سپریم کورٹ۔ مجھے کیوں نکالا؟ 

اورسپریم کورٹ پہ کی جانے والی تسلسل کے ساتھ مسلم لیگی، تنقید یا دشنام ترازی کا جواب پہلے اشاروں اور استعاروں کے ذریعے دے رہی تھی اور اب نہال ہاشمی کیس کے فیصلے کے ذریعے مثال قائم کر کے واضح پیغام دے دیا ہے۔
سپریم کورٹ پہ جلسوں میں کی جانے والی تنقید کا جواب حکومت پنجاب کے ہسپتالوں میں جا کر Capabilities Management کو چیلنج کیا۔ جو کہ عوام سپریم کورٹ کی اس موومنٹ کو اپنا مسئلہ حل ہوتے دیکھ کر تحسین کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔
اسی طرح سندھ کی حکومت کو پانی ، زمینوں پہ ناجائیز قبضوں اوردودھ کی کوالٹی پہ گھیرا گیا ہے۔ عدالتیں آئی جی سندھ کی پشتیبان بن کر سامنے آئی ہیں۔ جب ہی بلاول بھٹو نے جیوڈیشنل کمیشن کو نہ بلانے پہ تنقید کی۔ وزیر اعلی سندھ بھی چلتے پھرتے عدالتوں کی وجہ سے اپنی بے بسی کا اظہار کر ہی دیتے ہیں
عدالتی فیصلوں پہ کی جانے والی کھلے عام تنقید کے خلاف پہلی مثال نہال ہاشمی کو بنا دیا گیا ہے۔ باوجود انکی غیر مشروط معافی کے باوجود عدالتوں نے ان کو معاف نہیں کیا۔ 5 سال کیلئے نااہل ، جرمانہ اور ایک ماہ کی قید سنا دی گئی۔
یہ سزا ہے یا پیغام اس کے لیے شام 7 بجے سے لیکر 12 بجے تک مختلف تجزیہ نگار ٹی وی پہ ایران طوران کی کہانی سنائیں گے۔ مگر ہم جیسے نکموں کی نظر میں یہ ایک پیغام ہے کہ جب کہ عدالتوں میں مسلم لیگی زعما کے خلاف توہین عدالت کا کیس سماعت کیلئے منظور کر لیا گیا ہے تو ایسا اور بہت ساروں کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔
الیکشن کچھ ہی فاصلے پہ ہے مسلم لیگی قیادت کو احتیاط برتنی چاہئیے۔ خیال رکھنا چاہئیے۔ الفاظ کے استعمال میں محتاط رہیں۔ آج کل وہ مشکلات میں ہیں۔ الیکشن کی تیاری کیلئے ذہنی اور اعصابی طور پہ ان کو Maturity کا اظہار کرنا ہو گا۔ کچھ تلخ حقائق کو چاہے وہ ان کو غلط سمجھیں یا درست بعینہٖ ہی ماننا پڑے گا۔
مسلم لیگ کو چاہیے کہ اپنے کام کی بنیاد پہ کمپین چلائے۔ ہوا کے رخ کو دیکھ کر تدبر کے ساتھ فیصلے کریں۔ منفی سے زیادہ مثبت سوچ اپنائیں۔ اسی میں انکا بھلا ہے۔

حصہ
mm
کاشف حفیظ صدیقی ایک تحقیقاتی ادارے سے وابستہ ہیں ۔ کراچی کے مقامی روزنامے میں طویل عرصہ "منظر۔پس منظر" کے نام سے کالمز بھی لکھتے رہے ہیں ۔ 7 تحقیقی کتب کے مصنف بھی ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں