اپنے بچے کو کامیاب انسان بنائیے۔

بچوں کو ٹیوشن پڑھواناہو یا سپارہ اکثر وا لدین ہمیں پر یشان نظر آتے ہیں۔ کسی کو اچھا ٹیوٹر نہیں ملتا تو کوئی بچوں کو قرآن پڑھانے کے لیے قاری کو ڈھونڈ رہا ہوتا ہے۔
یہ وہ بنیادی مسئلہ ہے جو ہر والدین کو درپیش ہوتا ہے اور وہ اس کے حل کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔مگر اس میں ہمیں والدین کی طرف سے بہت زیادہ کوتاہی بھی نظر آتی ہے۔ اکثر دیکھنے میں آیاہے کہ والدین یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے بچوں کو پڑھانے کے لیے ایک ٹیوٹر مقرر کردیا۔ اسے مہینے میں فیس دی اور پھر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئے۔ نہ یہ دیکھا کہ ٹیوٹر بچے کو کیا پڑھا رہا ہے اسے کتنا وقت دے رہا ہے۔ یا پھر اس کے ساتھ کیا سلوک کر رہا ہے۔المیہ یہ ہے کہ ان سب باتوں کو معلوم کرنے کے لیے والدین کے پاس ٹائم نہیں ہو تا۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہروالدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے بچے کی بہتر تر بیت جتنی وہ خود کر سکتے ہیں اتنا کو ئی اور نہیں کر سکتا۔ اسی لیے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے کو ٹیوٹر کے اوپر نہ چھوڑیں بلکہ بچوں کو بھی روزانہ تھوڑا ٹائم ضرور دیں اور اس کی پریشانی معلوم کرنے کی ضرور کوشش کریں۔ والدین دیکھیں کہ ان کا بچہ اگر پریشان ہے تو اس کی وجہ کیا ہے۔ زیادہ ہوم ورک ، ساتھیوں کا برا رویہ یا پھر ٹیچر کی طرف سے کی گئی بچے کے ساتھ کو ئی نا انصافی۔اگر ایسی کوئی صور ت حال نظرآئے تو والدین کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے بچے کو اپنے اعتماد میں لیں ، اور اسے بتائیں کہ اس کے سب سے بڑے خیر خواہ وہی ہیں اور ان سے زیادہ اس کا دوست کوئی نہیں ہو سکتا۔ اگر بچہ یہ بات سمجھ جائے تو پھر اس کی پریشانی معلوم کریں۔ اگر ان کا بچہ کسی وجہ سے ڈسٹرب نظرآتا ہے تو اسے حل کرنے کی کوشش ضرور کریں۔ایسا کرنے کی صورت میں والدین بھی مطمئن ہوں گے اور بچے کو بھی خاطر خواہ فائدہ پہنچے گا۔ایک تو یہ کہ ان کا بچہ غلط راہ سے بچ سکے گا۔دوسرے یہ کہ والدین پر اس بچے کا اعتماد بڑھے گا۔تیسری بات یہ کہ جب بچہ یہ سمجھ لے گا کہ اس کے والدین اس پر بھروسا کرتے ہیں۔ تو اس کا کھویا ہوا اعتماد ضرور بحا ل ہو گا۔اور پھر اس بچے کو ایک کا میاب انسان بننے سے کو ئی نہیں روک سکے گا۔
آخر میں والدین کو چاہیے کہ اپنے بچے کے اچھے برے سے ان سے زیادہ کسی کو واقفیت نہیں ہوتی لہذا والدین خود اپنے بچوں کی نگرانی کریں نہ کہ انہیں کسی اور کے سپرد کریں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں