خاموشی…..ذریعۂ نجات

کون ہے جویہ خواہش نہ رکھتاہوکہ اُسے دُکھ،پریشانی،غم،مصیبت،رنج وملال سے نجات ملے اوروہ پُرسکون،مطمئن اورخوش وخرم رہے،اسی چاہت میں اس کی ساری محنتیں اورکوششیں مگن ہیں کہ اذیت سے بچ سکے اوراطمینان اورخوشیوں سے ہمکناری ہو،لیکن دن رات کی انتھک محنت کے باوجودسب دکھی ہیں، سب رنج وملال سے بھرے ہوئے ہیں۔اس کی بنیادیہ ہے کہ ہم نے اسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کونمونہ ہی نہیں بنایااگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کواہمیت وتوجہ دی ہوتی اورلائق عمل سمجھاہوتاتوہم واقعی غمِ جہاں سے نجات پاتے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کافرمانِ عالی ہے:’’جوخاموش رہااس نے نجات پائی‘‘(ترمذی)انسان کاسب سے بڑانافرمان عضواس کی زبان ہے، اسی کے ذریعہ شروفسادپھیلتاہے اورجہنم میں گرائے جانے کابڑاسبب انسان کی گفتگوبھی ہے ۔کثیراحادیث میں زبان کوقابومیں رکھنے اورکلام میں احتیاط برتنے کے مضامین موجودہیں۔
موجودہ معاشرے میں ہرآنے جانے والے پر،ملنے جلنے والے پر،دن رات تبصرہ کرنااپناحق سمجھاجاتاہے اورلوگ اپنااکثروقت لایعنی،بے ہودہ گفتگو،چغل خوری،غیبت،دوسروں کے عیوب تلاش کرنے،محض ہنسی مذاق کی خاطرمبالغہ آمیزگفتگوکرنے،اپنی بڑائی دوسروں کی گستاخی وغیرہ میں ضائع کردیتے ہیں۔حدیث کے الفاظ ہم سے یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ ہم زبان سے کچھ بات نہ کریں،بالکل گونگے بن کررہ جائیں،بلکہ مقصودیہ ہے کہ کیاکچھ بولناہے اورکہاں کہاں خاموش رہناہے؟جہاں ضرورت ہوتوگفتگوکی جائے اوراس میں بھی خیرکے پہلوکوملحوظ رکھاجائے شرسے بچاجائے۔کلام ہمیشہ بھلائی کاہو،بلاضرورت کلام کوطویل کرنے سے احترازکیا جائے۔ اوراپنی زبان کوجھوٹ بولنے سے،غیبت کرنے سے،چغل خوری سے،کسی کی دل آزاری سے،گستاخانہ گفتگوسے،دوسروں کی برائیاں تلاش کرنے سے،شکوے شکایات سے،کثرت سوال اورکٹ حجتی سے،شورشرابے اوربے مقصدباتوں سے بچایاجائے،یہی مقصودہے۔جب ان چیزوں سے خاموشی اختیارکی جائے گی توسکون وچین نصیب ہوگااورلڑائی جھگڑے،فتنہ وفسادسے نجات ملے گی۔زبان کے اسی فتنے سے بچنے کی زبردست تحریک دینے کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’جوشخص مجھے ان دوچیزوں کی حفاظت کی ضمانت دے جواس کے دونوں جبڑوں کے درمیان ہے (یعنی زبان)اورجودونوں ٹانگوں کے درمیان ہے(یعنی شرمگاہ)تومیں اسے جنت کی ضمانت دیتاہوں‘‘۔(صحیح بخاری)
اگرہمیں جنت مطلوب ہے اورضمانت دینے والے بھی سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں توہمیں ہرکلام سے قبل سوچناہوگاکہ اس کاکیافائدہ اورکیانقصان ہے۔اوربلاضرورت کلام سے اجتناب کرناہوگاتاکہ قیمتی زندگی کاکوئی لمحہ ضائع نہ ہو۔ورنہ جس قدرباتیں زیادہ ہوں گی اسی قدران میں غلطیوں کاامکان بھی زیادہ ہوگا۔اب سوال یہ ہے کہ جن باتوں کے کرنے سے روکاگیاہے جن پرسکوت اختیارکرنے کونجات کاباعث بتلایاگیاہے ان سے کس طرح بچاجائے اورزبان کوکس طرح تالالگایاجائے؟ تو پہلے یہ ذہن نشین کرلیاجائے کہ ہماری ہربات ریکارڈکی جارہی ہے اورفرشتے لکھ رہے ہیں،ارشادباری تعالیٰ ہے:’’کوئی لفظ انسان کی زبان سے نہیں نکلتاکہ جسے لکھنے کے لئے حاضرباش نگران موجودنہ ہو‘‘(سورۃ:ق)یہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی خفیہ پولیس ہیں جس طرح دنیامیں خفیہ پولیس کسی کاتعاقب کررہی ہوتوانسان حد درجہ محتاط ہوجاتاہے،ٹیلی فون ٹیپ ہورہاہوتوگفتگومیں احتیاط برتی جاتی ہے، اسی طرح یقین رکھاجائے فرشتے ہماری ہربات کومحفوظ کررہے ہیں اوراللہ تعالیٰ ہرجہاں،ہرمقام،ہروقت ہمارے ساتھ موجودہے اورہماری پوشیدہ باتوں حتّٰی کہ سرگوشیوں کوبھی سن رہے ہیں اورمحفوظ کررہے ہیں اورآخرت میں ان تمام باتوں کاحساب بھی دیناہوگا۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں