مشال قتل کیس: مذہبی بیانیہ اور سوالات

صوابی سے تعلق رکھنے والے 25 سالہ مشال خان کو 13 اپریل 2017 کو مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں طلبا اور یونیورسٹی کے کچھ ملازمین پر مشتمل ایک مشتعل ہجوم نے توہینِ مذہب اوررسالت کے الزامات لگانے کے بعد تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا تھا۔خیبر پختونخوا کے شہر ہری پور کی جیل میں انسداد دہشت گردی عدالت کے جج نے مشال خان قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مقتول پر گولی چلانے والے عمران علی کو سزائے موت جبکہ پانچ دیگر مجرمان کو 25، 25 سال قید کی سزا سنائی ہے جبکہ 26 ملزمان کو بری کر دیا گیا ہے۔بری ہونے والے افراد کے بارے میں فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ ملزمان نے مشال خان پر تشدد میں حصہ نہیں لیا اور وہ یا تو وہاں کھڑے تھے یا پھر ویڈیوز بنا رہے تھے۔عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ مشال قتل کیس کے مرکزی ملزم عارف سمیت چار ملزمان پر استغاثہ الزامات ثابت کامیاب رہا ہے لہٰذا عدالت نے انھیں اشتہاری قرار دیتے ہوئے گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تاکہ ان پر مقدمہ چلایا جا سکے۔
مردان میں کیا ہوا تو اس کا یہ پس منظر سمجھنا ضروری ہے کہ جب سے مشال کیس شروع ہوا ہے تو مقامی سطح پر تمام مذہبی و لبرل جماعتوں، وکلا اور تاجروں پر مشتمل جرگہ قائم ہوا ۔جس کا نام متحدہ مردان کونسل رکھا گیا۔جس نے بعد ازاں تمام فیصلے کیئے اور ہر جماعت نے اسی کے مطابق عملدرآمد کیا۔اسی متحدہ مردان کونسل جرگہ کا ہی فیصلہ تھا کہ جب تک کوئی عدالتی فیصلہ نہیں آتا تب تک اس معاملے پر کوئی رائے نہیں قائم کی جائے گی۔ مشال کیس سے بری ہونے والوں کا استقبال بھی کسی ایک جماعت نے نہیں بلکہ اسی جرگے کے فیصلے کی روشنی میں کیا گیا تاہم سوشل میڈیا کے سیکولر ،لبرل اور موم بتی مافیا کی طرف سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا،حتی کے مشال کے والد اقبال لالہ نے آج تک کسی مذہبی جماعت پر اس کا کوئی الزام نہ لگایا اور نہ ہی کسی مذہبی جماعت کے کارکن کو اس معاملے میں نامزد کیا، بلکہ سچ یہ ہے کہ تقریبا تمام قاتلوں کا نظریاتی و تنظیمی تعلق اے این پی سے تھا اور جو مرکزی ملزم فرار ہے وہ تحریک انصاف کا کونسلر ہے اور اس کونسلر کے متعلق مشال کے والد نے بھی حالیہ پریس کانفرنس میں بات کی ہے۔عدالتی فیصلے کے نتیجے میں بری ہونے والے افراد کے استقبال کے لیے مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کی قابلِ ذکر تعداد مردان رشکئی انٹرچینج پر جمع ہوئی۔ جس کے بعد مذہبی جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
اس سارے معاملے میں صرف اور صرف عدم تشدد اور قانون ہاتھ میں لینے کو بیانیے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔جبکہ دیگر قانونی،سیاسی اور دیگر کئی حوالوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں مذہبی بیانیے کے طو پر چند گزارشات پیش خدمت ہیں۔
۱۔ اسلام حتی کے کوئی بھی اسلامی سکالر ماورائے عدالت قتل کے حق میں نہیں۔ کوئی بھی اسلامی سکالریہ بات نہیں کہے گا کے کسی بھی بے گناہ مسلمان کے خون سے ہاتھوں کو رنگین کرنا جائز عمل ہے۔ سب ہی ماورائے عدالت قتل کو خلاف شرعی اور حرام سمجھتے ہیں کس بھی شخص کو سزا دینا یا بری کرنا عدلتوں کا کام ہے اوریہی اسلام کا موقف ہے۔ لہذا اس معاملے میں مذہبی جماعتوں میں کوئی ابہام موجود نہیں ہے۔ اسلام تو جنگ کے میدان میں بھی بوڑھوں،بچوں،خواتین حتی کہ درختوں اور جانوروں کے قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ کیسے کسی کو ماورائے عدالت کسی کے قتل کی اجازت دے سکتا ہے۔بغیر تحقیق کسی پر الزام لگانا اور بغیر عدالتی پراسس کسی کو قتل کر دینا ناقابل قبول ہے۔انسانی لاش کی توہین ، تضحیک اور تشدد کر نا غیر انسانی اور غیر شرعی ہے۔
۲۔ پاکستان میں لبرل اور سیکولر لابی کی طرف سے مستقل توہین رسالت ﷺکے قانون میں تبدیلی کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور ہر کچھ عرصے کے بعد توہین رسالت ﷺکے قانون میں تبدیلی کا مسلۂ کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل الیکشن ایکٹ میں توہین رسالت کے حوالے سے فارم میں تبدیلی کر کے پورے ملک میں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکایا گیا۔ اور اب حال ہی میں سینٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی میں ایک خاتون رکن کی طرف سے توہین رسالت ﷺکے قانون میں تبدیلی کے لئے دو ترامیم پیش کی گئی کہ توہین رسالت کے قانون میں سزائے موت کو تبدیل کر کے عمر قید میں تبدیل کر دیا جائے اور توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والے شخص کو اپنے فعل پر ندامت کے بعد معاف کر دینے کی ترمیم شامل تھی۔
۳۔پاکستان میں لبرل، سیکولر لابی اور موم بتی مافیا دوغلی پالیسی اور ابہام کا شکار ہے۔اسلام دشمنی اور اس ملک کو سیکولر بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔پاکستانی قوم سوال اٹھاتی ہے کہ ممتاز قادری کو اتنی عجلت میں پھانسی دے دی جاتی ہے جبکہ ملک میں پھانسی کے ہزاروں مجرم جن کو پھانسی کی سزا ہو چکی ہے ابھی تک جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ لبرل، سیکولر لابی اور موم بتی مافیا ممتاز قادری کی پھانسی پر خوش ہوتی ہے اور کوئی آواز نہیں اٹھاتی۔جبکہ کے زینب کے ملزموں کو اگر پھانسی کی سزا کا مطالبہ کیا جائے تو یہ موم بتی مافیا ہمیں پھانسی کی سزا کے خلاف کھڑی نظر آتی ہے۔ گذشتہ عرصے کے دوران توہین رسالت ،انبیاء کرام اور شائر اسلام کی توہین اور تضحیک کرنے والے ملزمان کو سزا دینے کے سلسلے میں سنجیدگی سے کوشش نہیں ہوئی یا ہوئی ، کوئی ملک سے فرار ہو گیا کسی ملزم کونہ تو سزا دی کئی اور نہ ہی کیس چلایا گیا۔اب تک سلمان حیدر ، وقاص گورائیہ، آسیہ حتی کہ مردان میں ایک شخص نے نبوت کا دعوی کیا اسی طرح ناصر سلطانی نامی شخص نے بھی نبوت کا دعوی کیا۔لیکن اب تک عدالتوں اور ریاست نے کوئی سزا نہیں دی۔
۴۔ اس فیصلے میں بہت سارے قانونی سقم موجود ہیں۔10ملزمان کے وکیل افتخار کے مطابق عدالت سے انصاف کی توقع تھی لیکن ثبوتوں کی عدم موجود گی کے باوجود ملزمان کو سزا سنائی گئی اور وہ سزاؤں کے خلاف جلد پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ’عدالتیں فیصلے تین ستونوں پر کرتی ہیں جن میں ایک ایف آئی آر، میڈیکل شواہد اور موقع کا نقشہ ہیں لیکن اس کیس میں یہ سارے ستون نہایت کمزور تھے۔ شاید عدالت نے وکیلوں کے دلائل اور ثبوتوں کو احسن طریقے سے نہیں سنا اور پڑھا اور ملزمان کو سزائیں سنائی گئیں۔‘ اس فیصلے میں کئی قانونی سقم موجود ہیں اور اس فیصلے کے خلاف ہم ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے۔اس صورت حال میں مردان میں سیاسی جماعتوں کے لیڈروں اور مذہبی رہنماوں سمیت ہزاروں لوگوں کے مظاہرے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مردان کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو بھی اس فیصلے پر تحفظات ہیں۔
۵۔مذہبی جماعتیں اس ملک میں قانون کو بالا تر سمجھتی ہیں۔اسی قانوں نے اگر ان کو بے گناہ اور بے قصور قرار دیا ہے تو پھرمجھے اور آپ کو کیا اعتراز ہو سکتا ہے۔ اصولا اور شرعا بھی یہ بات ٹھیک ہے کہ عدالت نے جنہیں باعزت بری کر دیا ان کے استقبال میں حرج ہی کیا ہے یقیناًاس میں کوئی حرج نہیں بلکہ بے قصوروں کی رہائی بہت خوش آئند بات ہے۔
۶۔ عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ملک میں حکومت،عدالت اور پولیس توہین رسالت اور توہین مذہب میں سزا دلوانے کے بارے میں مصلحتوں کا شکار ہیں اور معاشرے کو انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نجات دلوانے کی اہل نہیں ہیں۔ایسا فوری طور پر تو نظر نہیں آ رہا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی اپنے ایک فیصلے میں واضح کر چکے ہیں کہ جو سزا توہینِ مذہب کے لیے تجویز کی گئی ہے ویسی ہی سزا کسی پر جھوٹا الزام لگانے والے کو بھی ملنی چاہیے تب ہی قانون کے غلط استعمال کا دروازہ بند ہو سکتا ہے۔عملی تصویر یوں ہے کہ توہینِ مذہب کا موجودہ قانون صرف دکھاوے کے لئے بنایا گیا ہے۔ ایک طرف تو اس قانون کا ذاتی و انتقامی استعمال روکنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ معاشرے کو انارکی سے بچایا جا سکے دوسری طرف اس قانون کے تحت توہینِ مذہب اور رسالتﷺکے مجرموں کو سزا دی جائے۔تاکہ عوام کا عدالتوں اور پولیس پر اعتماد بڑھے۔اور اس طرح کے واقعات کی حوصلہ شکنی ہو۔اگر ریاست کی طرف سے توہین رسالت ﷺ کے قوانین میں تبدیلی اور ملزمان کے ساتھ یہی رویہ رہا تو اس مسلۂ پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔
۷۔مشال خان کے قتل کے بعد سوشل میڈیااورپاکستانی سماج نے بھی دو مختلف ردِعمل کا اظہار کیا. ایک فریق نے اس قتل کی ذمہ داری بڑھتی ہوئی مذہبی جنونیت پر عائد کر کے مختلف حوالوں کے ذریعے مشال خان کو سچا اور پکا مسلمان ثابت کرنے کی کوشش کی. دوسرے فریق (اکثریتی) نے بھی مختلف حوالے شیئر کر کے مقتول کو ملحد ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش کی ہے۔ لیکن اس کو ثابت کر نا بھی حکومت کا کام تھا ۔اس پورے معاملے میں مشال کی طرف سے توہین رسالت ﷺ اور توہین مذہب کے معاملے کی تفتیش ہی نہیں کی گئی اور نہ ہی ایف آی آر کاٹی گئی ۔ توہین رسالت اور توہین مذہب کے معاملے پر ازسر نو تحقیق اور تفتیش ہونی چاہیے۔کسی نہتے آدمی کا قتل اچھا یا برا نہیں ہوتا، وہ صرف اور صرف ایک قابلِ نفرت فعل ہوتا ہے. مشال خان پر لگائے گئے الزامات اگر درست ثابت ہوجائیں تب بھی سزا دینے کا یہ طریقہ نہیں تھا۔
۸۔کیا اس ملک کا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ یہاں انبیاء کو فحش گالیاں دی جائیں ؟ کیا پاکستان اس لیئے بنایا گیا تھا کہ یہاں آزادی اظہار کے نام پر دینی اقدار کی دھجیاں بکھیر دی جائیں اور ریاست تماشا دیکھتی رہے ؟ اگر توہین عدالت پر لوگ پالیمنٹ سے نکالے جا سکتے ہیں تو ہین رسالت پر پولیس اور عدالت کو سانپ کیوں سونگھ جاتا ہے ؟
۹۔پوری دنیا نے فیس بک پروہ پوسٹس دیکھی ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی ملعون نے مشال کی آئی ڈی سے فحش گالیاں دی ہیں۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق مشال کی آئی ڈی کسی اور نے استعمال کر کے توہین رسالت کا ارتکاب کیا، البتہ وہاں درجنوں لوگ گواہی دیتے ہیں کہ مشال سرے عام بھی گساخی کرتا تھا مشال کے قاتلوں کو تو آپ نے سزا دے دی ، لیکن اس بات کا سراغ لگانا کس کی ذمہ داری ہے کہ یہ توہین آمیز پوسٹس کس نے کی تھیں ؟ بدترین اسلام کے دشمن گواہی دے رہے ہیں کہ وہ ملحد اور اسلام کا نقاد تھا۔ حال ہی میں تسلیمہ نسرین کے ٹویٹ میں بھی مشال کو ملحد اور اسلام کا نقاد کہا گیا ہے۔
۱۰۔اس معاملے میں یونیورسٹی انتظامیہ کوشامل تفتیش نہیں کیا گیا۔جس دن مشال کو قتل ہوا اسی دن یونیورسٹی انتظامیہ نے گیارہ بجے مشال کو یونیورسٹی سے نکالنے کا نو ٹیفکیشن کیا اور مشال کی سکیورٹی کے لئے کوئی اقدامات نہ کئے۔مشال کے والد کے مطابق تین طرح کے فریقین سے پوچھ گچھ ہو نی چاہیے جن میں پویس،موقع پر لوگ اور یونیورسٹی انتظامیہ ۔اس پورے معاملے میں مشال کی طرف سے توہین رسالت ﷺ اور توہین مذہب کے معاملے کی تفتیش ہی نہیں کی گئی اور نہ ہی ایف آی آر کاٹی گئی۔ اب تک کی تمام کارروائی یک طرفہ کی گئی اور صرف اور صرف مشال کے قتل میں شامل ملزمان کو سزا دی گئی جبکہ پولیس کی کارکردگی اور وہاں پر موجودگی کے باوجود کچھ نہ کرنا بہت سے سوال کھڑے کر رہا ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے سفارش کی کہ ان سنگین جرائم کے لیے فوری اور سریع الانصاف عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ متاثرین کی جلداز جلد داد رسی کا اہتمام ہو، پاکستان میں سزا کی شدت اور سنگینی کی بجائے سزا کی یقینیت کا اہتمام ہونا چاہیے، یہی وہ بہتر راستہ ہے، جسکی وجہ سے جرائم میں کمی کا امکان ہے۔سزاؤں کی تشہیر کے لیے جدید ذرائع ابلاغ سے مدد لی جائے تاکہ اسلامی فلسفہ سزا برائے زجر اور انسداد جرائم (deterrence) کا مقصد حاصل ہو جائے۔
یاد رکھئیے، قانون کا نفاذ صرف چند افراد کی خواہشات کے مطابق ہوگا تو اس سے فساد پھیلے گا۔ قانون سب کے لئیے ہے اور ہم حکومت کی جانب سے بلا استثناء قانون کے نفاذ کے منتظر ہیں۔اس واقع کی آڑ میں توہین رسالتﷺ کے قانون میں تبدیلی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔مذہبی جماعتیں قانون اور عدالتوں کا احترام کرتی ہیں اور اسی لیئے ماورائے عدالت مشال کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کل بھی کرتی تھی اور آج بھی کرتی ہیں۔ تاہم ریاست اپنی ذمہ داری کب پوری کرے گی ؟ان سوالات اور خدشات کو جواب دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ریاست جب تک اس تفریق کو ختم، توہین رسالتﷺ کے مرتکب ملزموں کے خلاف کاروائی اور بلا استثناء قانون کا نفاذ نہیں کرے گی اور دونوں اطراف کے متاثرین کی جلداز جلد داد رسی کا اہتمام ہو،سزا کی شدت اور سنگینی کی بجائے سزا ملنے کا یقین ہونا چاہیے تب تک اس طرح کے واقعات کا سدباب مشکل نظرآتاہے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں