’’خربوزوں کی چوکیداری ‘‘

سانحہ قصورکے محرکات کی متلاشی اس قوم کو کیا کہیں۔ہر ایک نے اپنے تئیں اندازے لگا کر قاتل کوقرار واقعی سزا دینے کی آواز اٹھائی۔اچھا ہے قوم کو دیر سے ہی سہی ،مگر کچھ توانصاف مانگنے کاخیال آیا۔لیکن ساتھ ہی کئی طرح کی باتیں سامنے آرہی ہیں ،جو کہ دل دوز واقعے کے نشانات مٹاکر پھر سے مجرموں کو کھلا سانڈھ بنادیں گی۔سب نے اپنی اپنی لالٹینیں پکڑیں اور مدھم روشنی میں قیامت کی علامات دھونڈنے نکل کھڑے ہوئے۔قیامت تو زینب کے گھر والوں پہ ،والدین پہ گزر گئی۔اولاد نعمت ہے،اس سے کون واقف نہیں ۔یہ آپ بھی جانتے ہیں اور زینب کے والدین بھی ۔پھر کیا وجہ ہے کہ کوئی جنسی تعلیم ناگزیر گردانتا ہے، کسی کو آگہی کا شوشا چھوڑنا ہے،تو کسی نے نصاب تعلیم میں تبدیلی کانعرہ لگا رکھا ہے۔لبرل کو ایک اور دریا مل گیا ہے وہ اپنے ڈول بھر بھر کر کیچڑ اچھالیں گے اور اس واقعے سے کس کس طرح کے نتائج اخذ کریں گے اورکررہے ہیں ،یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں۔
جب سب کا اپنا پانچ کلو کا بٹا ہے تو ، میرے بھائی جمہوریت اور قانون کوتو کھڈے لائن لگادینا چاہیے۔جناب سراج الحق صاحب کی تقریر نے ہر آنکھ کو اشک بار کردیا تھا۔متاثرہ خاندان سے ملاقات میں درد دل سے کہا : ’’ یہ ملک اقتداریوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔غریب کا توکوئی پرسان حال نہیں۔انہوں نے وزیر اعظم کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ جمہوری ملک کے سربراہ کو چاہیے تھا کہ وہ خود یہاں آتے ، یہاں ہی پڑاؤ لگاتے، اور خاندان والوں سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے مجرموں کو گرفتار کراکر اپنی نگرانی میں سزا دلواتے۔اپنے حسن ظن میں مشہور میاں شہباز شریف صاحب منہ اندھیرے آئے ، دعائیں دی،تسلیوں کی گردانیں پڑھیں، اور یہ جا وہ جا۔مجرم کو پتا نہیں زمین نگل گئی ، یا آسمان کھا گیا۔انصاف غریب کے لیے ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔اگر یہ سانحہ کسی ایوان اقدار کے بچوں کے ساتھ پیش آتا تو دیکھتے آپ ، ملک کا پہیہ جام ہوجاتا۔انتظامیہ کی کرسیاں کھسکتی محسوس ہو تیں، ادارے ہائی الرٹ ہوجاتے اور بڑے بڑے مگر مچھ تالابوں سے باہر نکل آتے ۔لیکن قصور جیسے شہر جہاں12 معصوم بچیوں کو درندگی کانشانہ بنایا گیا ، تو حکمرانوں کے کانوں جوں تک نہ رینگی۔اس لیے زینب کے والدنے کہا :’’غریب تو سب کیڑے مکوڑے ہیں اور قانون بنا ہی اشرافیہ کی خدمت کے لیے ہے۔‘‘
انتہائی دکھ کی بات ہے کہ سارے سیاسی رہنما ایسے دل دوز سانحات کے بعد اپنے سیاسی بیان بازی سے لواحقین کو مزید کرب میں مبتلا کرتے ہیں۔اس پر مستزاد کہ غیر فعال افسران کی طرف سے بھی جو زبان استعمال کی جاتی ہے ، وہ زخموں پہ نمک چھڑکنے کے مترادف ہوتی ہے۔کیا سیاسی رہنماؤں کو ملک کے نظام آئین ، نظام عدل و قانون کا علم نہیں۔یا پھر ہم یہ سمجھ لیں کہ ایک کے بعدایک 12 معصوم و بے گناہ لاشوں پہ حکومت دھماچوکڑی مچا رہی ہے۔سانحہ قصور ہمیں کئی رخ دے گیا ۔بہت درددل سے سرکو شرم سے جھکا لیتا ہوں، جب ننھی زینب پہ گزرا وقت یاد آتا ہے ۔رونگٹے کھڑے کردینے والے وہ لمحات ، ذرا حکمران چشم تصور سے اپنی اولاد کے ساتھ محسوس کریں ۔کیجہ منہ کو آنے لگے گا۔
زینب کے والدین اپنی ننھی پری کی جدائی کے غم سے نہیں نکل پائے۔اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ حکومت وقت سے انصاف ملنے کی کوئی امید لگا کر بیٹھے ہوں گے۔ان کے جگرکا ٹکڑا تو جنت کے محلات میں ہوگا ،لیکن لمحہ فکریہ حکومت ،ایوان اقتدار کے شیروں اور سیاسی بیان بازی میں خود سر اور بااثر لیڈروں کے لیے ہے،کہ ملزم ابھی تک ان کے ہاتھ سے کوسوں دورہے۔ ہر شہری کو کئی طرح کے مسائل کاشکار کردیا گیا۔ سیاست دان میڈیا ،الغرض ہر ایک نے عوام کو ایسی لال لائٹ کے یچھے لگا دیا ہے، جس کی کوئی حقیقت نہیں۔اور اصل امتحان جس میں یہ پوری قوم جکڑی ہوئی ہے ، اس سے نہ کسی حکمران کو سروکار ہے، اور نہ عوامی سوچ میں اس کا کوئی مثبت رد عمل نظر آتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جرائم نئے منہ لے کر پید اہوجاتے ہیں اور مجرم سنگین نوعیت کی وارداتیں کر کے بھی آزاد گھومتے ہیں۔یہ ہمارے ناقص قانون ، تفتیشی عمل کی ناکامی، اور پیچیدہ عدالتی نظام کے لیے آئینہ نہیں تو اور کیا ہے۔
ہمارے معاشرے میں سخت سزاؤوں کا فقدان ہے۔کیوں کہ ہم خدا رسول کے نہیں ، امریکہ ویورپ کے جواب دہ ہیں ۔اگر قاتل کو پھانسی دے کر اسی کوڑا کرکٹ میں پھینک دیا جائے تو ہماری تہذیب کو بے بہرا ہونے کا طعنہ ملے گا اور ہمارے حکمران یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایساکیا تو وہ قدامت پسند کہلائیں گے ۔انسانی حقوق سے نابلد وعہد حاضر کے تقاضوں سے ناآشنا قرار دیئے جائیں گے۔ہم نے خود ہی خربوزوں کی چوکیداری کے لیے گیدڑ بیٹھا رکھے ہیں ۔اور جب تک ہم باڑ لگا کر خربوزوں کی حفاظت کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھاتے ،سانحہ قصور جیسے واقعات رکنے والے نہیں۔ تادم تحریرراجن پور سے اطلاعات موصول ہوئیں کہ ایک بچی کی زیادتی شدہ لاش ملی ہے۔

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں