اب بیٹیوں پر رونانہیں حفاظت کرنا ہے۔

شکرصدالحمدللہ، اب ایک عام پاکستانی اپنے زندہ ہونے کا ثبوت رہا ہے ، کرپشن پر بولنا شروع ہوگیا ہے اوروفاقی ، صوبائی، شہری اور ضلعی سرکاری اداروں میں رشوت خوری، پولیس کے مظالم اورسرکاری بھتہ خوری پر احتجاج بھی کررہا ہے۔عام آدمی احتجاج تو پہلے بھی کرتا تھا لیکن ریاستی ادارے ظلم کے خلاف احتجاج پر اس کا ساتھ نہیں دیتے تھے مگر اب معاملات کافی حد تک مخالف رخ پر گامزن ہیں شاید جس کا یہ نتیجہ ظاہر ہوا ہے کہ’’ ارباب اختیار‘‘ نے (پارلیمنٹ ،حکمران اور سیاستدانوں نہیں) 70 سال سے رائج ظلم کے نظام کی اصلاح کا کام شروع کردیا ہے۔ افسوس آج کے ان حکمرانوں اور پارلیمنٹ پر ہے کہ سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار کے چند ماہ قبل کے بیان کے بعد بھی کہ ’’ ملک کی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہیں‘‘ اپنی قومی اور آئینی ذمہ داریوں کا ادراک نہیں کررہے ہیں۔
انتہائی محترم چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کا یہ کہنا بجا ہے کہ ’’قوم کیلئے ایماندار قیادت ضروری ہے‘‘ ۔ 70سالوں کے بعداتنی اعلیٰ سطح پر کسی نے مرض کی صد فیصد صحیح تشخیص بھی کی ہے اور علاج بھی شروع کردیا ہے۔پاکستانی قوم کے ساتھ ایک المیہ یہ بھی رہا ہے کہ ان کی بیٹیاں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ عوام کی حفاظت کی ذمہ داری انتظامیہ اوراعلیٰ سرکاری افسران پر حکمرانوں کے برابر بلکہ زائدعائد ہوتی ہے کیونکہ حکمران ایک مخصوص مدت کیلئے منتخب ہوکر آتے ہیں مگر ملک کو چلانے والی سرکاری حکام پر مشتمل انتظامی مشینری کو اپنے فرائض دن رات یعنی طویل عرصہ ، ریٹائرمنٹ تک سر انجام دینے ہوتے ہیں۔ اس ملک کا ایک المیہ یہ بھی رہا ہے کہ ساری کی ساری رسوائیاں حکمرانوں کے حصہ میں آتی ہیں اوربدعنوان سرکاری حکام صاف بچ نکلتے ہیں حالانکہ سرکاری حکام کوکرپٹ اور نااہل حکمرانوں کے غیرآئینی و غیرقانونی احکامات کی بجالانے کی بجائے ریاست کا وفادار ہونا چاہئے۔ ملک اورقوم کی سلامتی، ترقی اور استحکام کیلئے ایماندار اور غیرتمند انتظامیہ بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنے کہ ایماندار حکمران ضروری ہیں۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں 7 سالہ زینب کے ساتھ درندگی نے پوری قوم کو جنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ جس انسان میں رتی بھربھی انسانیت ہوگی اس کوزینب کے چہرے میں پنی بیٹی کا چہرہ ضرور نظر آیا ہو گا ۔ قصور کی زینب کے ساتھ درندگی کا یہ پہلا واقعہ تورونما نہیں ہوا ہے۔قصور کی زینب کے ساتھ درندگی سے بہت پہلے، 15 سال قبل، مارچ 2003 ء میں کراچی کی سڑکوں سے ایک نوجوان عورت عافیہ کو اس کے تین کمسن بچوں سمیت اٹھاکر امریکی درندوں کے حوالے کردیا گیا تھااور دو ماہ بعد مئی کے مہینے میں وزارت خارجہ نے اس حوالگی کی تصدیق بھی کردی تھی۔ بیٹیوں کی حفاظت کیلئے قوم کیلئے ایماندار کے ساتھ غیرتمند قیادت اور انتظامیہ کی بھی ضرورت ہے۔اگر قومی قیادت ایماندار اور غیرتمند نہ ہو تو ایک ہزار’’ضرب عضب‘‘ اور ’’ردالفساد‘‘ آپریشن سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جاسکتے ہیں ۔مجھے یہاں بھارت کی ایک بیٹی دیویانی کھوبراج دیویانی کی مثال دیتے ہوئے شرمندگی محسوس ہورہی ہے جس کی امریکی حراست سے رہائی کیلئے بھارتی حکمرانوں کے ساتھ وہاں کی اپوزیشن ، پوری لوک سبھا، ملک بھر کی ریاستی اسمبلیاں، سیاستدان، سول سوسائٹی، اقلیتیں، فوج اور تمام ریاستی ادارے کھڑے ہوگئے تھے اور چند دنوں میں اپنی بیٹی کو رہا کرالیا تھا۔
ڈاکٹر عافیہ کے اپنے تین کمسن بچوں سمیت اغواء کے بعد بیٹیوں کی بے حرمتی کا نہ تھمنے والا ایک افسوسناک سلسلہ شروع ہوا۔ راولپنڈی کی بیٹی آمنہ مسعود جنجوعہ اپنے لاپتہ شوہر کی بازیابی کیلئے برسوں سے انصاف مانگ رہی ہے، لاہور کی بیٹی شمائلہ نے اپنے شوہر کے قاتل امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کو سزا ملنے سے ناامید ہوکر خودکشی کرلی تھی۔گذشتہ سال طبقہ بدمعاشیہ کے ایک نمائندے نے دن دیہاڑے گھر میں گھس کر سیہون کی بیٹی تانیہ کو قتل کردیاتھا۔ کراچی کا شاہزیب بھی طبقہ بدمعاشیہ کے ایک نمائندے شاہ رخ جتوئی کے ہاتھوں اپنی بہن کی حرمت پر قربان ہو چکا ہے۔ کرپٹ نظام نے اس کو ضمانت پر رہا کرادیا اگر سپریم کورٹ نوٹس نہ لیتی تو یہ معاملہ بھی دفن ہوچکا ہوتا۔ طیبہ ، تانیہ ، فضیلہ، کائنات کے اغواء، قتل اور بے حرمتی کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔گذشتہ سال کراچی گلستان جوہر میں صرف خواتین کو چاقو کے وار سے زخمی کرنے والا مجرم نامعلوم رہ کر گرفتار ی سے بچ گیا اور سندھ کے نااہل حکمرانوں نے دہشت پھیلانے والے پہ در پہ واقعات کے باوجود بدعنوان انتظامیہ سے باز پرس کرنا بھی ضروری نہ سمجھا کیونکہ نشانہ بننے والیاں طبقہ اشرافیہ کی نہیں قوم کی عام بیٹیاں تھیں۔
خدانخواستہ اگر کسی کی بیٹی اسکول یا کالج سے چند منٹ تاخیر سے گھر پہنچے تو کہرام مچ جاتا ہے، ماں کو سکتہ، باپ کو اپنا وجود اپنے پیروں پر کھڑا رکھنا مشکل ہوجاتا ہے اور بھائی، بہن و دیگر اہلخانہ ہزاروں وسوسوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ان گھروں پر کیا قیامت ٹوٹتی ہوگی جن کی بیٹیاں اغواء ہونے کے بعد جنسی درندگی کا نشانہ بنا کر قتل کردی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کا معاملہ اس لحاظ سے بھی زیادہ سنگین ہے کہ اسے تین کمسن بچوں سمیت اغواء کیا گیاتھا اوراب جرم بے گناہی کی پاداش میں پون صدی سے زیادہ سزا بھگتنے کیلئے امریکی جیل کی اندھیری کوٹھری میں مرنے کیلئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ایک ستم یہ بھی ہورہا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کے اہلخانہ کو ذہنی طور پر ٹارچر کرنے کیلئے بار بار اس کی موت اور جیل میں حاملہ ہونے کی جھوٹی خبریں تک اڑائی جاتی ہیں ۔ قوم کی کسی ایک بیٹی کے مجرم کو اب تک سزا نہیں ملی ہے ، کیا قوم کی بیٹیاں لاوارث ہیں؟
ڈاکٹر عافیہ کو امریکیوں کے حوالے کرنے بعد ملک میں کرپشن کے ساتھ اخلاقی دیوالیہ پن کا نہ تھمنے والا ایک ایسا سلسلہ قائم ہوا جس نے ہر محب وطن پاکستانی کو شرمندہ اور اپنی بے بسی کاشدید احساس بھی دلایا۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور آمنہ مسعود جنجوعہ قوم کی یہ بیٹیاں گذشتہ پندرہ سالوں سے انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کرنے کیلئے جدوجہد کررہی ہیں۔ ڈاکٹر فوزیہ کا کہنا ہے کہ جس گھر سے بیٹی اغواء ہوجائے تو اس کے اہلخانہ پل پل جیتے اور پل پل مرتے ہیں۔قوم کی تمام بیٹیوں کی حفاظت کا فریضہ پوری قوم کو مل کر ادا کرنا ہے ۔
گذشتہ 15 برسوں کا جائزہ لیا جائے تو ملک میں مافیاؤں کا راج نظر آتا ہے۔فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف ہو یا سول حکمران آصف علی زرداری اور نواز شریف، تینوں حکومتوں کے درمیان کوئی واضح فرق نظر نہیں آتا ہے۔ تینوں ادوار کی اسمبلیوں کو مصنوعی نظام تنفس دے کر زندہ رکھا گیا، تینوں اسمبلیوں پر کرپشن کے سنگین الزامات عائد ہوئے اور تینوں اسمبلیوں میں سے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے15 سالوں میں کچھ بھی برآمد نہ ہوسکا۔ جن انتخابات کے ذریعے یہ اسمبلیاں معرض وجود میں آئیں وہ ہمیشہ متنازعہ رہے اور ان کی شفافیت کو کبھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ ان اسمبلیوں میں منتخب ہونے والے 2 وزراء اعظم جب عدالتی فیصلوں کے ذریعے نااہل قرار پائے تو عوام کی جانب سے ’’ان منتخب وزراء اعظم‘‘ کیلئے ہمدردی کا معمولی سا جذبہ بھی سامنے نہیں آیا۔
اس مرحلہ پر جب ریاستی ادارے نظام کی اصلاح کا فریضہ ادا کرنے کیلئے کمر بستہ ہوچکے ہیں تو عوام کو بھی اپنے حصہ کا فرض ادا کرنا ہوگا۔ قوم یہ فیصلہ کرلے کہ اب بیٹیوں پر رونا ہے یا ان کی حفاظت کرنی ہے۔ پاکستان کے قیام کو 70 سال گذر چکے ہیں۔ اب ہرعام آدمی کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ لسانیت، قومیت، صوبائیت، برادری یا’’ بریانی کی ایک پلیٹ کے عوض‘‘ ووٹ دینے سے ملک اور قوم کو ایماندار اور غیرتمند قیادت میسر نہیں آئے گی اور قوم کی ’’عافیہ ئیں‘‘ یوں ہی بکتی رہیں گی اور ’’زینب یں‘‘ کوڑے دانوں سے ملتی رہیں گی۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں