برکت کیسے حاصل ہو؟

ہم میں سے بہت سے لوگ یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ آج کے دور میں برکت اٹھ گئی ہے ۔ ہمارے کھانے پینے کی چیزوں میں ، وسائل میں ، مال و دولت میں، تن خواہ میں ، تجارت میں ، غرض کسی چیز میں اب برکت نہیں رہ گئی ہے ۔ پہلے کم مقدار کی چیز میں زیادہ افراد کا گزارہ ہوجاتا تھا ، اب زیادہ مقدار کی چیز میں کم افراد کا گزارہ نہیں ہوتا۔ ہم یہ شکوہ تو کرتے ہیں، لیکن غور نہیں کرتے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس کا حقیقی سبب کیا ہے؟ سبب معلوم نہ ہو تو اس کا ازالہ نہیں ہوسکتا ۔ مرض کی درست تشخیص نہ ہو تو اس کا علاج ممکن نہیں۔
ایک حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے وضاحت فرمائی ہے کہ برکت کیسے حاصل ہوتی ہے؟ اور اس سے محرومی کیوں کر ہوتی ہے؟ آپ کا ارشاد ہے :
” اِنَّ اللَّہَ یَبتَلی عَبدَہُ بِمَا اَعطَاہْ ، فَمَن رَضیَ بِمَا قَسَمَ اللَّہْ لَہْ بَارَکَ اللّہْ لَہْ فیہِ ، وَوَسَّعَہْ ، وَمَن لَم یَرضَ لَم یْبَارک لہْ ” (احمد:20279)
( اللہ تعالی اپنے بندے کو جو کچھ عطا کرتا ہے ، اس کے ذریعے اسے آزماتا ہے۔جو شخص اتنے پر راضی ہوجائے جتنا اللہ نے اس کی قسمت میں لکھا ہے ، اللہ اس کے لیے اُس میں برکت دے گا اور اس میں خوب وسعت دے گا ۔اور جو شخص اس پر راضی نہ ہو ، اللہ اس میں برکت نہیں دے گا۔ )
اس حدیث میں تین باتیں بتائی گئی ہیں :
(1) پہلی بات یہ کہ دنیا میں ہر شخص امتحان کی حالت میں ہے ۔ کسی کو اللہ تعالی نے خوب مال و دولت اور بے انتہا آسائش سے نوازا ہے ، کسی کو اوسط آمدنی اور اوسط سہولیات عطا کی ہیں ، کسی کو معمولی رزق دیا ہے اور کسی کو محروم رکھا ہے ۔ ہر ایک یہاں حالتِ امتحان میں ہے۔اللہ تعالی در اصل یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ جس شخص کو اس نے عطا کیا ہے وہ اس کا شکر عطا کرتا ہے یا نہیں اور اسے جتنا عطا کیا ہے اس پر قناعت کرتا ہے یا نہیں اور جس شخص کو اس نے عطا نہیں کیا ہے وہ صبر کرتا ہے یا نہیں ۔
(2) دوسری بات یہ کہ جو شخص اللہ تعالی کی تقسیم پر راضی بہ رضا رہتا ہے اسی کو برکت حاصل ہوتی ہے ۔ اسے جو کچھ حاصل رہتا ہے ، اگر وہ مقدار میں کم ہو تو بھی اللہ تعالی اس میں وسعت دیتا ہے ، اسے اور اس کے متعلقین کو اتنے ہی میں آسودگی اور طمانینت حاصل رہتی ہے اور وہ بہت سوں کے لیے کفایت کرتی ہے ۔
(3) تیسری بات یہ کہ جو شخص اللہ تعالی کی تقسیم پر راضی بہ رضا نہ ہو ، اس کی زبان پر کمی کا شکوہ رہتا ہو اور وہ ہر وقت ننّانوے کے پھیر میں لگا رہتا ہو ، اللہ اسے برکت سے محروم کردیتا ہے۔
برکت کیا ہے ؟
برکت ایک احساس کا نام ہے۔ پانچ روٹی پانچ افراد کے لیے کفایت کرجائے ، صرف ایک روٹی کھا کر ہر شخص آسودگی محسوس کرے ، یہ برکت ہے ۔ پانچ روٹی صرف ایک آدمی کھاکر آسودگی محسوس نہ کرے ، یہ بے برکتی ہے۔ ایک آدمی پانچ ہزار روپے میں ہر ماہ سات افراد پر مشتمل اپنے کنبے کی کفالت کر لے ، سب کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوجائیں اور اسے کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے ، یہ برکت ہے ۔ ایک آدمی کی آمدنی پانچ لاکھ روپے ماہانہ ہونے کے باوجود اسے تسلّی اور اطمینان نہ ہو ، اس کے متعلقین آسائشِ زندگی میں کمی کا شکوہ کرتے ہوں ، یہ بے برکتی ہے ۔
قناعت کیا ہے؟
قناعت یہ ہے کہ آدمی کو جو کچھ حاصل ہو ، اس پر مطمئن اور اللہ تعالی کا شکر گزار ہو ، کہ دنیا میں ہزاروں لاکھوں انسانوں کو وہ بھی حاصل نہیں۔ اگر آدمی ان لوگوں کی طرف دیکھے گا جن کو اس سے زیادہ حاصل ہے اور ان کے برابر ہونے یا ان سے آگے نکلنے کے لئے کوشاں رہے گا تو ہر وقت بے اطمینانی اور بے سکونی کی اذیت میں مبتلا رہے گا ۔
دنیا کمانا معیوب نہیں ہے ، لیکن ضروری ہے کہ آدمی دنیا اپنی جیب میں رکھے ، اپنے دل میں نہ بسا لے ۔

حصہ
mm
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی صاحبِ طرز قلم کار ،مصنف اور دانش ور ہیں۔ وہ تصنیفی اکیڈمی، جماعت اسلامی ہند کے سیکریٹری اور سہ ماہی مجلہ تحقیقات اسلامی کے نائب مدیربھی ہیں۔

2 تبصرے

  1. ماشاءاللہ بہت خوب تحریر ہے۔۔۔ اللّہ تعالیٰ عمل میں آسانی پیدا فرمائے آمین

  2. خوب اچھی رہنمائی۔۔۔ الکامکس پڑھنے والوں کو خاس طور پر برکت کے اسلامی اور الہامی تصور پر غور کرنے ضرورت ہے

Leave a Reply to فیصل عبدالغنی