مغرب کی نقالی آخر کیوں؟

ایک وقت تھا کہ جب 14فروری کا دن آتا تھا اور چپکے سے عام دنوں کی طرح گزر جاتا تھا،کوئی اس دن سے خصوصیت سے آشنانہیں تھا، لیکن بدقسمتی ،جب سے مغربی تہذیب وکلچرنے مشرق کارُخ کیا ہے تب سے بے ہودگی وبے حیائی کاسیلاب امڈآیا ہے،وہ مغربی معاشرہ جہاں اخلاقیات کاوجود ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا،خاندانی نظام تباہ ہوچکاہے ،مقدس رشتوں کی قدروقیمت، پرواہ اور اہمیت نہیں رہی، مغرب کی مصنوعی روشنی کی چکا چوند سے خیرہ چشم ہمارے عوام وخواص اخلاق وکردار سے تہی داماں اقوام مغرب کی تھوک چاٹنابھی اپنے لیے قابل فخر سمجھتے ہیں،حالانکہ عالم کفر کی یہ ایک بہت بڑی سازش ہے کہ مسلم معاشرے میں مسلمان اور غیر مسلم کی تمیز کو ختم کر دیا جائے اور مغرب کی تہذیب وکلچر کو مسلم معاشرے میں عام کردیاجائے۔
مغربی رسم و کلچر میں سے ایک رسم ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کی ہے ۔جو کہ ہر سال 14فروری کا دن آتے ہی ویلنٹائن ڈے کے نام سے الیکٹرونک میڈیااوراخبارات پہ خصوصی تشہیر اور پروگرام ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔جس کے سبب ہماری بھولی بھالی نسل نو مقصد حیات سے بے پرواہ ہو کر بے ہودگی کے وہ کھیل کھیلتی ہے کہ جس سے شیطان بھی شرماجائے۔پہلے پہل یہ بدترین وباء ایک خاص طبقے تک محدود تھی لیکن اب آہستہ آہستہ خاص وعام کی تمیز ختم ہو گئی اور ہر طبقے کا فرد اس کی زد میںآگیا اور اب بات اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ہمارے بعض تعلیمی اداروں میں اس بے حیائی کے کام کی باقاعدہ تعلیم بھی دی جانے لگی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے بعض تعلیمی ادارے اور ان میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ وطالبات مغربی تہذیب کی دلدل میں ایسے گھر چکے ہیں کہ ان سے سوچنے سمجھنے کاشعور بھی ختم ہوتا نظر آرہاہے اوریورپ کی تقلید میں ہر وہ کام کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں جس میں بے حیائی وبے شرمی کاعنصرہوتا ہے اور پھر ان کی نقالی کرتے ہوئے نہ کوئی پریشانی ہوتی ہے اور نہ ندامت ۔اب افسوس اس بات کاہوتا ہے کہ ہماری نسل نو اپنی تہذیب سے بیگانہ ہوتی جارہی ہے اور غیروں کی تہذیب کو اپناتے ہوئے اسے اپنا شعائر سمجھنے لگی ہے،حالانکہ یہ اصول اظہر من الشمس ہے کہ کسی بھی قوم کااپنی تہذیب و تمدن کو ترک کر دینااور اس کے برعکس اغیار کی تہذیب وتمدن کو اپنالیناترقی نہیں کہلاتابلکہ تنزلی کی علامت ہوتی ہے۔اس طرف کوئی دھیان نہیں دیتاکہ یہ دن مناناغلط ہے اور معاشرے میں بے حیائی اوربے ہودگی پھیلاناہے۔کون نہیں جانتا کہ ویلنٹائن ڈے پر نکاح کے بندھن سے قطع نظر ایک آزاداوررومانوی قسم کی محبت کااظہارکیا جاتاہے جس میں لڑکے لڑکیوں کا آزادنہ ملاپ،ایک دوسرے کوتحائف اور کارڈزکاتبادلہ ہوتاہے،یعنی غیر اخلاقی حرکات ہوتی ہیں تو پھر بعد میں نتیجہ زنااوربداخلاقی کی صورت میں نکلتاہے جس سے اس بات کاعلی الاعلان اظہار ہوتاہے کہ ہمیں مرداور عورت کے درمیان آزادانہ تعلق پر کوئی اعتراض نہیں ہے،اہل مغرب کی طرح ہمیں اپنی بیٹیوں سے عفت مطلوب نہیں اور اپنے نوجوانوں سے پاک دامنی درکار نہیں ہے۔
اب دیکھیں ہندوؤں نے ویلنٹائن ڈے کا تہوار ہندوستان میں منانے کو اپنی ثقافت پر حملہ قراردیاہے ،توذراسوچیں!ایک غیر مسلم دوسرے غیرمسلم کے تہوار کو اپنی ثقافت کے لیے خطرہ قرار دے رہاہے اورہم ہیں کہ والہانہ اندازمیں غیر مذہب کے تہوار کاخیر مقدم کررہے ہیں۔مذہب کو چلیں چھوڑیں اگر ذاتی حوالے سے دیکھیں توبھی ایک سنجیدہ شہری کے لیے یہ سوائے بے ہودگی کے کچھ نہیں۔کیا کوئی غیرت منداس بات کو برداشت کرے گا کہ کسی غیرمرد کاپیغام الفت ،اس کی بیوی،بیٹی،بہن کے لیے آئے اور کسی غیر سے تحائف کاتبادلہ ہو اورمیل ملاپ ہو؟۔حقیقت بات یہ ہے کہ اس تہوار کے ذریعے ہماری اسلامی روایات کو تباہ اورہماری معاشرتی اقدار کو برباد کرنے کی سازش ہورہی ہے ۔ مغرب اور غیر مذاہب کے تہوار منانے کے یہ کون سے طریقے ہیں اور ان کی سر پرستی کیا معنی رکھتی ہے!سینٹ ویلنٹائن ڈے کی بے معنی اور غیراخلاقی محبت کاپرچارکرنے والے اپنی تہذیب پر بدنما داغ ہیں،پاکیزہ جذبوں سے ناآشنااور گمرہیوں کے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں ماررہے ہیں۔مسلمانوں میں بسنت اوراس جیسے دیگر ہندوانہ تہوار کے بعد عیسائی قوم کے پادری ویلنٹائن ڈے کے مکروفریب پر مبنی داستان کو ہمارے درمیان رائج کرنا چاہتے ہیں۔ قوم ایسے بے ہود ہ قسم کے تہوارمنا کر آخر کن لوگوں کے عزائم کی تکمیل کر رہے ہیں۔ باعث افسوس ہے کہ اب مسلمان بھی اس بے حیا،بے شرم اور دوسروں کی بیٹیوں کی عزت پر ڈاکہ ڈالنے والے عیسائی پادری کی روایات کو زندہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

حصہ
mm
امیر حمزہ بن محمد سرور سانگلہ ہل ضلع ننکانہ کے رہائشی ہیں۔انہوں نے عربی اور اسلامیات میں ماسٹرز کیا ہے۔ سانگلہ ہل کے نواحی گاؤں علی آباد چک نمبر112میں مستقل رہائش پذیر ہیں ۔ان دنوں فیصل آبادمیں ایک رفاہی ادارے کے ساتھ منسلک ہیں، ان کے کالمز روز نامہ’’ امن ‘‘ روزنامہ’’ قوت‘‘روز نامہ’’ سماء‘‘ روزنامہ’’حریف‘‘ میں شایع ہوتے ہیں۔اپنے نام کی مناسبت سے ’’امیرقلم ‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں۔ ماہ نامہ’’ علم وآگہی ‘‘اوراسی طرح دیگردینی رسائل وجرائدمیں مختلف موضوعات پرمضامین سپردقلم کرتے رہتے ہیں۔انہوں نے نیشنل لیول پرکئی ایک تحریری مقابلہ جات میں حصہ لیااورنمایاں پوزیشنیں حاصل کیں ۔شعبہ صحافت سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ای میل:hh220635@gmail.com

جواب چھوڑ دیں