اسلامی انقلاب کیوں ناگزیر ہے؟

دنیا کی دوسری امتوں کے لیے انقلاب ’’ضروری‘‘ ہوگا، مگر مسلمانوں کے لیے انقلاب ’’ناگزیر‘‘ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انقلاب کے بغیر زندگی بندگی نہیں بن سکتی، اور بندگی کے بغیر بسر ہونے والی زندگی شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ انقلاب ایک ’’جدید تصور‘‘ ہے اور اسلام کا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ یہ وہی دلیل ہے جو تصوف کے سلسلے میں دی جاتی رہی ہے۔ کہا جاتا رہا ہے کہ اسلام کے آغاز میں تصوف کی اصطلاح موجود نہ تھی۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اسلام کی ابتدا میں تصوف ایک ایسی ’’حقیقت‘‘ تھی جس کا کوئی ’’نام‘‘ نہ تھا۔ اب تصوف کا ایک نام ہے، مگر یہ نام حقیقت سے محروم ہوچکا ہے۔ اقبال نے ’’مدرسے‘‘ پر ہی نہیں خانقاہ پر بھی چار بڑے اور ہولناک الزامات لگائے ہیں۔ اقبال نے کہا ہے ؂
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ
یعنی اقبال نے مدرسے اور خانقاہ کو زندگی، محبت، معرفت اور نگاہ سے عاری قرار دیا ہے۔ استثنائی مثالوں سے قطع نظرکرلیا جائے تو اقبال کے چاروں الزامات درست معلوم ہوتے ہیں۔ انقلاب کا قصہ بھی تصوف جیسا ہی ہے۔ ابتدائے اسلام میں انقلاب کا کوئی نام نہیں تھا، یعنی انقلاب نام کے بغیرموجود تھا۔ مگر اب انقلاب کی اصطلاح موجود ہے اور اس اصطلاح کی ہماری انقلابیت گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوچکی ہے۔ یہاں تک کہ سوشلسٹوں نے انقلاب کی اصطلاح کو استعمال کرکے اس کا مفہوم ہی بدل ڈالا ہے۔
مذاہبِ عالم کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو مذاہبِ عالم کی پوری تاریخ ہی انقلاب کی تاریخ ہے۔ اس دعوے کے دو دلائل ہیں: انقلاب کسی تصور کے مکمل اثبات اور کسی تصور کے مکمل انکار کا نام ہے اور ہر نبی نے حق کا اثبات اور باطل کا انکار کیا۔ مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتایا کہ حق کیا ہے، اور انہوں نے بتایا کہ نمرود، اس کی بادشاہت بلکہ اس کی خدائی باطل ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی یہی کیا۔ انہوں نے حق کا اعلان کیا اور باطل کی تردید کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ بھی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حق کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کا باطل کون ہے؟ اہم بات یہ ہے کہ انبیاء و مرسلین صرف حق کا اعلان اور باطل کی نشاندہی کرکے نہیں رہ گئے، بلکہ انہوں نے حق کو بسر اور غالب کرنے، اور باطل کو مٹانے کی جدوجہد بھی کی۔ اس جدوجہد کا ایک پہلو یہ ہے کہ انبیاء و مرسلین نے حق و باطل کی کشمکش کے سلسلے میں کبھی طاقت کے ہولناک عدم توازن کو مسئلہ نہیں بنایا۔ بلاشبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جلیل القدر پیغمبر تھے، مگر دنیاوی معنوں میں آپؑ کی قوت نمرود کی قوت کے مقابلے میں کچھ بھی نہ تھی۔ نمرود کے پاس حکومت تھی، ریاست تھی، فوج تھی، بے پناہ دولت تھی اور گمراہ قوم تھی۔ اس کے مقابلے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام محض ایک فرد تھے، مگر آپؑ کسی خوف کے بغیر نمرود کے خلاف صف آراء ہوگئے۔ فرعون کی طاقت کے سامنے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دنیاوی طاقت کچھ نہ تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک میں بھی یہی صورت تھی۔ کفار اور مشرکین بہت قوی تھے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم معاشی، سیاسی اور عسکری اعتبار سے کسی قوت کے حامل نہ تھے۔ ان حقائق کے باوجود تمام انبیاء کی سنت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سے لاکھوں گنا باطل کو چیلنج کیا اور تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔ ایک نبی نے بھی اللہ تعالیٰ سے یہ نہیں کہا کہ ہمارے حریف کے پاس حکومت ہے، ہمیں بھی حکومت دے۔ اُس کے پاس ریاست ہے، ہمیں بھی ریاست دے۔ اُس کے پاس سرمایہ ہے، ہمیں بھی سرمایہ دے۔ اُس کے پاس ایک قوم ہے، ہمیں بھی ایک قوم دے۔ جب یہ سب کچھ ہمیں مل چکے گا تو پھر ہم باطل کو چیلنج کریں گے۔ غزوۂ بدر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فوج دی گئی مگر افرادی قوت اور ہتھیاروں کے اعتبار سے اس فوج کا حریف فوج کے ساتھ کوئی موازنہ ممکن نہ تھا۔ ان حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ حق کی بنیاد پر برپا ہونے والا انقلاب اتنا اہم ہوتا ہے کہ وہ ظاہری اسباب کو خاطر میں نہیں لاتا۔
غور کیا جائے تو کلمۂ طیبہ جیسا بڑا انقلابی فقرہ دنیا میں نہ کبھی تخلیق ہوا ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ یہ کلمہ اپنے ابتدائی حصے یعنی ’’لا الٰہ‘‘ کے ذریعے انفرادی، اجتماعی، ریاستی، یہاں تک کہ پوری کائنات میں موجود ہر جھوٹے خدا اور اُس کی خدائی کا انکار کرکے اسے منہدم کردیتا ہے۔ جب ’’نہیں ہے کوئی الٰہ‘‘ کے ذریعے تمام جھوٹے خداؤں کا انکار ہوجاتا ہے تو پھر ’’الا اللہ‘‘ کے ذریعے حقیقی خدا زندگی کے ایک ایک گوشے اور کائنات کے ایک ایک ذرّے پر سایہ فگن ہوجاتا ہے۔ کلمے کے دوسرے جزو ’’محمد الرسول اللہ‘‘ کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ پاک، سیرتِ طیبہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعتِ مطہرہ تمام باطل اور خودساختہ نظاموں کو منہدم کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو بالادست بنانے کے لیے بنی نوع انسان کے سامنے آجاتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو دنیا میں اسلام سے بڑی انقلابی قوت کا تصور محال ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کی انقلابیت قرآن کے اس حکم سے بھی ظاہر اور ثابت ہے جس میں مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ تم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ۔ غور کیا جائے تو قرآن کا یہ حکم انفرادی، اجتماعی، بین الاقوامی، سیاسی، معاشی، تمدنی، تہذیبی اور علمی زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اسلام کی انقلابیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں نے ملوکیت کو قبول تو کرلیا مگر کبھی ملوک کو خلفائے راشدین کے سائے کے برابر بھی نہ سمجھا۔ اسلامی تاریخ کو دیکھا جائے تو وہ مرکز جُو اور مرکز گریز قوتوں کی کشمکش کی داستان ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ تجدید کا ادارہ اپنی نہاد میں خود ایک انقلابی ادارہ ہے، اس لیے کہ یہ ادارہ بجائے خود مرکز جُو قوت کا مظہر ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ کی مرکز جُو حرکت یا مرکز جُو قوت مسلمانوں کو تاریخ کے مضافات سے گھسیٹ کر لاتی ہے اور انہیں پھر سے مرکز کے ساتھ منسلک کردیتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ مسلمانوں کا دین بھی انقلابی ہے، تہذیب بھی انقلابی ہے، تاریخ بھی انقلابی ہے، علم بھی انقلابی ہے، تربیت بھی انقلابی ہے۔ امام غزالیؒ ، مجدد الف ثانیؒ ، شاہ ولی اللہؒ ، مولانا مودودی،ؒ حسن البناؒ اور سید قطبؒ کا کارِ تجدید اسلام کی انقلابیت کا مظہر ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جو مسلمان انقلابی نہیں اُسے اپنے ایمان، فہمِ دین اور فہمِ دنیا پر غور کرنا چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ انقلاب کیوں ضروری ہوتا ہے؟
فراق گورکھ پوری ہندو تھے مگر مسلم تہذیب کے دائرے میں سانس لینے کی وجہ سے اسلام کی انقلابیت کا ایک ذرّہ انہیں بھی فراہم ہوگیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا ہے ؂
اگر بدل نہ دیا آدمی نے دنیا کو
تو جان لو کہ یہاں آدمی کی خیر نہیں
انسان کی زندگی کے دو مراکز ہیں: دین اور دنیا۔ اگر انسان کا اصل اصول دین ہوگا تو وہ دنیا کو بدل دے گا اور اسے دین کے مطابق ڈھال لے گا۔ انسان کا اصولِ حیات دنیا ہوگی تو دنیا دین کو بدل کر اپنے مطابق بنالے گی۔ اس صورت میں دین یا تو فنا ہوجائے گا، یا وہ دنیا کی کائنات کا ایک جزو ہوگا اور اس کو زندگی میں کوئی مرکزی حیثیت حاصل نہ ہوگی۔ ایسا ہوگا تو انسان انسان نہیں رہے گا۔ زندگی زندگی نہیں رہے گی۔ بدقسمتی سے مغرب نے جو دنیا تخلیق کی ہے اس نے انسان کو انسان اور زندگی کو زندگی نہیں رہنے دیا۔ اس صورتِ حال کی وجہ ظاہر ہے۔ نطشے نے کہا: خدا مرگیا۔ مالرو نے کہا: انسان مرگیا۔ لارنس نے کہا: انسانی تعلقات کا ادب مرگیا۔ باخت کہہ گیا ہے کہ مصنف کی موت واقع ہوچکی ہے۔ دریدا کہہ گیا ہے کہ معروضی معنی یعنی Objective Meaningکا کوئی وجود نہیں، معنی دائمی طور پر التوا میں ہیں۔ یعنی دریدا کے مطابق معروضی معنی کا انتقال ہوچکا۔ آخر اتنے بڑے بڑے سانحات کے بعد زندگی کیسے زندگی رہ سکتی ہے؟ اور انسان کیسے انسان رہ سکتا ہے؟ ایک زمانہ تھا کہ مغرب ہمارے لیے ایک فلسفہ تھا، مگر اب مدتوں سے مغرب ہمارے لیے ’’تجربہ ‘‘ہے۔ فلسفے سے لڑنا آسان ہے مگر تجربے سے لڑنا مشکل ہے۔ اس لیے کہ تجربہ حساسیت پرقابض ہوجاتا ہے اور اسے دلیل کی قوت سے شکست دینا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس تجربے کی ہولناکی یہ ہے کہ ہماری ریاست، ہماری سیاست، ہماری معیشت، ہماری عسکری قوت، ہماری سماجیات، ہمارے علوم، ہمارے فنون، ہمارا علم، ہمارے ذرائع ابلاغ غرضیکہ ہمارا سب کچھ مغرب کے زیراثر ہے۔ امریکہ کے ممتاز اسکالرسیموئل پی ہن ٹنگٹن نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف
“The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order”
میں زندگی کے ایسے 15دائروں کا ذکر کیا ہے جن میں مغرب کو پوری دنیا پر بالادستی و غلبہ حاصل ہے۔
اس صورتِ حال کے دو ہولناک مضمرات ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہم ایک فرد، ایک گروہ، ایک قوم، بلکہ ایک امت کے طور پر یہ سوچتے ہیں کہ ہماری دنیا اپنی اصل میں ہماری دنیا نہیں ہے بلکہ ہماری دنیا دراصل مغرب کی دنیا ہے۔ مذکورہ صورت حال سے جو دوسرا نتیجہ کروڑوں انسانوں نے نکالا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ دنیا جیسی ہے ہمیں اُسے ویسا ہی قبول کرلینا چاہیے اور اس دنیا کو بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کرنی چاہیے، بلکہ اس دنیا میں اپنے لیے کوئی ایسی جگہ ڈھونڈ لینی چاہیے جو ہمیں انفرادی زندگی کے دائرے میں مذہب کو اختیار کرنے دے اور بس۔ ایک خیال ان دونوں خیالات سے بھی زیادہ ہولناک ہے، اور وہ یہ کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم دنیا کو بدلنے کی صلاحیت کے حامل ہی نہیں۔ ان خیالات کے شعوری یا لاشعوری احساس کے تحت انقلاب ایک نعرہ تو ہے مگر اس نعرے پر کامل یقین کرنے والے لوگ نایاب ہوتے جارہے ہیں۔ یہ ہمارے انفرادی اور اجتماعی مذہبی شعور کی ایسی ہولناک پسپائی ہے کہ اس کے لیے ’’شرمناک‘‘ اور ’’المناک‘‘ کے الفاظ معمولی ہیں۔ اس لیے کہ ایسا مذہبی شعور جو انقلاب کا تمنائی ہو نہ اس کے لیے جدوجہد کرنے والا، وہ کلمہ طیبہ کی معنویت سمجھنے سے قاصر ہے۔ وہ انبیاء کی سنتِ مقدسہ سے کٹا ہوا ہے اور اس شعور کا تجدید کی روایت سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ اس مذہبی شعور کا مسئلہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مغربی تہذیب کے ہولناک ترین اثرات میں سے ایک اثر یہ ہے کہ کروڑوں مسلمانوں کی شخصیتیں دو نیم یا Split ہوگئی ہیں۔ ہمارا ظاہر مذہب کے زیراثر مذہبی ہے اور اس کی مذہبیت بڑھ رہی ہے، مگر ہمارا باطن مغرب کے خوابوں اور Ideals کی گرفت میں ہے۔ چونکہ باطل کی مزاحمت کے لیے باطنی قوت ناگزیر ہوتی ہے اور یہ باطنی قوت ہمیں مغرب کے خلاف مہیا نہیں ہو پارہی اس لیے بہت سے مسلمان مغرب کی مزاحمت کو ناممکن خیال کرتے ہیں، یا کم از کم ان کے اندر وہ تڑپ موجود نہیں جو معرکہ آرائی، فتح اور نئی دنیا کی تخلیق کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔ اس صورتِ حال نے پاکستان سمیت پوری مسلم دنیا میں انقلابی جدوجہد کو ہوا اور پانی کی طرح ناگزیر بنادیا ہے۔ مسلمان یہ جدوجہد نہیں کریں گے تو دنیا انہیں جتنا بدل چکی ہے اس سے زیادہ بدل کر رکھ دے گی۔ لیکن بہرحال موجودہ صورتِ حال کا مفہوم یہ ہے کہ ہم نے انفرادی، اجتماعی اور بین الاقوامی زندگی کے ’’حاضر وموجود‘‘کو ’’تقدیر‘‘ سمجھ کر قبول کرلیا ہے، اور ہم سمجھتے ہیں کہ ’’ہلکی پھلکی موسیقی‘‘ کے مصداق ’’ہلکی پھلکی سیاست‘‘ ہمارے دین، ہماری تہذیب اور ہماری تاریخ کے بڑے بڑے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ اسلام کے خلاف بغاوت تو نہیں لیکن اس طرزِعمل کی پشت پر یہ مسئلہ موجود ہے کہ ہم خود جتنے چھوٹے ہیں، اسلام کو بھی اتنی چھوٹی سی چیز سمجھنے لگتے ہیں۔ لیکن کلمۂ طیبہ اتنی بڑی حقیقت ہے کہ اس کا علَم بردار دوچار لاکھ اور دو چار کروڑ افراد کیا پوری تہذیب کے خلاف خم ٹھونک کر کھڑا ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ حقیقی خدا کو خدا ماننے والا نہ جھوٹے خداؤں سے ڈرے گا، نہ وہ اپنے رب کی بے تکریمی کا مرتکب ہوگا۔اور مسلمان اپنی توہین برداشت کرسکتا ہے مگر اپنے خدا، اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اپنی کتاب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کی توہین برداشت نہیں کرسکتا۔ بہرحال عہدِ حاضر کے مسلمانوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ ’’حاضر و موجود‘‘سے مرعوب، حاضر و موجود سے خوفزدہ، اور حاضر و موجود کی شکست و ریخت کو مشکل بلکہ ناممکن سمجھتے ہیں۔ اس حاضر وموجود کو، جس کے حوالے سے اقبال نے کہا ہے ؂
تُو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخِ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے
دے کے احساسِ زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
فتنۂ ملتِ بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے
لیکن اقبال کے مشورے کے برعکس مسلمانوں کے حکمران، مسلمانوں کے سیاست دان اور مسلمانوں کے دانش وران مسلمانوں کو حاضر وموجود سے بیزار کرنے کے بجائے انہیں حاضر و موجود کا ’’عاشق‘‘ اور حاضر و موجود کے گرد طواف کرنے والا بنا رہے ہیں۔ ’’سلاطین‘‘ کے دائرے میں کوئی امریکہ کا پرستار ہے، کوئی یورپ کا عاشق ہے، کوئی اسٹیبلشمنٹ کا پروانہ ہے۔ حالانکہ ایک مسلمان کے شایانِ شان صرف یہ ہے کہ اس کی زندگی خدا مرکز ہو، رسولؐ مرکز ہو، قرآن مرکز ہو، اور مسلمان اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کا پرستار ہو۔ وہ تہذیب، وہ تاریخ جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدا کردہ تہذیب و تاریخ ہے۔ جو ہمارے مجددین کی پیدا کردہ تہذیب و تاریخ ہے۔ اسی تہذیب و تاریخ نے خود انسان کو بدل کر اس کی تہذیب و تاریخ کو بدلا ہے۔
ہمارے اصل کرداری نمونے یا Role Models تو انبیاء و مرسلین اور خود سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ مگر ہم انبیاء اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے بہت دور کھڑے ہیں۔ چنانچہ آیئے دیکھتے ہیں کہ ہمارے مجددین نے حاضر و موجود کو شکست دے کر کس طرح تاریخ کو بدلا ہے ۔ امام غزالیؒ ایک فرد تھے اور اُن کے سامنے یونانی فلسفے کا چیلنج تھا جس کے علَم برداروں میں ابن رشد اور ابن سینا جیسے بڑے بڑے درجنوں لوگ شامل تھے۔ یونان کا فلسفہ ؟؟؟ کی بالادستی کو چیلنج کررہا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ جس طرح خدا ازلی و ابدی ہے اسی طرح کائنات بھی ازلی و ابدی ہے۔ یہ فکر اسلام کا وہی حشر کرسکتی تھی جو اس فکر نے مغرب میں عیسائیت کا کیا۔ مگر غزالی نے تنِ تنہا یونانی فکر کو شکست دی۔ کسی ریاست کی قوت سے نہیں، کسی حکومت کی طاقت سے نہیں، کسی فوج کے بل بوتے پر نہیں، کسی سرمائے کے وسیلے سے نہیں، بلکہ اپنے بے مثل تقوے اور برتر علم کے ذریعے۔ غزالی نہ ہوتے تو نہ جانے اسلامی فکر کا کیا ہوتا؟ برصغیر میں مجدد الف ثانی نے تن تنہا جہانگیر کو چیلنج کیا۔ اس سے کہا کہ وہ اسلام اور ہندوازم کے اس ملغوبے کو ترک کرے جو اکبر سے جہانگیر کے وقت تک چلا آرہا تھا۔ جہانگیر نے آسانی کے ساتھ مجدد الف ثانی کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے، مگر مجدد الف ثانی وقت کے حکمران، وقت کی ریاست اور اُس کی طاقت کے سامنے کھڑے رہے اور اسلام کو بالادست بناکر دم لیا۔ مجدد الف ثانی کے پاس بھی نہ ریاست تھی، نہ حکومت تھی، نہ فوج تھی، نہ سرمایہ تھا۔ شاہ ولی اللہ نے شعور کی آنکھ کھولی تو معاشرے کو اس فکری، اخلاقی اور تہذیبی زوال میں مبتلا پایا کہ انہوں نے علماء کے نام جو خط لکھا اس میں علماء کو ’’احمقو‘‘کہہ کر مخاطب کیا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ علماء کا یہ حال تھا تو باقی طبقات کا کیا حال ہوگا! اس ماحول میں مسلمانوں کا قرآن سے رشتہ ٹوٹا ہوا تھا۔ علم حدیث ناپید ہورہا تھا۔ مراٹھوں نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کی ہوئی تھی۔ شاہ ولی اللہ نے مسلمانوں کو قرآن سے منسلک کیا۔ علم حدیث سے وابستہ کیا۔ انہوں نے احمد شاہ ابدالی کے ذریعے مرہٹوں کا زور توڑ دیا۔ آج برصغیر کے مسلمان تفہیم اور علم حدیث کی جس روایت کے امین ہیں وہ روایت شاہ ولی اللہ کے بغیر نہیں ہوسکتی تھی۔ مولانا مودودی کا پورا سفر ہمارے سامنے ہے۔ انہوں نے جب اپنے کام کی ابتدا کی اور جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی اُس وقت برصغیر کے مسلمان وقت کی واحد سپر پاور کے غلام تھے اور اُس کی مسلط کی ہوئی غلامی کے خاتمے کا دور دور تک کوئی امکان نہ تھا، دوسری جانب مسلمانوں کو ہندو اکثریت کے جبر کا سامنا تھا، مگر مولانا نے گھٹاٹوپ اندھیروں میں مسلمانوں پر مسلط حاضر و موجود کو چیلنج کیا۔ انہوں نے ایک جانب مسلمانوں کو یہ بتایا کہ حق کیا ہے اور اس کی تفصیلات کیا ہیں۔ دوسری جانب انہوں نے بتایا کہ عصرِ حاضر کا باطل کہاں کہاں موجود ہے اور اس کی تفصیلات یا اس کی تنقید کیا ہے؟ مولانا نے غلامی کی حالت میں پورے یقین کے ساتھ کہا کہ اسلام مغلوب ہونے کے لیے نہیں غالب ہونے کے لیے آیا ہے۔ انہوں نے پیغام دیا کہ قرآن کی دعوت لے کر اٹھو اور دنیا پر چھا جاؤ۔ انہوں نے مغرب کی غالب تہذیب سے مرعوب ہوئے بغیر اپنی بے مثال تصنیف ’’تنقیحات‘‘ میں کہا کہ مغرب کی تہذیب ’’تخمِ خبیث‘‘ ہے، ’’شجرِ خبیث‘‘ ہے اور ’’جاہلیتِ خالصہ‘‘ ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ مولانا کے پاس حکومت نہیں تھی، ریاست نہیں تھی، فوج نہیں تھی، سرمایہ نہیں تھا، ذرائع ابلاغ کی قوت نہیں تھی، مگر انہوں نے صرف اپنے تقوے اور اپنے علم کی طاقت سے پوری امت کے بیانیے یا Narrative کو بدل دیا۔ آج دنیا میں کروڑوں مسلمانوں کے لیے اسلام ہی اصل حقیقت ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو غزالی، مجدد الف ثانی اور مولانا مودودی کا تجدیدی کام ایک بہت بڑے انقلاب کے سوا کیا ہے؟ اقبال نے کہا ہے ؂
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کار کشا، کارساز
کیا ہم نے آپ کو کوئی ’’افسانہ‘‘ سنایا ہے؟ کیا ہم نے کوئی ’’تخیلاتی دنیا‘‘ تخلیق کرکے آپ کو اس کی سیر کرائی ہے؟ جی نہیں۔ ہم نے آپ کے سامنے ٹھوس تاریخی تجربات کو بیان کیا ہے۔ ان تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ ’’حاضر و موجود‘‘ اور ان کی کشش اور جبر نہیں۔ اصل مسئلہ ہمارا ایمان اور ہماری تمنا اور کوشش ہے۔ قرآن نے صاف کہا ہے کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔ ہم انقلاب کی تمنا اور کوشش کریں گے تو ہمیں انقلاب ملے گا، جس طرح غزالی، مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ اور مولانا مودودی کو ملا۔ ہم قومی و صوبائی اسمبلی کی دس پندرہ نشستوں کی تمنا اور ان کے حصول کی جدوجہد کریں گے تو ہمیں دس پندرہ نشستیں مل جائیں گی۔ آیئے غزالی کے ماڈل سے کچھ سیکھیں۔ آیئے مجدد الف ثانی کے نمونے سے جذبہ کشید کریں۔ آیئے شاہ ولی اللہ کی مثال سے اپنے دلوں کو گرمائیں۔ آیئے مولانا مودودی کے شخصیت اور فکر اور ان کے تقوے اور علم کے کسی نہ کسی درجے میں علَم بردار بنیں۔ ان خصوصیات کے بغیر نہ کبھی انقلاب آیا ہے، نہ آسکتا ہے۔ انقلاب نہیں آئے گا تو ہم خود کو کیا اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کو بھی نہیں بچاسکیں گے۔ انقلاب ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اجتماعی زندگی اور اجتماعی موت کا مسئلہ۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ باطل کی ’’ناکام مزاحمت‘‘ بھی باطل کی ’’کامیاب غلامی‘‘ سے لاکھ گنا بہتر ہے۔ باطل کی ناکام مزاحمت سے ہم فنا ہوجائیں گے مگر دین زندہ رہے گا، اور اصل اہمیت تو دین کے زندہ رہنے ہی کی ہے۔ باطل کے غلبے اور اس کی کامیاب غلامی سے ہم تو بچ جائیں گے مگر ہمارے دین، ہماری تہذیب اور ہماری تاریخ کی جان پر بن آئے گی، اور یہ کسی معمولی سے مسلمان کے لیے بھی شرم کی بات ہے۔

حصہ
mm
شاہنواز فاروقی پاکستان کے ایک مقبول اورمعروف کالم نگار ہیں۔ آج کل جسارت کے کالم نگار اور ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کے اسٹاف رائیٹر ہیں۔ ان کے موضوعات میں زبان، ادب، شاعری، تنقیدکے ساتھ برصغیر کی تاریخ وتہذیب، عالمی، قومی اور علاقائی سیاست ، تعلیم، معیشت، صحافت، تاریخ اور سماجی مسائل شامل ہیں۔ اسلام اورمغرب کی آ ویزش اور امت مسلمہ کے ماضی وحال اور مستقبل کے امکانات کا مطالعہ ان کا خصوصی موضوع ہے۔ اس کے علاوہ سوشلزم اور سیکولرازم پر بھی ان کی بے شمار تحریریں ہیں۔ فاروقی صاحب ’’علم ٹی وی‘‘ پر ایک ٹاک شو ’’مکالمہ‘‘ کی میزبانی بھی کرتے رہے ہیں۔ شاہنوازفاروقی اظہار خیال اور ضمیر کی آزادی پر کسی سمجھوتے کے قائل نہیں ہیں۔

1 تبصرہ

  1. فاروقی صاحب اسلام علیکم – آپ کا کالم اسلامی انقلاب کیوں ناگزیر ہے؟ میں نے غور مطالعہ کیا تاہم آخر میں ایک سوال پیدہ ہوا کہ کیوں کر ؟ آج سے ١٥٠٠ سال قبل الله کے رسول نے اللہ کی مدد سے جو انقلاب پیدہ کیا اسکے لئے پہلے ٣١٣ صحابہ کی ایسی فورس قائم کی جن کی دنیا قرآن سے شروع ہوتی اور قرآن پر ختم ہوتی آج ہم یا ہماری دینی تنظیمیں اس جیسا ماحول تو کجا انفرادی حثیت میں بھی کوئی نمونہ پیش نہیں کر سکی – مختصر یہ کہ بارہ کرم بنیادی نکات یا وٹ لائن دن کے کس طرح یہ انقلاب پیدہ ہو ؟ جمال احمد کینیڈا ٹورنٹو
    jamalahmed14@gmail,com

جواب چھوڑ دیں