کشمیر ڈے۔۔۔لہو میں بھیگے دریدہ آنچل۔۔قسم ہے تم کو بھلا نہ دینا

کل شادی کی تقریب میں ویٹر نے پوچھا:’’کافی لیں گی آپ یا کشمیری چائے‘‘۔تو دل جانے کیوں عجیب ساہوگیاکہ اب کشمیر سے ہمارا تعلق چائے کلچہ،کشمیری کھانوں اور کشمیر روڈ تک ھی رہ گیا ھے شائد۔۔
پانچ فروری پر وھی ھمیشہ والی باتیں ھوئیں کہ تجدید نو کادن ھے۔۔عزم نو کادن ھے۔۔پاکستانی عوام اور حکومت قدم بقدم کشمیری بھائیوں کے ساتھ ھیں۔۔جبرواستبداد کی سیاہ رات جلد ختم ھوگی۔آزادی کی روشن درخشندہ صبح طلوع ھونے کوھے۔حریت پسندوں کو سلام پیش کرتے ھیں۔۔بھارت مزید غلام بنا کر نہیں رکھ سکتا آزادی کے متوالوں کو۔۔وغیرہ وغیرہ
سن نوے میں جب قاضی صاحب نے پہلی بار یوم یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کیا تو کوئی سوچ بھی نہ سکتاتھاکہ آج اٹھائیس برس بعد بھی ھم یہی باتیں کررھے ھونگے۔
کشمیریوں کا مقدمہ مضبوط ھے مگر اسے لڑنے والے ھم وکیل انتہاء کمزور۔۔ھماری سفارت کاری کمزور،ھماری کمیٹی کمزور،ھماری جدوجہد کمزور،ھماری پشتیبانی کمزور۔
ھاں وہ پھر بھی یہی کہتے ھیں کہ پاکستان ھمارا مستقبل ھے،سید گیلانی جو پیری میں نوجوانوں کے سے جذبے سے نعرے لگواتے ھیں کہ۔۔۔پاکستان سے رشتہ کیا،اس زندگی کی قیمت کیا۔۔۔لاالہ الااللہ
وہ واقعی اس نعرے کا مطلب سمجھتے ھیں لاالہ کی حقانیت ثابت کررھے ھیں جوان سینوں پر گولیاں کھا کر،پیلٹ گنوں سے بینائی کھوکر،عورتوں نے پتھر اٹھالیے جوانوں نے غلیلیں،تازہ رکھے ھوئے ھیں جھاد کو اور آزادی کے چراغ کی لو کو مدھم نہیں ھونے دے رھے۔
ھم روز اخبار میں پڑھ لیتے ھیں اتنے جوان شھید،لاشوں سے چمٹ کر روتے ھوئے معصوم بچے،شھیدوں کی پیشانی کو بوسہ دیتی مائیں،بوڑھے کاندھوں پر جوان لاشہ اٹھائے باپ،بین کرتی بہنیں۔۔ھم نے اک دن وقف کرتودیا یکجہتی کے لیے۔۔اس سے زیادہ کیاکریں؟؟۔
کیاکیا آج یکجہتی کے دن ھم نے۔سارا دن دل پر بوجھ رہاہے کہ آج کا دن تو کشمیریوں کے لیے تھا۔۔کتنوں نے کم ازکم دو رکعات صلوت حاجت ہی پڑھی ھوگی۔کتنی نمازوں کے بعد تڑپ کر دعا مانگی ھوگی کہ مولا وہ چناروں کے اس پار بہنے والا لہو میرے ہی نسلوں کاہے۔مولا وہ ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے سینہ کوبی کرتی میری ہی بہنیں بیٹیاں ہیں،مولا طویل ہوگئی ھے ان کی آزمائش کی رات۔۔کتنی آنکھوں سے آنسو کا کوئی قطرہ نکلا ھوگا کہ برھان وانی کا معصوم چہرہ نظروں کے سامنے آیاھو ۔۔۔وھاں برھان اینڈ پارٹی نے نوجوانوں کو پھر متحرک کردیا۔اب عسکریت پسندوں کی تعداد میں روزافزوں اضافہ ہورہاہے۔۔۔
منان وانی نے اس آزادی کے پرچم کو اور بلند کردیا۔علوم ارضیات کا اسکالر۔۔بھوپال کی عالمی کانفرنس میں اپنی تھیسس پر پہلی پوزیشن لینے والا علی گڑھ یونیورسٹی کا منان حزب المجاھدین کی صف میں شامل ہوگیا ایک پرخطر راستے کا انتخاب کرلیا۔۔وہ اعلی دماغ اچھا کماتا،شادی کرتا،گھر بساتا،یہ کس راستے کا انتخاب کرلیا اس نے؟؟۔میڈیا پر تجزیہ نگار حیران ھیں اس بڑھتے ھوئے عسکری رحجان پر۔۔
آج کے دن چھٹی منانے کے بعد ہم اسی ایک سوال پر غور کرلیں کہ منان وانی جیسے جوان برھان وانی اور اس جیسوں کے راستے پر چل کر ھم سے کیا کہہ رھے ھیں؟۔
ایک خطرناک جاسوسی مجرم کلبھوشن کے لیے بھارتی سفارت کاری کتنے عروج پر ھے..ھم تو بیگناہ آزادی کا حق مانگتے لہو دیتے مقبوضہ کشمیر کے لیے اتنی بھی سفارت کاری نہ کرسکے جتنی وہ ایک ثابت شدہ مجرم کے لیے کررہے ہیں۔۔
ھماری جفاؤں کا بدلہ وہ وفاؤں سے دے رھے ھیں.ان کے شھید آج بھی پاکستانی پرچم میں دفنائے جاتے ھیں،برھان وانی کی قبر پر پاکستانی پرچم لہرایا جاتاھے۔
ھم اپنے اشعار میں شہادتیں پیش کررھے ھیں،رسمی لفظوں سے خراج تحسین پیش کررھے ھیں،واٹس ایپ پر جہاد کررھے ھیں,ٹوئیٹر ٹرینڈ بنا کر ان کی پیلٹ گنوں کو خاموش کرنے کی سعی کررھے ھیں،بحرحال جو بھی کررھے ھیں نہ کرنے سے بہتر ھی ھے۔۔مگر یہ سب تو ھر سال کرتے ھیں..وھاں نہ مظالم رکتے ھیں نہ شہادتیں۔۔
آج پانچ فروری کا قرض ھے کہ سوچیں کہ ھم کیاکریں؟؟
تو چلیں عہد کرتے ھیں کہ سن اٹھارہ کے الیکشن میں ایسی صادق اور امین قیادت کا انتخاب کریں گے جو پارلمینٹ میں محض کشمیر کمیٹی بناکر فارغ نہ ھوجائے بلکہ کشمیر کی آزادی کا علم اٹھائے اور اس مظلوم ومقہور قوم کی آزادی تک چین سے نہ بیٹھے..
تب ھم چھٹیاں منانے بچوں کو لے کر چناروں کے اس پار جائیں اور کہیں کہ..ھم کہتے تھے ناں کہ..اے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن..ستم شعاروں سے تجھ کو چھڑائیں گے اک دن۔۔۔

حصہ

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں