اپنے بچوں کو بریکنگ نیوز پر چلنے والی خبروں سے بچائیں

آپ گڈ ٹچ یا بیڈ ٹچ کے قصے چھیڑیں نہ چھیڑیں سیکس ایجوکیشن کو نصاب کا حصہ بنانے پر اتفاق کریں یا مخالفت،مگر بچوں کو بریکنگ نیوز میں چلنے والی بچوں کے جنسی زیادتی و قتل پر مبنی خبروں سے ضرور بچائیں،یہ آگاہی اہم نہیں ہے ۔۔۔مگر ہمارے لیے زیادہ اہم ہمارے بچوں کی ذہنی صحت ضرور ہونی چاہیے۔
ہمارے لئے یہ جاننا ازحد ضروری ہے کہ جو بچے ہمارے اردگرد موجود ہیں، جو زندہ ہیں، جو ابھی سانس لے رہے ہیں کہیں ہم انھیں ہاتھ پکڑ کر خود ساختہ ڈر والے ماحول میں تو نہیں لے کر جا رہے؟
اف اللہ… ہائے… دیکھو تو بچوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ جیسی خوفزدہ باتوں اور سراسیمہ چہروں سے ہم اپنے بچوں کے اعصاب پر کتنا بوجھ ڈال رہے ہیں… اس کا اندازہ بھی ہے آپ کو؟
یہ ننھی جانیں جو قصور واقعہ کی شدت سے مکمل طور پر آگاہ نہیں، مگر بار بار چلتے بریکنگ نیوز، ہمارے بولتے چہرے اور تبصروں سے اندر ہی اندر کس قدر اپنے تحفظ کو لے کر پریشان ہیں اور اس قدر خوفزدہ سے ہو گئے ہیں کہ ذرا سی آہٹ پر تیزی سے بھاگتے ہوئے ماں کی گود میں چھپتے ہیں، اکیلے چھت پر نہیں جا پاتے، لائٹ جانے پر بجائے ایمرجنسی لائٹ لگائیں، وہ سہم سے جاتے ہیں، گویا ہمارے رویوں کی بدولت وہ گھر جیسے محفوظ مقام پر بھی ڈرنے لگے ہیں۔
پہلے تو ہم بڑوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں، نہ ہی آخری ہے… یہ ہمارے سماج میں ہونے والے بم دھماکوں، دہشت گردی، قتل و غارت گری کے واقعات کی طرح کی ہی ایک قسم ہے جو پوری آب وتاب کے ساتھ ہمارے سماج میں موجود ہے بلکہ وقتاً فوقتاً اس کی بازگشت ہمیں بدقسمتی سے سنائی دی جاتی رہے گی۔
ہمارے سماج میں یہ باقی برائیوں کی طرح ہی ایک برائی ہے اور جہاں ہم نے بچوں کو اکیلے باہر جانے سے روکنا ہے وہاں انھیں اس خوف سے باہر بھی ہم نے ہی نکالنا ہے … اور یہ بہت ضروری ہے کیونکہ معاشرے میں ایک بزدل خوفزدہ فرد کا آسانی سے جینا بہت مشکل ہے اس طرح کے بچے بڑے ہو کر معاشرتی عدم مطابقت کا شکار ہو کر معاشرے کا مفید رکن نہیں بن سکتے،نہ ہی سر اٹھا کر جی سکتے ہیں،نہ ہی خود کو تحفظ دے سکتے ہیں نہ اپنے سے وابسطہ رشتوں کی حفاظت کر سکتے ہیں ۔
ہم اپنے ہاتھوں اپنی نسل کو خوف بانٹ رہے ہیں سماجی تشدد زدہ واقعات کی خبریں اور نت نئی اصلاحات (زیادتی، ریپ، نچی ہوئی لاش، کٹی کلائیاں، بے دردی سے تیز دھار آلے سے شہ رگ کاٹنا) جیسی آگاہی میڈیا کے ساتھ ساتھ ہم خود بھی دے رہے ہیں اور مکمل تفصیل کے ساتھ، بار بار اس خبر کا اعادہ بھی کر رہے ہیں جو ہمارے بچوں کے کچے ازہان کے کینوس پر بدترین نقوش کندہ کرنے میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
ہم کیوں ادراک نہیں کرتے کہ ہمارے یہ معصوم ذہن بریکنگ نیوز سے اٹھنے والی دہشت کا شعوری طور پر مقابلہ کرنے کے لیے ابھی نابالغ ہیں،ان کا مستقل اور مسلسل خوف میں مبتلا رہنے سے ان کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ جائے گی اور اگر خوف مسلط کر دیا جائے تو یہ بچے کی زندگی پر انتہائی مہلک اور منفی اثرات ڈالے گی۔
خدارا گھر میں چلنے والی ایسی بریکنگ نیوز کے مقابل اپنے ذہنی نشوونما کے مدارج طے کرنے والوں نونہالوں کو کھڑا مت کریں ان کی عمر ابھی اتنی نہیں کہ ایسے سانحات کو برداشت کرنے کی اہلیت رکھیں۔
اپنے گھر کے ماحول کو پرسکون اور خوشگوار بنائیں، نیوز ایک بار سن لی تو کوشش کیجئے کہ بار بار ان کا اعادہنہ ہو بلکہ کوشش کیجئے کہ ایسی خبر آنے پر چینل تبدیل کر دیں۔
نیوز پر تبصرہ ان کے سامنے مت کیجیے آپ کو لگتا ہے کہ بچے کھیل رہے ہیں مگر درحقیقت ان کا سارا دھیان آپ کی باتوں پر ہے۔
ہر عمر کے اپنے تقاضے ہیں، کوشش کیجئے کہ ایج کے مطابق ڈھکے چھپے الفاظ میں بچوں کو اپنے تحفظ کے سلسلے میں آگاہی دیجیے مگر انداز پرسکون رکھیے بہت ہیجان انگیزی میں ان سے ڈسکس نہ کریں بلکہ زیادہ اہم یہ ہے کہ انھیں احساس دلائیں کہ آپ ان کے ساتھ ہیں اور انھیں کسی سے ڈرنے یا خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں آپ کا یقینی ساتھ اور خوف سے لڑنے کی ترغیب انھیں جسمانی، ذہنی، معاشرتی نشوونما میں اہم کردار ادا کرنے میں معاون ثابت ہوگی ۔

حصہ
سائرہ فاروق ایم ایس سی کی طالب علم ہیں اور مختلف سماجی مسائل پر لکھتی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں