بے ادب۔۔۔ بدتمیز۔۔۔ بدتہذیب

نماز کی دوسری رکعت تھی جب میں تیز قدموں صف میں پہنچا۔ امام صاحب قعدہ میں بیٹھے تھے۔ پہنچتے ہی نماز میں شامل ہوا۔ وہ اٹھے، ابھی رکوع میں نہیں گئے تھے کہ کسی کے موبائل کی گھنٹی بجی، ساتھ ہی دھم، دھڑم، دوڑنے کی تیز آواز آئی جیسے کوئی تیز دوڑ رہا ہو اور جلد از جلد یہاں سے نکل جانا چاہتا ہو۔ چند ہی منٹوں میں واپس سناٹا ہو گیا۔ اللہ اکبر کی صدا کے ساتھ امام صاحب سجدے سے اٹھے، قعدہ اخیرہ کیا، سلام پھیرا، ہم اپنی نماز پوری کرنے اٹھ کھڑے ہوئے۔ سلام کے پھرتے ہی شور غوغا ہوا۔ بھانت بھانت کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ ایک بار سبق بھولا، دوسری بار، تیسری بار، مگر مجال کہ کسی کو احساس ہو کہ پاس کوئی بے نمازی نماز پوری کر رہا ہے۔ہر ایک اپنی جاڑ رہا تھا۔ اس نوجوان کو کوس رہے تھے جو موبائل کے بجنے پر دوڑ کر بھاگا تھا۔ اسے ذلیل، بے عزت، بدتمیز، بدتہذیب باور کرا کر سب اپنی تسبیحات پوری کرنے میں مگن ہو گئے۔ ہم نے جیسے تیسے نماز مکمل کی۔ بزرگ دعا کے بعد ہاتھ چہرے پر پھیر رہے تھے۔ ایک بار پھر شور غوغا ہوا۔ اس نوجوان کو دوبارہ سے کوسا جانے لگا۔
میرے پاس بیٹھے ایک صاحب نے کھنکھار بھری اور باآواز بلند، ان لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے آوازہ دیا۔ بزرگو! وہ تو جیسے تھا سو تھا۔ موبائل بجا، سو بھاگ گیا، اسے پتا تھا کہ نماز کے بعد اللہ کے گھر آئے دین کے ٹھیکیدار میری شلوار اتار کر سر پر باندھ دیں گے سو اس نے بھاگنے میں عافیت سمجھی۔ اچھا ہوا وہ چلا گیا وگرنہ آپ کے تیور بتا رہے ہیں کہ زندہ گھاڑ دینا تھا آپ نے۔ اس نے آپ کی نماز خراب کی، نہ کی، آپ کی توجہ منتشر ہوئی، نہ ہوئی۔ مگر آپ نے ہم سب کی نماز میں ضرور خلل ڈالا، ہماری توجہ ضرور منتشر ہوئی۔ ہم گنہگاروں کو پہلے ہی دیر ہو چکی تھی۔ دورکعت نصیب ہوئیں جماعت کے ساتھ، دو اپنی پڑھ رہے تھے کہ آپ کا وعظ و نصیحت شروع ہوگیا۔ فتویٰ بازی نے چار بار تو سبق بھلایا، کتنی دیر تو میں یہ سوچتا رہا کہ کتنی رکعت پڑھ چکا۔ پوری ہو گئی نماز، نہیں ابھی ایک رکعت باقی ہے۔
ہاں! بالکل ایسا ہی ہوا۔ میں انتہائی کمزور شخص ہوں۔ بے توجہی کی وجہ سے، مجھے تو، یہ تک یاد نہیں رہتا کہ میری کتنی رکعتیں ہو گئیں۔ سبق کہاں سے پڑھ رہا تھا۔ آپ ذرا یہ بتائیں کہ مسجد کا کیا یہی اکرام ہے کہ صرف موبائل نہ بجے؟ یہی ادب ہے کہ کسی کا موبائل غلطی سے بج جائے تو آپ اس کی مٹی پلید کردیں؟. باقی آپ لوگ جتنا شور شرابہ کریں، بحث مباحثہ کریں، شور غوغا کریں، توتکار کریں سب کی اجازت ہے ناں۔۔۔؟ یہ سب بے ادبی نہیں، میں جانتا ہوں کہ آپ سب مہذب، باادب، لوگ ہیں۔ آپ جو کریں وہ ٹھیک ہے۔ اس میں غلطی کہاں گنجائیش بچتی ہے۔ تنی ہوئی گردنیں، کچھ جھک سی گئیں تھیں۔ انہوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا: میں شرمندہ ہوں، مگر بات یہی تھی کہ اگر کسی کے موبائل کی گھنٹی بج جاتی ہے تو اسے کثیف روح قرار دینے، بے ادب گرداننے سے بہتر یہ ہے کہ آپ پیار سے سمجھائیں بیٹا! مسجد میں موبائل بند رکھا کریں۔
پھر اگر کسی کے موبائل کی گھنٹی بجے گی بھی تو وہ یوں گھوڑے کی طرح بھدک کر بھاگے گا نہیں۔اور کسی نے اگر کچھ شور شرابہ کر ہی لیا تو آپ کا یہ حق تو نہیں بنتا کہ سب کے سب ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ جائیں اور پاس کھڑا شخص جو اپنی نماز پوری کر رہا ہے وہ سہ بارہ پڑھنے پر مجبور ہو، اسے آزمائش میں کیوں ڈال رہے ہیں۔ یہ لیکچر ابھی جاری ہی تھا کہ میں اٹھ کر مسجد کے کونے کی طرف بڑھ کر دوبارہ سے نماز پڑھنے کی نیت باندھ چکا تھا۔

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں