جی میں جوآئے کئے جاؤ کہ تم آزاد ہو

اللہ رب العزت نے انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی اس کے لیے بہتر زندگی گزارنے اور مختلف مسائل سے بخوبی نمٹنے کے طریقے بذریعہ انبیاء اور آسمانی کتابوں کے نازل فرمائے.انسان کو اس کی جسمانی و نفسانی خواہشات اور حسیات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا گیا.اس کی بہترین مثال حضرت آدم علیہ السلام ہیں.جو کہ سب سے پہلے انسان اور پہلے ہی رسول بھی ہیں.اللہ تعا لیٰ نے آدم و حوا کو دنیا میں بھیجنے کے ساتھ ہی اپنے احکامات امرو نواہی کا سلسلہ شروع کر دیا تھا.حالانکہ اس وقت فقط یہ دو انسانی وجود ہی دنیا میں تھے.لیکن ان دو انسانوں کو بھی علم و آگہی سے بہرہ مند فرماکر ان کے لیے دنیاوی زندگی کواللہ کی ہدایت کردہ خطوط پر گزارنے کا بھرپور بندوبست کیا گیا.اس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ کسی بھی انسان کے لیے ارادے اور اختیار کی آزادی کس حد تک مطلوب ہے.
انسانی معاشرے کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ مختلف قوانین اورحدود معرض وجود میں آئے تا کہ انسانی مناصب اور اختیارات کو مثبت دائرہ کار میسر ہو.
بلاشبہ آزادی ایک انمول نعمت ہے لیکن آزادی کے نام پر ہر طرح کی معاشرتی اقدارو روایات سے انحراف اور من مانی کی روش انسان کے لیے سراسر نقصان دہ ہی ہے.
مثلاََ ایک چور کو اس بات کی آزادی نہیں دی جاسکتی کہ وہ چوریاں کرتا پھرے.اسی طرح دوسرے جراٰئم پیشہ افراد یا منفی اثرات و رجحانات پر مبنی سرگرمیوں کو شخصی آزادی اور آزادئ اظہار کے نام پر چھوٹ نہیں دی جاسکتی.
اس ساری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ بحیثیت قوم اب ہم سب کو آزادی کا حقیقی مفہوم سمجھنے کی اشد ضرورت ہے.وہ آزادی جو تشکیلِ پاکستان کے وقت مقصودومطلوب رہی وہ حقیقتاََ اللہ کی بندگی میں زندگی گزارنے کی ایک مخلصانہ خواہش تھی. انسان کو انسان کی غلامی سے نکال کراللہ کا بندہ بن کر جینے کی ایمان افروز تمنّّا تھی.
ستر سال کا طویل عرصہ گذر جانے کے بعد آج آزادی کے نام سے اس مملکت خداداد میں جو طاغوتی سازش شروع کی گئی ہے اس کے دوررس اثرات سے ہم سب ہی لاپرواہی کا رویّہ اختیار کئے ہوئے ہیں.
اب سے کچھ عرصہ پہلے تک مقنّنہ, انتظامیہ اور عدلیہ ریاست کے تین اہم ستون شمار کئے جاتے تھے.لیکن موجودہ دور میں ایک اہم چوتھا ستون میڈیا ہے.یہ بلاشبہ ایک حقیقت ہے کہ میڈیا رائے عامہ کو ہموار کرنے اور عوام کو تفریح اور معلومات فراہم کرنے کا اہم ذریعہ ہے.لیکن اس کی نام نہاد آزادی اوراصول و قوانین سے منحرف پالیسیوں کی وجہ سے پاکستانی معاشرے میں ذہنی و اخلاقی ابتری تیزی سے بڑھ رہی ہے.
پاکستان کے ایک نظریاتی مملکت ہونے کا ادراک پاکستانیوں سے زیادہ ان اقوام کو ہے جو امتِ مسلمہ اور پاکستان سے شدید بغض رکھتی ہیں.اس لیے ان کے حملوں کا اصل ہدف ہمارے دینی و ملّی نظریات ہی ہوتے ہیں.ان ہی اقوام کے زیر اثر ہمارا میڈیا مخصوص ایجنڈے کے تحت بنائی گئی پالیسیوں کو آگے بڑھا نے میں پیش پیش ہے.
میڈیا کی آزادی کو استعمال کرتے ہوئے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مختلف برانڈز اور ملٹی نیشنل فرمز کے اشتہارات ,معاشرتی اقدار کی دھجیاں اڑاتے ڈرامے,مادہ پرستی,لالچ اور عیاشی کو فروغ دیتے ہوئے انعامی پروگرامز اور مارننگ شوز کے ذریعہ ہمارے نوجوانوں بالخصوص خواتین کے اخلاق و کردار کو تباہی کی جانب دھکیلا جارہا ہے.
اپنی ثقافت,لباس اور شریفانہ طرز زندگی سے منحرف مغربی معاشرے موجودہ دور میں اس مادر پدر آزادی کا خمیازہ کس طرح بھگت رہے ہیں یہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے.اس کے باوجود ابلاغی و نشریاتی اداروں کو اس شیطانی ایجنڈے کے فروغ سے روکنے کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں کئے جا رہے.یہ ایک سیلاب کی طرح ہماری روایات کو بہائے لئے جارہا ہے.اس سے یہ حقیقت عیاں ہے کہ ارباب اقتدار بھی اس سارے کھیل میں برابر کے شریک ہیں. عوامی شکایات اور شاذو نادر اٹھنے والے کسی ردعمل کو دیکھتے ہوئے صرف اخباری بیانات دینے کے علاوہ کوئی کارروائی نہیں کی جاتی.
پیمرا ہو یا کوئی بھی ادارہ صرف زبانی جمع خرچ سے ہی عوام کو جھوٹے دلاسے دیئے جا تے ہیں.ان کی کار کردگی کے کسی قسم کے اثرات ٹی وی چینلز پر نظر نہیں آتے.مزید ستم یہ کہ ملکی عدلیہ,قومی سامتی کے اداروں اور افواج پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کر نے میں بھی یہ چینلز ضرورت سے زیادہ ازاد ہیں.اتنی آزادی تو مغربی نیوز چینلز کو بھی حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے ریاستی اداروں کے بارے میں کوئی متنازع خبر نشر کر سکیں.
اس لیئے ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا کو حدود و قوانین کا پابند کرنے کے لیے حکومتی اور عوامی دونوں سطح پر مؤثر حکمت عملی ترتیب دی جائے.کیونکہ بعض اوقات میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ رویّہ کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر بھی ملک و قوم کو شرمندگی اور بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے.
ریٹنگ کی دوڑ میں اخلاقی حدود کی پامالی سے روکنے کے لیے مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ تمام ٹی وی چینلز کی موجودہ پالیسیوں پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے.
میڈیا کے ذریعہ جاری سیکولر تہذیبی یلغار نے جس طرح معاشرے کو مختلف مسائل اور منفی حالات و رجحانات میں مبتلا کردیا ہے اس کا حل صرف احتجاج اور شکایات سے ممکن نہیں .اس کے لئیے دوررس اثرات پر مبنی حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے.میڈیا سے منسلک اور نئے آنے والے افراد کو مختلف ابلاغی اور نشریاتی موضوعات پر ورکشاپس اور کورسز کروائے جائیں.جس سے ان میں حق بات کو آگے بڑھانے اور منفی اور سازشی پروپیگنڈے کے اثرات و رجحانات کو تحقیق و دلائل کے ذریعے رد کرنے کی صلاحیت پیدا ہوسکے. اس کے علاوہ ہمارے علماء اور تعمیری فکر و شعور رکھنے والے افراد آگے بڑھیں اورعوام میں اس بات کا شعور پیدا کریں کہ حد سے زیادہ ازاد طرز زندگی اور من مانی ہم سب کو بحیثیت ایک قوم کے پستیوں میں دھکیل سکتی ہے.

حصہ

جواب چھوڑ دیں