نقیب کی لاش اور قوم پرستی کا شیطان

خون سرخ ہوتا ہے

چاہے وہ خوبصورت پشتون نقیب محسود کا ہو

یا قصور کی زینب کا ہو

یامردان کی اسما کا

یا تربت میں مارے جانے والے پنجابی مزدوروں کا ہو

کراچی کے ڈیفنس کے انتظار، شاہ زیب اور خاور برنی کا ہو

عمار ہاشمی ہو یا امجد احمد

یا پروفیسر حسن ظفر عارف کا

یا لیاری کے بے آسرا مکرانی ہوں

یا پشاور کے چرچ میں مارے جانے والے مسیحی

ہتھکڑیوں میں بندھے افراد ہوں یا وہ جن کی پیٹھ پہ گولی مار دی گئی ہو یا خودکش حملہ آور کے نام پہ جن کی لاش ہی جلا دی گئی ہو

چاہے مشرقی سرحد پر ہو یا مغربی پر، وہاں شہید ہونے والا ہرہر سویلین اور فوجی کا

سارے میرے اپنے ہیں… یہ سب مجھے پیارے ہیں… سب مجھے عزیز ہیں

یہ سب میرا ہی خون ہے… یہ سب پاکستانی ہیں… سب مظلوم ہیں

یہ کسی پشتون، پختون، پنجابی، اردو بولنے والے، بلوچی، سندھی کا خون نہیں

یہ پاکستان کا خون ہے… یہ پاکستان پہ ظلم ہے

اور ہم پاکستانی ہی اس کے خلاف آوازاٹھا رہے ہیں

خبردار ! کوئی مردہ قوم پرست نقیب کی لاش کو اپنے مذموم مقصد کے لیے استعمال نہ کرے، عصبیت و قومیت کی آگ جلانے کے لیے استعمال نہ کرے، قومیت کے تنِ مردہ میں جان ڈالنے کے لیے استعمال نہ کرے۔

ہوشیار رہو ! سستی اور گھٹیا سیاسی مفاد کے لیے … کوئی بھی نقیب اور زینب کا غلط تقابل نہ کرے!

ان تمام مظالم کے خلاف… کراچی سے لیکر لاہور تک… اس سے آگے راولپنڈی و اسلام آباد… اس سے بڑھ کہ پشاور و کشمیر کے ہرہر اہلِ دل نے آواز بلند کی ہے… احتجاج کیا ہے۔

یہ کسی زبان پہ نہیں… پاکستان پہ ظلم ہوا ہے ، پاکستان نے سہا ہے یہ ظلم، اسی لیے پورا پاکستان ہی مجسم اور سراپا احتجاج ہے۔

سچ یہ ہے کہ یہ مقابلہ ظالم اور مظلوم کا ہے

چوہدری اسلم اور راؤ انور جیسے ظالموں اور قاتلوں سے مظلوموں کا ہے

جن کے ہاتھوں ہر زبان بولنے والوں پہ ظلم ہوا… جن کے ہاتھوں ہر زبان بولنے والے قتل ہوئے

جنہوں نے سب کا خون بہایا!

اب مقابلہ خاموش رہنے والوں اور صدا بلند کرنے والوں کا ہے

قوم پرستو! تم یہاں بھی ناکام اور نامراد ہی رہو گے!

حصہ
mm
کاشف حفیظ صدیقی ایک تحقیقاتی ادارے سے وابستہ ہیں ۔ کراچی کے مقامی روزنامے میں طویل عرصہ "منظر۔پس منظر" کے نام سے کالمز بھی لکھتے رہے ہیں ۔ 7 تحقیقی کتب کے مصنف بھی ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں