اپنے حصے کی شمع تو جلائیے

اس کا تعلق ایک پڑھے لکھے دیندار گھرانے سے تھا، صوم و صلوٰۃ کا سارا گھرانا ہی پابند تھا، وہ ایک نجی یونیورسٹی میں گریجویشن کا طالب علم تھا، شام کو کسی کام کے سلسلے میں گھر سے باہر نکلا، روڈ پر نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کا ہجوم دیکھ کر حیرت ہوئی جو خریداری کرنے میں مصروف تھے، بعض گفٹ سینٹر اور بیکری پر تو تل دھرنے کی بھی جگہ معلوم نہیں ہوتی تھی، یہ صورتحال دیکھ کر لگتا تھا کے کل عید ہے، لیکن ایک لمحہ کو یہ خیال بھی اسے آیا کے عید کے موقع پر تو ہر عمر کے لوگ خریداری کرتے ہیں مگر صرف یہ نوجوان ہی کیوں شہد کی مکھیوں کی مانند دکانوں پر چپکے ہوئے ہیں، راستے میں اس کی نظر ایک دکان پر پڑی جس پر فوم سے بنے لال دل اور بھالو کے شوپیس پر لکھے’’ہیپی ویلنٹائن ڈے‘‘ کا فقرہ پڑھ کر اس کواندازہ ہوگیا کے کل 14 فروری ہے، اگلے ہی لمحے پیش آنے والی صورتحال اسے مزید حیران کردینے والی تھی کیا دیکھتا ہے کے بازار میں موجود ہار اور پھول کی دکان والوں نے آگے کی جگہ پر بڑے بڑے اسٹال لگائے ہوئے تھے، جن پر بکھرے گلاب اور موتیا کے پھول کی مہکتی خوشبو ہر فرد کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے کافی تھی، یہاں پر بھی لوگوں کا ہجوم من پسند پھول خریدنے میں مصروف تھا۔
وہ گھر میں ابھی داخل ہی ہوا تھا کے ابا کے لیکچر کی آواز اس کے کانوں میں پڑی جو 14 فروری کو منائے جانے والے دن کی مخالفت کررہے تھے ، کیسی بے حیائی کا دور آگیا ہے، مطلب پوری نوجوان نسل کس طرح بے راہ روی کا شکار ہے، ذرا ماحول تو دیکھو باہر جاکر کس طرح لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کے لئے خریداری کررہے ہیں، استغفراللہ! لگتا ہے شرم و حیا تو چھو کر بھی نہیں گزری، کیسے ماں باپ ہیں ان کے جنہوں نے ان کی ایسی تربیت کی ہے ، ابا زور زور سے 14 فروری کی مخالفت میں اپنے دلائل دے رہے تھے،بیگم یہ سب اسلامی احکامات کی دوری کی وجہ سے ہورہا ، وہ دور کھڑا ابا کی ساری باتیں سن رہا تھا، آخر میں ابا نے حتمی فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ تم میں سے کل کوئی بھی کالج، یونیورسٹی نہیں جائے گا یہاں تک کے کل کوئی بھی گھر سے باہر نہیں جائے گا، اپنی آنکھوں کی حفاظت کرو اور ان بے حیائی کے مناظر دیکھنے سے بچو جو کل سارا دن مملکت خداد پاکستان کی سڑکوں پر دیکھے جائیں گے !! ابا بات مکمل کرکے کمرے میں چلے گئے۔
وہ رات بھر سو نہ سکا کمرے میں ٹہلتا رہا اور اس آیت کا مفہوم بار بار اس کے خیال میں آرہا تھا جس کو اس نے اکثر سن رکھا تھا” کے ایمان والے تو سب سے بڑھ کر اللہ کو ہی محبوب رکھتے ہیں ” پھر وہ سوچنے لگا کے میرے پیارے رب نے انسانوں کی فطری خواہشات کی تکمیل حلال طریقے سے کرنے کے دروازے کھول رکھے ہیں، پھر میں کیوں برائی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں پڑھ کر اپنی دنیا اور آخرت دونوں خراب کرلوں۔
صبح ناشتے کی میز پر جب سب گھر والے ناشتے سے فارغ ہوکر چلے گئے، تو وہ اپنے والدین کا ہاتھ تھام کر انہیں کمرے میں لے گیا، والدین بھی حیرانگی کے عالم میں اس کا ہاتھ پکڑے کمرے میں چلے گئے، وہ صوفے پر ان دونوں کے درمیان ان کا ہاتھ تھام کر بیٹھ گیا، وہ گویا ہوا کے ابا کل آپ 14 فروری کی تباہ کاریوں کے حوالے سے بات کررہے تھے، میں آپ کی ساری گفتگو سن رہا تھا، پھر اس نے اپنی پسند کی جگہ والدین کو نکاح کا پیغام لے کر جانے کی درخواست کی، نکاح کا لفظ سنتے ہی اماں ابا نے یکسر اپنا ہاتھ اس کے ہاتھوں سے نکال لیا، سخت ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے ابا بولے صاحبزادے تم ابھی چھوٹے ہو، ارے کتنا کمالو گے؟صرف نکاح ہی نہیں ہوتا، اس کے بعد دیگر ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں، بہتر یہی ہے کے اپنی گریجویشن مکمل ہونے اور اچھی نوکری کے لگ جانے سے پہلے اس خیال کو اپنی زبان پر لانے سے پہلے ہی اس کا گلا گھونٹ دو.!!

حصہ

جواب چھوڑ دیں