شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات

میرے  پیارے ساتھیو! کیسے ہیں آپ ۔یہ میری پہلی تحریر ہے تو سوچا کہ ایسا کیا لکھوں کہ پڑھنے والے کے دل میں اتر جائے ! تو سب سے پہلی بات یہ ہی ذہن میں آئی کہ ہمارے ہر مسئلے کاحل قرآن سے جڑ جانے میں ہے ۔ہے نا پیاری بات! اللہ میری پیاری معلمہ افشاں نوید کو ہمیشہ خوش رکھے کہ انہوں نے  یہ پر اثر جملہ کہہ کر مجھے اور ساتھیوں کو اس راہ ہدایت سے جوڑ دیا  کہ قرآن پاک میں اللہ نے ہمیں مشورے نہیں دیے بلکہ یہ احکامات ہیں جنہیں ادا کیے بغیر کامیابی ممکن نہیں !قرآن وہ ہدایت  جس کی روشنی اگر کسی کو مل جائے تو نہ صرف وہ روشن ہوگا بلکہ اس کے اطراف کے اندھیرے بھی اس سے چھٹ جائیں گے !

 ” حالات خراب ہیں ! “

 ” برا زمانہ آگیا ہے ! “

 ” بے حیائی تو عام ہوگئی ہے ! “

” ہمارے تو حکمران ہی خراب ہیں !”

  وغیرہ وغیرہ ایسے جملے ہم روز ہی بولتے اور سنتے ہیں ۔ ٹی وی کھولیں تو بے شمار خبریں جو آپ کا دل غم سے بھر دیں اور آپ یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ ان  مسئلوں کا کوئی حل نہیں ! اس وقت آپ اپنے آپ کو کتنا بے بس محسوس کرتے ہیں ۔اور پھر اس کیفیت سے نکلنے کے لیے چینل تبدیل کردیتے ہیں تو تفریح کے نام پر ایسے مناظر دیکھنے کو ملیں کہ آپ یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ کوئی غیر ملکی چینل ہے مگر پھر معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہمارے ہی ملک کا پروگرام یا ڈرامہ ہے !

آہ ! اب آجائیں موبائیل پر تو آج کے زمانے میں اشد ضرورت میں شامل ہے لیکن اگر ہم دیکھیں تو یہ بھی بہت سے مسائل کی راہ کھولنے کا باعث بنا ہے ۔اس سہولت نے بہت سی برائیوں کو خوشنما بنا کر انسان کو مصروف اور مشغول کردیا ہے ایک لایعنی کام میں ! بات ویلنٹائن سے شروع ہوئی تھی تو اس جیسے غیر اسلامی ، بے ہودہ تہوار کیونکر ہماری تہذیب میں شامل کیے جارہے ہیں ؟ایسا جب ہوتا ہے جب کوئی قوم اپنی پہچان سے لاعلم رہتی ہے۔ ہمارا مذہب جو ہمیں زندگی کے ہر معاملے میں رہنما ئی دیتا ہے بلکہ بعد موت کی زندگی کا پورا نقشہ بتا تا ہے ۔ اس نے ہمیں واضح طور پر اللہ کی محبت اور اسکی محبت کے لیے کیے گئے کاموں کی تلقین کی ہے اس کے بعد ایسے رشتے عطا کیے جن سے محبت ہم پر واجب کی ۔والدین ، بہن بھائی ، زوجین ، اولاد ،کے علاوہ دیگر رشتہ دار ہماری محبت اور توجہ کے طلب گار ہیں ۔ان کے بجائے غیر اخلاقی رشتوں میں پناہ ڈھونڈنا دراصل نئی نسل کو تباہی کی طرف دھکیلنا ہے ۔ میڈیا اور کارپوریٹ کلچر اس غیر اخلاقی تہوار کو ہمارے اندر سمونے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں لیکن ہم اپنے باشعور ہونے کا ثبوت دیں  گے ان شاء اللہ اور اس کے قلع قمع کرنے لیے بے چین رہیں گے۔

میری اس تحریر کا مقصد صرف ویلنٹائن کی ہجو نہیں  بلکہ ہر اس عمل کی جو اللہ کے راستے سے الگ ہٹادے کنارہ کرنے کی تلقین کرنا ہے ۔ اگر کوئی ایک فردبھی میری اس تحریر سے کچھ سبق لے تو میرے لیے بڑا اجر کا باعث ہو گا ۔ اللہ ہم سب کو اپنی راہ پر چلانے والا بنائے ۔ آمین

حصہ

2 تبصرے

  1. آمین
    ایک ایسی تحریر جو مسئلہ ہی نہیں بتاتی قرآن سے جڑنے جیسا حل بھی بتاتی ہے

Leave a Reply to فرخندہ عزیز