۔۔22 جنوری 1517۔۔ جنگ ردانیہ

سلطنت عثمانیہ میں اگر کوئی سلطان بغیر جنگ کے چند ماہ بھی پایہ تخت میں قیام کرلیتا تو ینی چری (عثمانی فوجی) اپنی کڑاہی الٹ دیتے جس کا مطلب تھا کہ شہر کے پرسکون ماحول میں ان کا جی اکتانے لگا ہے۔ جہاد ارطغرل بے کے خانوادے کا طرہ امتیاز تھا۔ عثمان غازی سے لے کر بایزید ثانی تک تقریباً دو سو سال تک، اناطولیہ کے زرخیز میدانوں سے لے کر بلقان کے کوہساروں تک کبھی ان کی تلواریں وحشی تاتاریوں سے ٹکرائیں، کبھی ان کی مڈبھیڑ جانباز صلیبیوں سے ہوئی اور کبھی انہوں نے رومیوں، یونانیوں اور سربوں کے دانت کھٹے کیے۔ وہ ایسے شکاری تھے جو دارالحرب میں نئے ملکوں کو فتح کرنے کے لیے بے چین رہتے۔ سو انہوں نے کبھی اپنے جنوب میں ایران، شام، عراق، مصر اور حجاز کا رخ نہ کیا۔
فاتح قسطنطنیہ سلطان محمد فاتح کے پوتے سلطان سلیم اول وہ پہلے عثمانی سلطان تھے جنہوں نے روایت کے برعکس دارالسلام کا رخ کرکے عالم اسلام کو ایک بار پھر ایک پرچم تلے جمع کرنے کا کارنامہ سر انجام دیا۔ سلطان سلیم کی اس تحریک کی وجہ مملوکوں اور صفیوں کی دولت عثمانیہ کے اندرونی معاملات میں مسلسل مداخلت بنی۔ مثال کے طور پر بایزید ثانی کے دستبرداری سے اپنی تاج پوشی کے درمیان، سلیم کو اپنے بھائیوں کی جانب سے جس خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس میں شاہ اسماعیل اور سلطان توبان بے کا براہ راست کردار تھا۔ اس کے علاوہ شاہ اسماعیل عثمانی علاقوں میں شیعیت پھیلانے کی کوشش میں لگا رہتا تھا جبکہ مملوکوں اور عثمانیوں کی سرحد پر ترک اور کرد قبائل آئے روز اپنی وفاداریاں بدلتے رہتے تھے۔
بھائیوں کی بغاوت رفع کرنے کے بعد سلطان نے سب سے پہلے ایران کا رخ کیا۔ عراق کو اپنی سلطنت میں شامل کرتے ہوئے وہ ایران پہنچا اور صفوی سلطنت کے بانی شاہ اسماعیل کو شکست فاش دے کر تبریز کو تسخیر کیا۔ کہتے ہیں شاہ اسماعیل جتنا غالی شیعہ تھا، سلیم اتنا ہی کٹر سنی۔ وہ ایران کو بآسانی اپنی سلطنت میں شامل کرسکتا تھا مگر اس نے شیعوں پر حکومت کرنے کو بھی منحوسیت سے تعبیر کیا اور واپس لوٹ آیا۔ اب مملوک مصر کی باری تھی۔
مملوک ترک غلاموں کا وہ گروہ تھا جسے دولت عباسیہ نے خرید کر اپنی فوج کا حصہ بنایا تھا۔ جلد ہی وہ اپنی لیاقت اور بہادری سے تمام بلاد اسلامیہ میں پھیل گئے اور ہر جگہ اپنا لوہا موایا۔ ایوبی سلطنت کے آخری دنوں میں مملوک مصر، ایوبی فوج میں سرکردہ عہدوں تک پہنچ چکے تھے۔ آخری ایوبی حکمران صالح نجم الدین ایوبی کی وفات کے بعد اس کی نور نظر شجرالدور عالم اسلام کی دوسری خاتون فرماروا بنی۔ وہ خود مملوک تھی اور مملوک سپہ سالار عزالدین ایبک سے اس کی شادی اقتدار کے ایوبیوں سے مملوکوں کو منتقلی کی وجہ بنی۔
مملوکوں کی کچھ جہادی خدمات ایسی ہیں جن کی بناہ پر تاریخ اسلام میں انہیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جیسے فرانس کے بادشاہ لوئس چہارم کی قیادت میں آنے والے ساتویں صلیبی مشن کا تن تنہا مقابلہ کرتے ہوئے پورے لشکر کو ملیامیٹ کرنا، برائے نام ہی سہی مگر عباسی خاندان کو قاہرہ بلاکر خلافت کے ادارے کو برقرار رکھنا اور وحشی تاتاریوں کے اس طوفان کو جو وسطی ایشیا میں خوارزم شاہیہ کو الٹتا، دولت عباسیہ کو روندتا، سلاجقہ روم کو گراتا اور دمشق میں مملوک کو کچلتا مصر پہنچا تھا، فلسطین میں عین جالوت کے مقام پر اس کے آگے اپنے خون جگر سے بند باندھنا۔ ہلاکوں خان کا مشہور سپہ سالار قطبوغہ جو 39 جنگوں میں مسلسل ناقابل تسخیر چلا آرہا تھا، اس جنگ میں مارا گیا تھا۔
وقت کے ساتھ ساتھ مملوک کمزور پڑنے لگے جبکہ دوسری طرف فتح قسطنطنیہ کے بعد پورے عالم اسلام میں آل عثمان کا طوطی بولنے لگا تھا۔ وقت کا تقاضہ تھا ماضی کی طاقت، نئی تازہ دم سپر پاور کو راستہ دے۔ مملوک سلطان توبان بے نے سلطان سلیم کے مقابلے میں اس کے بھائیوں کی حمایت کرکے اپنے وقت کی طاقت کو اشتعال دلایا تھا۔ سو اب اس کا حساب لینے کا وقت آگیا تھا۔ سلطان سلیم آندھی کی رفتار سے سفر کرتا اور راستے میں دمشق اور غزہ کو تاراج کرتا بلآخر مملوکوں کے پایہ تخت قاہرہ پہنچا۔
بائیس جنوری 1517 کو عثمانی ترکوں اور شیرکاسی مملوکوں کے درمیان وہ خونریز معرکہ انجام پایا جسے تاریخ، جنگ ردانیہ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ بیس ہزار تجربہ کار ینی چریوں کا لشکر قاہرہ سے چند میل کے فاصلے پر مملوکوں کی تیس ہزار ٹڈی دل فوج سے ٹکرایا۔ دونوں جانب سے ڈٹ کر مقابلہ ہوا مگر بھاری توپخانے کی اس نئی آفت کے سامنے مملوک کیا کرتے۔ توپوں سے نکلتے آتش گیر گولوں نے ایک دن میں ہی مملوکوں کے مستقبل کا فیصلہ کردیا۔ بڑے بڑے سرداروں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ توبان بے سرفروشی سے لڑتا ہوا مارا گیا۔ دونوں طرف سے جذبہ جہاد سے سرشار 13000 ہزار جانباز کام آئے۔
جنگ کے کچھ روز بعد تک بچے کچے مملوک سرداروں کی طرف سے مختلف علاقوں میں گوریلا جھڑپیں جاری رہیں۔ اس دوران جو سردار ہاتھ لگا، اس کا کٹا ہوا سر شہر کے دروازے پر لٹکادیا جاتا۔ سلیم جب قاہرہ میں داخل ہوا تو وہ اسلام کے تین مقدس ترین شہروں مکہ، مدینہ اور بیت المقدس کے نئے حکمران کے طور پر خادم حرمین شریفین کہلایا۔ عباسی خلیفہ المتوکل ثانی نے اس کا استقبال کیا اور مساجد میں اس کے نام کا خطبہ پڑھا گیا۔ اس نے عثمانی افواج کو لوٹ مار روکنے کا حکم دیا اور اس وقت تک مصر میں رکا رہا جب تک ملک میں اس کا اقتدار مضبوط نہ ہوگیا۔
جنگ ردانیہ کی تاریخ اسلام میں بڑی اہمیت ہے۔ اس کے نتیجے میں صدیوں بعد ایک بار پھر عالم اسلام کی سیاسی و مذہبی قیادت ایک شخص کے اندر مجتمع ہوئی۔ گو آل عثمان سلطان مراد اول کے زمانے سے ہی خلافت کے دعویدار رہے تھے مگر اب یہ دعوی ایک اٹل حقیقت میں تبدیل ہوچکا تھا۔ سلطان سلیم آخری عباسی خلیفہ کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ قسطنطنیہ لے آیا۔ پایہ تخت میں ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں عباسی خلیفہ، سلطان سلیم اول کے حق میں دستبردار ہوگیا اور اس علامت کے طور پر اس نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار آل عثمان کے حوالے کردی۔
تقریباً 400 سال تک خلافت آل عثمان کے پاس رہی۔ اس طویل زمانے میں کسی دوسری طاقت نے ان کے حق خلافت کو چیلنج نہیں کیا۔ دوسری جنگ عظیم میں ترکوں کی شکست کے بعد ترک گریٹ اسمبلی نے 3 مارچ 1924 کو اس کا باضابطہ خاتمہ کردیا ۔ علامہ اقبال نے اس موقع پر کہا تھا کہ
چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ

حصہ
mm
کاشف نصیر مشہور بلاگر ہیں،مختلف بلاگز اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں،منفرد اسلوب کے حامل کاشف نصیر سیاسی ،سماجی اور دیگر مسائل پر ڈوب کر لکھتے ہیں،نئے بلاگرز کے استاد بھی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں