت کی اور بات کو مزید آگے بڑھایا۔
لڑکیو!بات دراصل یہ ہے کہ جب ہم خود کو اسلام کے دائرے میں داخل کردیتے ہیں نہ۔۔۔ تو شعوری طور پر حیا کا اختیار کرنا ہمارے لیے اس طرح ضروری ہوجاتا ہے جس طرح سانس لینے کے لیے ہوا میں آکسیجن کا ہونا ضروری ہے کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
” حیا ایمان کی شاخوں میں ایک شاخ ہے۔ “
لیکن اللہ کی پناہ ہم ایسے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں جہاں حیا کو کم اعتمادی اور ترقی پذیر عناصر کے برخلاف گردانا جاتا ہے اور یہ وہ نظریات ہیں جو ہمارے کچھ نامی گرامی مہذب طبقے نے مغربی معاشرے سے شاید عاریتاً لیے تھے اور اب سارے معاشرے میں تیزی سے سرایت کر تے جا رہے ہیں
اس...
مایوس مت ہونا
ڈاکٹر فہمیدہ آپ نے تو میرا ووٹ ضائع ہی کروا دیا۔ساجدہ بیگم اپنا چیک اپ کروانے آئی تو ساتھ ہی شکوہ کر بیٹھی،میرے شوہر نے کہا بھی تھا، کہ اس شہر میں جماعت کو کوئی نہیں جانتاووٹ ضائع ہوجائے گا،لیکن میں سمجھی کیا پتاقوم ایک موقع دے ہی دیں دین دار لوگوں کو، ساجدہ باجی تو گویا آج بھری بیٹھی تھیں۔ کیا آپ نےامیر جماعت سراج الحق صاحب کا بیان نہیں سنا؟ڈاکٹر فہمیدہ نے تمہید باندھی، جب ایک نیوز اینکر نے سراج الحق صاحب سےسوال کیا،لوگ جماعت اسلامی کو ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ تو سراج الحق صاحب کا جواب تھا: ہر صبح فجر کے وقت مسجد سے اذان کی آواز آتی ہے” *حَیّ عَلی الْفَلاحِ حیّ عَلی الْفَلاحِ* اس آواز کو سن کر اگر کروڑوں لوگ سوتے ہیں اور چند ہزار لوگ اٹھ کر مسجدوں میں جاتے ہیں، تو یہ اس آذان یا موذن کی کمی نہیں ہے۔یہ تو ان لوگوں کی کمی ہے جنہوں نے نیند نہیں چھوڑی اور مسجد کی طرف نہیں دوڑے۔ اس لیے ہم تو اذان دیتے رہیں گےاور پکارتےرہیں گے کہ آو تمہاری دنیا اور آخرت کی کامیابی اس نظام میں ہے،جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں پیش کرچکے ہیں۔
نہیں ڈاکٹر صاحبہ میں تو سوچ رہی تھی ساجدہ باجی نے بات کاٹی،اتنا وقت کا ضیاع ہوا اتنا پیسہ خرچ ہوا اور گھرگھر جاکےسمجھایا بھی لوگوں کو بس اسی لیے نتیجہ دیکھ کرمایوس ہوگئی۔ سادہ طبیعت کی ساجدہ باجی پھر سے گویا ہوئیں۔ ساجدہ باجی کیا آپ نے وہ آیت نہیں پڑھی" الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا"(مال اور اولاد تو دنیا کی زندگی کی رونق ہیں، اور تیرے رب کے ہاں باقی رہنے والی نیکیاں ثواب اور آخرت کی امید کے لحاظ سے بہتر ہیں۔) اس لیے میری بہن یہ ہرگز نہ سوچو کہ ہمارا پیسہ یا وقت ضائع ہوا،ارے اس کا اجر تو اللہ تعالٰی کے ذمہ ہے۔
ہماری ساری تگ ودو اللہ کے دین کو قائم کرنے اور اس ملک میں قرآن کا قانوں نافذ کرنے کے لیے ہے۔ہم نے بالکل مایوس نہیں ہونا اللہ کو ہماری یہی کوشش ہی درکار ہے۔اللہ پاک اپنے جن بندوں سے محبت کرتا انھیں آزمائش میں بھی ڈالتاہےتاکہ پتا چل سکے کون سخت وقت پہ ثابت قدم رہتاہےاور کس کے قدم ڈگمگاتے ہیں،ڈاکٹر فہمیدہ نے نرمی سے سمجھایا۔پھر تو ڈاکٹر صاحبہ ہمیں دوبارہ سے اس مہم کی تیاری میں جُت جانا چاہیے۔بالکل میری بہن!نظام کب نافذ ہوگا یہ تو اللہ ہی جانتا ہے،لیکن ہماری کوشش تو ہرحال میں جاری رہنی چاہیے۔ ہم تو اللہ کے سامنے عزر پیش کرنے والے بن سکیں، کہ اے اللہ میں نے اپنی پوری کوشش کی جہاں تک ہوسکا میں نکلی،جہاں مجھے پکارا گیا میں نے لبیک کہا، میرے مولا تو جانتا ہے،میں نےاپنی طرف سے کوئی کمی نہیں چھوڑی، ہر گھر پہ دستک دی، ہر فرد کودعوت دی، لیکن یارب تو گواہ رہنا میری اس ادنٰی سی کوشش پہ اور مجھے ہمت دے کہ میں اور زیادہ دین کی خدمت کرسکوں، ڈاکٹر فہمیدہ فرط جذبات سے بولیں۔ ساجدہ باجی شرمندگی سے...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...
فاروقی صاحب اسلام علیکم – آپ کا کالم اسلامی انقلاب کیوں ناگزیر ہے؟ میں نے غور مطالعہ کیا تاہم آخر میں ایک سوال پیدہ ہوا کہ کیوں کر ؟ آج سے ١٥٠٠ سال قبل الله کے رسول نے اللہ کی مدد سے جو انقلاب پیدہ کیا اسکے لئے پہلے ٣١٣ صحابہ کی ایسی فورس قائم کی جن کی دنیا قرآن سے شروع ہوتی اور قرآن پر ختم ہوتی آج ہم یا ہماری دینی تنظیمیں اس جیسا ماحول تو کجا انفرادی حثیت میں بھی کوئی نمونہ پیش نہیں کر سکی – مختصر یہ کہ بارہ کرم بنیادی نکات یا وٹ لائن دن کے کس طرح یہ انقلاب پیدہ ہو ؟ جمال احمد کینیڈا ٹورنٹو
jamalahmed14@gmail,com