ہم نہیں بدلیں گے 

کسی دانا کا کا قول ہے، ” علم حاصل کریں یہ ضروری ہے لیکن علم سے کچھ حاصل کریں یہ نہایت ضروری ہے”۔ یوں تو ہم اب تعلیم پر توجہ دیتے ہیں، ہر آدمی کی یہ خواہش ہوتی کے اس کی اولاد پڑھ لکھ کر کسی قابل ہو جائے، والدین اپنی زندگی بھر کی کمائی اپنی اولاد کی تعلیم پر خرچ کرتے ہیں تاکہ وہ ان کے بڑھاپے کا سہارا بن سکیں۔ منہ ٹیڑھا کرتے ہوئے  انگریزی بولنا، انگریزی لکھنا، اور انگریزی سیکھنا ہمارے معاشرے کی نظر میں قابلیت کی بلند ترین سطح ہے لیکن بدقسمتی سے ہم آج بھی تربیت سے کوسوں دور ہیں۔ اخلاقی گراوٹ اور تربیت کی کمی کا یہ منظر حالیہ دنوں میں اس وقت دیکھنے میں آیا جب تحریک انصاف کے چیئرمین  عمران خان صاحب کی شادی کی خبر اور تصاویر میڈیا پر نشر ہوئیں، خبر کے پھیلتے ہی ہماری قوم کے اندر دانشوری اور تجزیہ نگاری کا چھپا ہوا فن جاگ اٹھا ہر شخص نے خان صاحب کی تیسری شادی پر تبصرہ کرنا اپنا اخلاقی اور قومی فرض سمجھا، اور اکثریت نے سوشل میڈیا پر اپنے تبصروں کے ذریعے اپنی ذہنی پستی کی بھر پور عکاسی کی. جیسی عوام ویسے حکمران کی کہاوت تو ہم نے سن رکھی ہے، مگر جیسی عوام ویسے دانشور کی کہاوت کا  اضافہ ہونا چاہئے ،ایک معروف صحافی نے خان صاحب کے شادی پر تبصرہ  کرتے ہوئے کہا ” تجربہ کار فاسٹ بولر پرانی گیند زیادہ سوئنگ کرتا ہے”  اس تبصرے کو کالم کا حصہ بنانے کا بنیادی مقصد  دانشور کی سوچ کی عکاسی کرنا ہے کے جب آپ کے ملک کے دانشور ہی اس قسم کی بات کریں گے تو پھر عوام بھلا کیوں پیچھے رہیں؟ انہوں نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا اپنا فرض سمجھا اور اپنی ذہنی پستی اور اخلاقی گراوٹ کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے اس قسم کے تبصرے کیے جن کو یہاں بیان کرنا مناسب نہیں، خاکسار بھی عمران خان صاحب کے سیاسی نظریات اور فیصلوں کا سخت ترین مخالف ہے، لیکن اپنے مخالف کی ذاتی زندگی کے بارے میں اخلاقیات سے گرے ہوئے تبصرے کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟  سمجھنے کی بات یہ ہے کے ہمارے دین اسلام نے بھی نکاح کو  بلوغت کے بعد جائز  قرار دیا ہے اور بلوغت کے بعد عمر کے کسی بھی حصے میں نکاح کرنے پر پابندی نہیں لگائی، سو باتوں کی ایک بات ہر بات پر تبصرہ اور اظہارِ خیال کرنا ضروری بھی نہیں ہوتا، اگر آپ کو کسی کے عمل سے اختلاف ہے  تو بات کریں مگر  اخلاقی پہلوؤں کو مد نظر رکھیں ورنہ بہتر یہی ہے خاموشی اختیار کریں، ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کچھ بولنے سے پہلے اپنے الفاظ کو تول ضرور لیں کیونکہ  الفاظ ہی آپ کی سوچ، تعلیم و تربیت، کو دوسروں پر  لمحے بھر میں ظاہر کردیتے ہیں۔

 

حصہ

جواب چھوڑ دیں