امید کے دیے جلائیں

میں تشنۂ تکمیل آرزؤں ، امنگوں ، تمناؤں کو لیے زندگی کی ڈگر پر رواں دواں تھا۔رگ و پے میں مایوسی چھائی ہوئی تھی۔ ناامیدی کے چراغ روشن تھے۔ عدم تکمیل آرزوؤں سے چرمرا سا گیا تھا۔زندگی کی تئیس بہاریں تو میں دیکھ چکاتھا مگر برتری و تفوق سے ناآشنا ایسے ہی دور تھا جیسے آسمان دور ہے بہت دور۔گرتے، پڑتے، لرزتے، ڈولتے ایام زندگی گزار رہاتھا۔ منٹ گھنٹوں میں گھنٹے دنوں دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدل رہے تھے۔مگر کامیابی و ترقی سے دامن آج بھی خالی ہی تھا۔ہاں اتنا ضرور تھا کہ وقت گزر رہا تھا۔ اور وقت کاکام تو ہے ہی گزرنا وہ تو جیسے تیسے گزرتا ہے۔مگرایسے گزران زندگی ہو کیوں کر؟ اللہ تعالیٰ نے وقت گزاری کے لیے تو نہیں نا ں پیدا کیا کہ وقت گزارا، اپنی طبعی عمر پوری کی اور مر گئے ، نام و نشان مٹ گیا۔بلکہ رب کریم نے تو اشرف المخلوقات میں سے پیدا فرما کر انسان کو اپنا خلیفہ بنایا اور دنیا میں اتارا ،تا کہ وہ زمین پر اللہ کے احکامات پر خود بھی عمل کرے اور بساط کے مطابق دوسروں کو بھی تاکید کرے۔
میرا دامن تو اس سے بھی خالی تھا۔ علم و دانش، شعور وآگاہی، حکمت و دانائی سے نابلد چلتا ہی جارہا تھا۔پھر رب کریم نے دین کی محبت سے نوازا لیکن ناقدری اب بھی غالب رہی۔گزشتہ ز ندگی کے آثا ر اس قدر گہرے تھے کہ زندگی منفی سرگرمیوں میں ہی الجھی رہی۔ سوچ، فکر منفی جو کہ دین کے بھی منافی ہے۔موئے موبائل سے دوستی تو کافی بچپن سے ہو چکی تھے۔اس کے منفی کارنامے بھی سر چڑھ کر بول رہے تھے۔زمانے نے ترقی کی اور انڈورائیڈ موبائل کی صورت میں بڑی بڑی اسکرینیں ہاتھ میں آئیں تو منفی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہو گیا۔کوئی مثبت پہلو تو تھا نہیں سومنفی پہلو ہی پروان چڑھتا گیا۔ اب سوشل میڈیا بھی میسر تھا، قدم قدم پر سنگ ریزے بکھرے ملتے رہے مگر میں غفلت وبے حسی کی چادر تانے چلتا ہی رہا۔دامن حیات حقوق اللہ کی ادائیگی سے تو خالی تھا حقوق العباد سے بھی خالی تھا۔ناامیدی اب تک غالب رہی۔سوچ سوچ کر جو نقطہ ہاتھ لگتا وہ بھی منفی۔ دامن میں کوئی کرتب یعنی فن تو تھا نہیں جو استعمال میں لایا جاتا۔ اسی ذہنی ، فکری پسماندگی کے عالم میں وہ میری زندگی میں فرشتہ رحمت بن کر آئے۔
مگر وہ اس طبقہ سے تعلق رکھتے تھے جس سے میں الرجک تھا۔یہ الگ بات ہے کہ تب تک میں بھی خدا تعالیٰ کی مرضی سے اسی طبقہ سے منسلک ہو چکا تھا۔ خیر! انہوں نے بہت اپنائیت سے لیا، محسوس تک نہ ہونے دیا کہ میں کوئی انجان ہوں، یا کون ہوں۔ وگرنہ تو دنیا سے میں چلا چلا کر کہہ چکا تھا کہ’’کل ہم اور طرح کے تھے ، اب ہیں اور طرح کے‘‘ مگر مجال کی کسی کے کان پر جوں تک رینگتی ہو۔ بس !میں تو حرف غلط قرار دیا جا چکا تھا۔اور دنیاوی ضابطہ کے مطا بق د نیا والے معاف نہیں کرتے۔بلکہ تحقیر کرتے ہیں، مذاق اڑاتے ہیں۔وہ اگر کسی راہ راست پر آتا دیکھتے ہیں تب بھی ان کے پیٹ میں مروڑ اٹھتا ہے ، اور وہ اسے دکھاوا اور دھوکہ سے ہی تعبیر کرتے ہیں۔مزید نمک پاشی کرتے ہوئے کہتے ہیں : ہونہہ!’’ سو چوہے کھا کے بلی حج کو چلی‘‘۔ایسے میں بندہ کہتا ہے زمین پھٹی کیوں نہیں اور میں دھنسا کیوں نہیں۔
مگر یہاں ایسا نہیں تھا۔ ان کے سر پر انبیاء کی وراثت کا تاج تھا ۔(علماء انبیاء کے وارث ہیں) جس کی انہوں نے خوب لاج رکھی۔مجھے ڈر تھا کہ اب دھتکارا اور کب دھتکارا۔ ساتھ ہی دل و دماغ پر ایک ہالا سا یہ بھی چھایا ہوا تھا کہ یہ بھی نفرت نہ کرنے لگ جائیں۔یا انہوں نے پوچھ لیا ۔ کیا کمایا؟ کیا بنایا؟ دامن میں پھول ہیں یا کانٹے ؟ تو شرمندگی اٹھا نی پڑے گی۔ مگر نہ تو انہوں نے طنز کیا، نہ برا بھلا کہا، نہ دھتکارا،نہ ہی کوئی فتویٰ الاپا۔ بلکہ امید دلائی کہ اب تک جو ہوا سو ہوا ۔ اب وقت کو ضائع نہ کرو اور خود میں صلاحیتیں پیدا کرو۔ مثبت سرگرمیوں کو پروان چڑھاؤ۔یعنی انہوں نے کشادہ دلی سے خوش آمدید کہا اور زندگی کو مثبت ڈگر پر ڈالنے کی سعی کی۔غلط سے غلط انسان کے لیے بھی اصلاح کا واحد راستہ ’’محبت‘‘ ہے۔ تنقید اور تلخی چاہے کتنی حق پر کیوں نہ ہو، اصلاح کے لیے کارگر ثابت نہیں ہو سکتی۔
اب اپنی اصلاح کے ساتھ جب جب مثبت سرگرمیوں میں نام آتا ہے تو دل بے ساختہ شکر خداوندی بجا لاتا ہے ۔ کہ دنیا میں اللہ پاک کے ایسے بندے موجود ہیں جو ناامیدی ختم کر کے امید کے چراغ روشن کرتے ہیں۔ جو بتاتے ہیں کہ تم جیت سکتے ہو، تم ستاروں پر کمند ڈال سکتے ہو، تم دنیا کو مسخر کر سکتے ہو۔ تم خدا تعالیٰ کی تمہارے لیے مسخر کی ہوئی چیزوں کو اچھے سے استعمال میں لا سکتے ہو۔ جو منزلوں کے تعین میں مدد کرتے ہیں۔جو حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہیں۔ آپ کی نظر میں اگر کوئی بھٹکا ہوا مسافر ہے تو ازراہ کرم اس کی رہنمائی فرمائیں۔ اسے مثبت سرگرمیوں میں لگائیں، اس کے ساتھ تعاون کریں۔ تنقید برائے تنقید اور تلخیوں سے بچیں۔ یقینااخروی نجات کا سبب ہوگا۔
میں بھی متاع بے بہا سے تہی دست ، ادو اشغال سے تنگ اور خاموشی کے لبادے میں گھات کھا رہا تھا۔پھر انہوں نے غفلتوں کی خاکستر میں دبی ہوئی چنگاری کو فروزاں کیا ، سوئی ہوئی امنگ کو بیدار کیا اور بتا دیاکہ: اگر تم دل گرفتہ ہو، کہ تم کو ہار جانا ہے، اگر خاطر شکستہ ہو کہ ،تم کچھ کر نہیں سکتے، یقیناً کر نہ پاؤ گے، یقیں سے عار ی ہو کر، منزلوں کی سمت چلنے سے، کبھی منزل نہیں ملتی، کبھی پتھر کے جتنے حوصلے والوں سے، بھاری سل نہیں ہلتی، زمانے میں ہمیشہ کامیابی، ان کے حصے میں ہی آتی ہے، جو اول دن سے اپنے ساتھ ، اک عزم مصمم لے کے چلتے ہیں،کہ جن کے دل میں عزم و حوصلہ اک ساتھ پلتے ہیں، اگر تم چاہتے ہوکامیاب و کامراں ہونا، تو بس رخت سفر میں، تم یقین و عزم کی مشعل جلا رکھنا، سفر دشوار تر ہو، تب بھی ہمت و حوصلہ رکھنا،سفر آغاز جب کرنا، تو بس اتنا سمجھ لینا، جہاں میں کامیابی کی ، یقیں والوں سے یاری ہے،اگر تم بھی یقیں رکھو، تو پھر منزل تمہار ی ہے۔

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں