ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

آج پوری دنیا کے مسلمان اس بات کو بخوبی سمجھ چکے ہیں کہ موجودہ حالات امت مسلمہ کے لیے انتہائی شدید ابتلا اور آزمائش کی شکل اختیار کر گئے ہیں.امت مسلمہ کو ایک طویل المدتی سازش کے ذریعے اقوام اور ممالک کی سرحدوں میں ذہنی ,معاشرتی اور تمدنی سطح پر تقسیم کردیا گیا ہے.المیہ یہ ہے کہ مسلمان تو مختلف فرقوں ,جماعتوں اور لسانیت پر مبنی گروہوں میں تقسیم در تقسیم ہوتے چلے جارہے ہیں .لیکن عالم کفر کی تمام اقوام اپنے تمام اختلافات اور ناراضگیاں بھلا کر عالم اسلام کے خلاف سازش اور جنگی اقدامات کر نے کے لیئے متحد ہو گئے ہیں.
دنیا کی ابتداء سے ہی معرکہ خیروشر جاری ہے.حالات و واقعات اور کردار بدلتے رہتے ہیں.ہر شخص اس معرکے میں اپنی استطاعت اور رجحانات کے حساب سے حصہ ڈالتا ہے.لیکن بحیثیت مسلمان فرد کے، ہم سب کو اپنی اپنی انفرادی و اجتماعی کاوشوں پر نظر رکھنی ہے کہ ہم اپنے کردارو اعمال سے حق کا ساتھ دے رہے ہیں یا باطل کو تقویت پہنچارہے ہیں ۔
امت مسلمہ کے حالات حاضرہ پر نظر کی جائے تو پتہ چلتا ہیکہ تقریباََ تمام مسلم ممالک کو بارود کا ڈھیر بنانے کی کوششیں خاصی حد تک کامیاب ہوچکی ہیں.آگ کے جس گڑھے سے ہادئ برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کو نکالا تھایہ امت دوبارہ اسی گڑھے کے کنارے پہنچ چکی ہے.دورِ جاہلیت کی اکثروبیشتر برائیاں مسلمانوں میں رواج پاچکی ہیں.مزید ستم یہ ہے کہ ان برائیوں اور خرافات کی سنگینی اور ہولناک نتائج کا شعورواحساس بھی باقی نہیں رہا.ان حالات میں امت کے ہوش مند افراد انتہائی کرب و مخمصہ کی کیفیت میں ہیں.اخلاص نیت کے ساتھ اجتماعی کوششیں اس وقت کی اولین ضرورت ہیں جس کے لیے ہم سب کواپنے مناصب کو مدّ نظر رکھتے ہوئے ان کاوشوں میں حصہ ڈالنا ہے.
گزشتہ ادوار میں جس طرح مسلمان خواتین اپنی اہمیت و حیثیت کا ادراک کرتے ہوئے معاشرتی اصلاح میں نمایاں کردار ادا کرتی رہی ہیں موجودہ حالات بھی اس بات کے متقاضی ہیں کہ امت کی مائیں , بہنیں اس اہم نکتے کو اپنے مقاصد زندگی میں شامل کریں کہ معاشرے کے لیئے صالح اور باعمل و باکردار افراد کی تیاری ہم خواتین کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ہے.
اس وقت غیر مسلم طاغوتی طاقتوں کا بھی خاص ہدف مسلمان ممالک کے نوجوان اور خواتین ہی ہیں.نشریاتی اور ابلاغی اداروں کی حکمت عملی روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ وہ ہماری اقدارو روایات اور اسلامی تشخص کے خلاف کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں.عورت کی آزادی کے زہریلے پروپیگنڈے کے ذریعے خواتین کو ان کے حقیقی کار مناصب اور مقاصد سے ذہنی واخلاقی طور پر دور کیا جارہا ہے.جس کے واضح اور دور رس اثرات ہماری آئندہ نسلوں کی نظریاتی اور ملی تباہی کے علاوہ اور کچھ نہیں.اس تباہ کن سیلاب کے آگے ہمیں ہی بند باندھنے ہونگے.اللہ کے وہ معصوم بندے جو اولاد اور چھوٹے بہن بھائیوں کی صورت میں ہمارے گھروں اور خاندانوں کا حصہ ہیں انھیں طاغوتی لشکروں کی بھڑکائی گئی اس آگ کا ایندھن نہ بننے دیں.امت کی حیثیت سے اصلاح عمل کی جتنی شدید ضرورت ہمیں آج ہے اس سے پہلے شاید نہ رہی ہوگی.تیزی سے بڑھتی سماجی تنزلی پر نظر ڈالی جائے آگے دھند اور اندھیرے کے سوا کچھ سجھائی نہیں دیتا. افغانستان,عراق,فلسطین,شام,یمن,برما اور مقبوضہ کشمیر کے دل دہلادینے والے حالات ہمارے سامنے ہیں.ان حالات میں فکری بصیرت کے ساتھ مضبوط ارادوں پر مبنی حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے.ورنہ کچھ بعید نہیں کہ خدانخواستہ آنے والے دور میں ہماری نسلیں دین سے دستبرداری کی صورت میں ہماری نااہلی اور غیر ذمہ داری کا قرض چکائیں.
اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم خواتین اسلام کی حقیقی نمائندہ بن کراپنی دینی شناخت پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کریں.باطل نظریات پر مبنی دنیاوی معاملات پر اسلام کی روشن تعلیمات اور واضح احکامات کو فوقیت دینی ہوگی.اس کے ساتھ ساتھ تعلیم و تحقیق کے میدان میں بھی دوسری اقوام سے مرعوب ہونے کے بجائے اپنی ترقی اور تربیت کی راہیں خود ہموار کرنی ہونگی.ہمارا اور ہماری آئندہ نسلوں کا تحفظ اس پر منحصر ہے.ورنہ آج جس طرح مسلم ممالک اور عوام کی قسمتوں کے فیصلے اقوام متحدہ ,امریکہ اور روس کے اجلاسوں میں کیے جاتے ہیں آئندہ بھی ہمارے سیاہ و سفید کے مالک وہی باطل پرست بنے رہینگے.ہمارے کٹھ پتلی اور بکاؤ حکمران امت کے وسائل اور قوتوں کو اپنے دنیاوی آقاؤں کی منشاء پر اپنی کرپشن اور عوام کی تباہی کے لیئے استعمال کرتے رہیں گے.آپ یقین کریں کہ یہ ایک بڑا خسارہ اور ہماری نظریاتی موت ہوگی.
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات.
اللہ رب العزت ہمیں حق پر ثابت قدم رہنے والا بنائے اور امت کے درد کا مداوا کر نے والا بنائے. آمین.

حصہ

جواب چھوڑ دیں