ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں

معلوم نہیں کب زمین پھٹے اور ہم نفسیاتی مریضوں کو نگل لے؟ کہیں، کوئی، کسی کی بیٹی محفوظ نہیں۔ بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں ناں؟ آج صحیح پتا چل رہا ہے۔ جب درد و الم سے کنپٹیاں پھٹنے لگیں، کرب و اذیت سے دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اپنا ہی سر پھوڑ دینے کو دل کرتا ہے۔ بیٹیاں محفوظ نہیں، بچے محفوظ نہیں۔ ہم ہاری ہوئی قوم ہیں اداس قوم! جو نہ تو اپنے بزرگوں کو سکھ دے سکتی ہے نہ ہی اپنے بچوں کی حفاظت کرسکتی ہے۔ مسلسل درندگی کے واقعات، ہتھوڑے بن کر برستے ہیں خدا جانے ان درندوں پر کب قہرِ خداوندی کا ہتھوڑا برسے گا۔ ایسی زندگی سے موت اچھی نہیں کہ زمین سنبھال لے؟ ہر شخص ناامیدی و بے یقینی کے تانے بانے میں الجھا ہوا ہے۔ دنیا پر سے اعتماد، اعتبار کے نام کی چیز ہی اٹھ گئی۔ محافظ ہی لٹیرا نکلتا ہے، معلم ہی درندہ نکلتا ہے، بھائی جو کہ عزت کا رکھوالا سمجھا جاتا ہے وہی بہن کی عزت تار تار کر لیتا ہے۔ استاد جو روحانی باپ سمجھا جاتا ہے وہ ہی روح تک کو نوچ لیتا ہے۔ قاری جس پر کلام خداوندی کی نسبت زیادہ اعتماد کیا جاتا ہے وہی قوم لوط کو شرما لیتا ہے۔انسانیت نام کی چیز نہیں، نہ مسجد، مدرسہ میں نہ کالج یونیورسٹی میں، نہ گھر، نہ گھر سے باہر!
ایسی حالت میں کوئی بتائے کہ ہم کیا کریں؟ موت مانگیں یا بیٹیاں جلائیں؟ بچوں کو زندہ درگور کر دیں یا مائیں بچے جننا ہی چھوڑ دیں؟ آسمان تو آنسو بہاتا ہی ہوگا کل زمین بھی لرز گئی۔ ہاں زلزلہ، ایک بچی کو برہنہ ہونے سے تو نہ بچا سکا۔ البتہ ناموس لٹنے سے بچا گیا۔ کپڑے تو چھن گئے مگر عزت بچ گئی۔ عین موقع پر جب دو درندے حوا کی بیٹی کی چادر کا تقدس پامال کر کے اسے بے آبرو کیا، اس کو برہنہ کرکے اسے فلمایا، خدا کی لاٹھی، زنجیر ہل گئی۔ زلزلہ طاری ہوا، بڑے بڑے پہاڑ، بلڈنگیں یوں ہلنے لگیں جیسے کھڑکی کا پردہ ہلتا ہے۔ مجرم دندناتے آئے، دندناتے چلے گئے۔ زلزلے سے سگنل مل گیا۔ درندہ صفت دونوں شخص بھاگ نکلے۔ سوچنے کا مقام ہے کتنی بے حسی چھائی ہوئی ہے؟ خدا کی قسم! ہم بالکل خدا کی زمین پر رہنے کے قابل نہیں۔ نہ ہم سے زندہ لوگ محفوظ، نہ ہی مردہ! (بمطابق روزنامہ مشرق)
خدارا! جاگیں، ظلم پر آنکھیں بند کریں گے تو یاد رکھیں بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں، ماؤں کی طرح۔ ذرا تشدد، ہوس کا نشانہ، ظالم کا نوالہ بننے والے بچوں کی جگہ اپنے بچوں کا تصور کریں؟ تصور سے ہی رونگھٹے کھڑے ہوتے ہیں ناں؟جاگیں، مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے آواز بلند کریں۔
اپنی ذمہ داریوں کا احساس کیجیے۔ ایسے واقعات سخت ترین سزا سے روکے جاسکتے ہیں۔ عبرتناک طریقہ سے سرِ عام پھانسی، سرِ عام قتل کرنا جس کی ایک صورت ہو سکتی ہے۔ معاشرے پر اس کے مضر اثرات نہیں البتہ مثبت اثرات ضرور مرتب ہوں گے۔ یہ سزا وحشیانہ اس وقت لگتی ہے جب مجرم کی نفسیات سے دیکھا جائے،معاشرے کے حوالے سے نہیں۔ قانون کا خوف جرم کے سدباب کا واحد ذریعہ ہے۔ جب وہ فطری، اخلاقی احساس، تعلیم و تربیت اور سماج کے دباؤ سے ماورا ہو جائے۔ ان مراحل کے بعد بھی نہ رکے تو وہ سخت سزا کا مستحق ہے۔ساتھ ہی تربیت بھی کسی چیز کا نام ہے۔ بے ہودگی، بے حیائی، پھیلانے والے حیا سوز عناصر کے خاتمے اور پابندی کے لیے بھی اواز بلند کریں۔اپنی حالت کو دیکھتے ہوئے یہی شعر دماغ میں ابھر رہا ہے:
ہم جو انسانوں کی تہذیب لیے پھرتے ہیں
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں