سوشل میڈیا رابطے، پردے کی حدود و قیود

غیر محرم مرد و عورت کی بات چیت خواہ آمنے سامنے ہو یا، موبائل میسجز پر، سوشل میڈیا پر چیٹ ہو، خط و کتابت کے ذریعے ہو یا کالز پر ہو سب کے لئے اللہ نے کچھ اصول و ضوابط مقرر فرمائے ہیں۔ فرمان باری ہے کہ ’’اور جب تم ان سے کوئی شے مانگو تو پردے کی اوٹ سے مانگو یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے لیے زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے‘‘۔ یہاں سے دو اصول ملتے ہیں، ایک تو یہ کہ غیر محرم آپس میں محض کام کی بات کرسکتے ہیں۔ دوسرا اصول یہ کہ وہ کام کی بات بھی پردے کی اوٹ میں کی جائے گی۔
میسجز یا سوشل میڈیا پر چیٹ یا کالز پر بات کرتے ہوئے دوسرا اصول یعنی پردے کی اوٹ تو موجود ہوتی ہی ہے الا یہ کہ وڈیو کالز کے ذریعے کوئی اسے بھی ختم کردے مگر پہلا اصول جو بیان ہوا کہ محض کام کی بات کی جائے اس کو ہم عموماً پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ غیر محرم کی آپس میں گفتگو محض ضرورت کی حد تک رہنی چاہیے۔ آپس میں گپ شپ اور دوستانہ ماحول بنائے رکھنے کی اجازت شریعت ہرگز نہیں دیتی۔ اسی طرح کچھ اور اصول بھی اسلام نے مقرر فرمائے۔ ’’اے نبی کی بیویو! تم دوسری عورتوں جیسی ہرگز نہیں ہو اگر تم تقوی اخیار کرو۔ (مردوں) سے گفتگو میں نرمی نہ رکھو کہیں ایسا نہ ہو کہ جس کے دل میں مرض ہو وہ امید رکھنے لگے۔ اور تم نیکی کی بات کرتی رہو‘‘۔ (القرآن)
یہاں پر بھی مزید دو اصول بیان کئے گئے۔ پہلا یہ کہ غیر محرم سے بات کرتے ہوئے لہجہ سخت رکھا جائے نرمی نہ برتی جائے نا لہجہ پرکشش بنایا جائے اور دوسرا اصول یہ جو بات کی جائے وہ اچھی اور بھلائی و خیر کی بات ہو۔یعنی اگر کوئی عورت کسی نا محرم سے ایسے لہجے میں بات کرے جس سے مردوں کے دل میں فتنے کا اندیشہ ہو تو یہ شرعاً حرام ہے۔ اسی طرح تحریری گفتگو میں بھی ان اصولوں کو مدنظر رکھا جائے۔ ایسے الفاظ و انداز سے اجتناب کیا جائے جو صنف مخالف کے لیے کشش کا باعث بنتے ہوں۔
اسی طرح گفتگو اچھائی اور نیکی کی گفتگو ہو کوئی لغو بات نہ ہو۔ اس امت کی سب سے پاکیزہ خواتین یعنی امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات امہات المومنین بھی غیر محارم سے انہی اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے گفتگو فرمایا کرتی تھیں۔ اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی براہ راست شاگردات محترم صحابیات بھی انہی ضابطوں کی پابند رہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوا کرتیں تھیں۔آج بھی اگر ان ضوابط کی پابندی کی جائے یعنی محض کام کی اور بھلائی کی گفتگو پردے کی اوٹ میں سخت لہجے میں کی جائے تو کوئی حرج نہیں۔
منہ بولے رشتے اور منگیتر بھی غیر محارم میں داخل ہیں یہ سارے اصول ان پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔ اسلام میں منہ بولے رشتوں کا کوئی تصور نہیں۔ یہ محض شیطانی دھوکا ہے۔ کسی کو بھائی، بہن، بیٹا، بیٹی یا والدین کہنے سے وہ حقیقتاً یہ سب نہیں بن جاتے۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس بات سے منع فرما دیا یقیناً اس میں خیر ہی ہوگی۔ لہذا خود کو اس شیطانی دھوکے سے بچائیں۔ انہی اصول و ضوابط کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام نامحرم افراد سے گفتگو کریں۔ ہماری اخروی نجات کا مدار اسلام ہی کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں