’’مکروہ ‘‘ شریعت کی نظر میں

شریعت کے احکام و مسائل کے بیان میں حلال اور حرام کے ساتھ ایک لفظ ’’مکروہ ‘‘کا بھی کثرت کے ساتھ استعمال ہوتا ہے ، آپ نے بھی اس طرح کے جملے علمائے کرام سے سنے ہوں گے اور کتابوں میں پڑھے بھی ہوں گے کہ فلاں چیز مکروہ ہے ،فلاں کام مکروہ ہے لیکن ’’مکروہ‘‘ کاشرعی مفہوم عوام الناس کے نزدیک حلال اور حرام کی طرح معروف اور واضح نہیں ہے،یہی وجہ ہے کہ بہت سارے لوگ’’ مکروہ‘‘ کی حقیقت و تعریف اور اس کے ثبوت سے متعلق سوال کرتے ہیں ، اس لیے’’ مکروہ ‘‘ کی وضاحت سے متعلق چند بنیادی باتوں کا علم میں ہونا ضروری ہے ۔
شریعت کے احکام کی بنیادی طور دو قسمیں ہیں ،ایک قسم کا نام’’ مامورات ‘‘ہے جبکہ دوسری قسم کو’’ منہیات‘‘ کہتے ہیں، مامورات ان احکام کو کہا جاتا ہے جن میں کسی کام کے’’ کرنے‘‘ کا حکم دیا گیا ہوجیسے نماز ،روزہ،زکوٰۃوغیرہ اورمنہیات ان احکام کو کہتے ہیں جن میں کسی کام سے ’’بچنے ‘‘ کا حکم دیا گیا ہوجیسے جھوٹ بولنا،خیانت کرنا،غیبت کرناکہ شریعت نے ان سب کاموں سے بچنے کا حکم دیا ہے ۔ احکام کی مذکورہ دونوں قسمیں درجہ اور مرتبہ کے لحاظ سے یکساں نہیں ہیں بلکہ مختلف مراتب اور درجات میں تقسیم ہیں ۔ احکام کے یہ مختلف مراتب و درجات قرآن و حدیث سے ثابت ہیں،اور اس درجہ بندی کا مقصددرحقیقت امت کے لیے عمل کے لحاظ سے آسانی اور سہولت پیدا کرنی ہے کیوں کہ اگر شریعت کے تمام احکام ایک ہی درجہ کے ہوتے تو امت کے لیے ان کی بجا آوری میں مشکل پیش آسکتی تھی اس لیے ان کو مختلف درجات میں تقسیم کیا گیا تاکہ امت کے لیے ان پر عمل کرنے میں سہولت اور آسانی ہو ۔ البتہ احکام پر ان مراتب اور درجات کے لحاظ سے عمل کے لیے اول ان کی پہچان ضروری ہے اورمجموعی لحاظ سے امت کے لیے احکام کے مذکورہ مراتب اور درجات کو پہچاننا ایک مشکل کام تھا اس لیے فقہاے کرام نے قرآن و حدیث میں غور و فکر کرکے احکام کی ان اقسام میں سے ہر ایک قسم کے لیے ایک مخصوص نام رکھ دیا تاکہ امت کے لیے ان کی پہچان میں اوران پر عمل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے اور ان کو سمجھنے سمجھانے میں بھی سہولت و آسانی ہو چنانچہ فرض ، واجب سنت ،مستحب ،وغیرہ یہ اصطلاحات فقہاے کرام نے قرآن و حدیث میں غور کرکے احکام کی انہیں مختلف اقسام کی پہچان کے لیے مقرر کی ہیں جس کی وجہ سے آج امت کے لیے ان کی پہچان ،ان پر عمل اور سمجھنا سمجھانا آسان ہے ۔احکام کی انہیں اقسام میں سے ایک قسم ’’مکروہ‘‘ ہے۔
مکروہ کی تعریف:
’’مکروہ‘‘ لغوی معنی کے اعتبار سے’’ ناپسندیدہ ‘‘کو کہتے ہیں،شریعت کی اصطلاح میں ’’مکروہ ‘‘کی حقیقت اور تعریف کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ تفصیل جاننا ضروری ہے کہ چیزوں کی حکم کے اعتبار سے تین قسمیں ہیں :
(۱) بعض چیزیں ایسی ہیں جن کی ممانعت قرآن و حدیث سے واضح طور پر ثابت ہے ،ایسی چیزوں کو ’’حرام ‘‘کہا جاتا ہے ۔
(۲) بعض چیزیں ایسی ہیں جن کی اجازت قرآن و حدیث سے واضح طور پر ثابت ہے یا ان کی ممانعت ثابت نہیں ہے ، ایسی چیزوں کو’’ حلال‘‘ کہا جا تا ہے ۔
(۳) بعض چیزیں ایسی ہیں جن کے متعلق اجازت اور ممانعت دونوں جانب کے دلائل موجود ہیں جس کی وجہ سے ان کو مکمل طور پر حلال کہا جا سکتا ہے نہ حرام کہا جاسکتا ہے ،جو چیز اس قسم کی قبیل سے ہو اس کو ’’مکروہ ‘‘ کہا جاتا ہے ۔
مذکورہ تفصیل سے ’’مکروہ‘‘کا شرعی مفہوم واضح ہوگیا کہ ایسی چیزیں جن کے متعلق اجازت اور ممانعت دونوں جانب کے دلائل موجود ہوں اور اس وجہ سے وہ مکمل طور پر حلال یا حرام اشیا کی فہرست میں شامل نہ ہوں ان کو ’’مکروہ ‘‘کہا جا تا ہے۔’’مکروہ‘‘نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ایسی چیزیں شریعت کی نظر میں حرام نہ سہی لیکن بہر حال ناپسندیدہ ضرور ہوتی ہیں۔
مکروہ کا ثبوت:
مکروہ کی مذکورہ تفصیل کی روشنی میں اب ذیل میں دو احادیث ذکر کی جاتی ہیں جن سے مکروہ کی مزید وضاحت کے ساتھ احادیث سے اس کا ثبوت بھی واضح ہوجائے گا۔
(۱) حضرت نعمان ابن بشیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حلال ظاہر ہے اور حرام ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں جن کوبہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں ۔(الی آخر الحدیث)۔ (مشکوۃ المصابیح،ص: ۲۴۱ مطبوعہ: قدیمی کتب خانہ)۔
اس حدیث میں چیزوں کی حکم کے اعتبار سے انہیں تین اقسام کا بیان ہے جن کا ذکر ماقبل میں آپ کے سامنے آیا ہے ، حدیث کے الفاظ میں تیسری قسم کی چیزوں کو ’’متشابہات ‘‘کہا گیا ہے کیونکہ ان میں اجازت اور ممانعت دونوں جانب کے دلائل موجود ہوتے اور اس وجہ سے ان کے حلال یا حرام ہونے میں اشتباہ ہوجا تا ہے،اسی قسم کی چیزوں کو فقہاے کرام ’’مکروہات‘‘ )مکروہ کی جمع)بھی کہتے ہیں۔ اس طرح مذکورہ حدیث سے ’’مکروہ ‘‘کی اصطلاح اچھی طرح واضح اور ثابت ہوجاتی ہے ۔
(۲) حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی کریم سے گوہ کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا :میں نہ تو اس کوکھاتاہوں اور نہ حرام کرتا ہوں ۔ (سنن ترمذی،ج ۲ص:ا،مطبوعہ:ایچ ایم سعید)۔
’’گوہ‘‘ایک قسم کا جانور ہے ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی علیہ وسلم سے اس کی حلت و حرمت کے بارے میں سوال کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ میں اس کو بذات خود کھا تا نہیں ہوں لیکن امت کے لیے حرام بھی نہیں کرتا ہوں۔حضور علیہ السلام کے اس جواب سے ’’مکروہ ‘‘کی اصطلاح مزید اچھی طرح واضح اور ثابت ہوجاتی ہے کیوں کہ جب آپ علیہ السلام گوہ کو حرام قرار نہیں دے رہے لیکن خود اس کو تناول بھی نہیں فرمارہے ہیں تو ایسی صورت میں یقیناًگوہ کو اور اس طرح کی دیگر چیزوں کو مکمل طور پر حلال یا حرام کہنا درست نہیں ہے چنانچہ عقل خود اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ حلال اور حرام کے درمیان بھی ایک درجہ ہے اور گوہ اسی درمیانی درجہ کی چیز ہے، اسی درمیانی درجہ کی چیزوں کو فقہاے کرام ’’مکروہات‘‘ کہتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام گوہ کے کھانے کومکروہ کہتے ہیں ۔
مکروہ کی قسمیں اور ان کا حکم:۔
مکروہ کے ساتھ بسا اوقات ’’تنزیہی‘‘اور ’’تحریمی‘‘کے الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں ،اس بنا پر ان کی مختصر وضاحت بھی ضروری ہے ۔ مکروہ کے بارے میں جیسا کہ معلوم ہوا ،اس میں اجازت اور ممانعت دونوں جانب کے دلائل موجود ہوتے ہیں اور اس کی حلال اور حرام دونوں کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے ،اس لیے مکروہ کی اس اعتبار سے دو قسمیں ہیں :۔
(۱) مکروہ تنزیہی (۲) مکروہ تحریمی
مکروہ تنزیہی اس مکروہ کو کہتے ہیں جس میں ممانعت کے مقابلہ میں اجازت کے دلائل غالب اور قوی ہوتے ہیں اس بنا پر وہ حرام کے مقابلہ کے مقابلہ میں حلال کے زیادہ قریب ہوتا ہے ۔
مکروہ تحریمی اس مکروہ کو کہتے ہیں جو اس کے برعکس ہوتاہے یعنی اس میں ممانعت کے دلائل غالب اور قوی ہوتے ہیں اوراس وجہ سے وہ حرام کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔
مکروہ تنزیہی کا حکم یہ ہے کہ اس سے اپنے آپ کو بچانا بہتر اور باعث اجر و ثواب ہے لیکن اگر اس کا ارتکاب ہوجائے تو گناہ نہیں ہوتا ہے۔اور مکروہ تحریمی کا حکم یہ ہے کہ اس سے اپنے آپ کو بچانا ضروری ہے اور اس کا مرتکب گناہ کا مستحق ہوتا ہے ۔
غرض یہ کہ شریعت کے احکام کی درجہ اور مرتبہ کے لحاظ سے مختلف قسمیں ہیں،’’مکروہ‘‘ بھی ان اقسام میں سے ایک اہم قسم ہے ۔اس کی حقیقت اور تعریف کو سمجھنے کے لیے مذکورہ چند اہم اور ضروری باتوں کا علم میں ہونا ضروری ہے ،اللہ تعالی ہمیں دین و شریعت کے تمام احکام کو سمجھنے اور ان کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

حصہ

جواب چھوڑ دیں