اردو ایک لطیف زبان ہے ۔ اس کی شیرینی اور پیرائے اظہار کی نزاکت ہی اس کی مقبولیت کا سب سے اہم راز ہے۔ اردو کا لہجہ جہاں پیار و محبت سے دھلاہے وہیںیہ حسن و عشق کے سوز و گداز سے مزین بھی ہے۔اردو کی سرشت میں مختلف تہذیبوں، فرقوں، زبانوں کی آمیزش ، اختلاط اور میل جول شامل ہے۔اس کے خمیر میں اتحاد و یکجہتی اور رواداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔تقسیم ہند کے بعد اردو کو ہندوستان میں وہ مقام حاصل نہیں ہوسکا جس کی وہ مستحق تھی۔ لیکن یہ ایک سچائی ہے کہ گلزار جہاں آج بھی اردو کی خوشبو سے معطر ہے۔اردو ایک زبان کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک زندہ چلتی پھرتی تہذیب کا نام ہے۔ اسے بدقسمتی سے ہندوستان میں قومی زبان کا درجہ نہیں دیا گیا لیکن اس کے باوجود گفت و شنید اور بول چال میں آج بھی اسے قومی زبان کا درجہ حاصل ہے۔ اسی لئے اگر اسے قومی تہذیب و تمدن اور شائستگی کا نام دیا جائے تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔مادری زبان کی تعلیم کے ذریعہ بچہ سماجی طرز فکر کو سمجھنے کی کوشش کر تا ہے۔درحقیقت ہم بچوں کو زبان نہیں پڑھاتے ہیں بلکہ انھیں سماجیات کی تعلیم فراہم کرتے ہیں۔بچے اپنے گھروں سے جذبہ عزت و احترام ،تعظیم و تکریم کی روایات حاصل کرتے ہیں۔بچوں میں پرورش پانے والا یہ جذبہ احترام سماجی شراکت داری کے فروغ کا باعث بنتا ہے اور اجتماعی کلچر و ثقافت کی بنیادیں بھی اسی جذبے کے تحت وجود میں آتی ہیں۔ہمیں اپنے ذہنوں سے اس بات کو اکھاڑ پھینکناچاہئے کہ ہم یا ہمارے بچے اردو نہیں جانتے ہیں۔حقیقتاًہم سب اردو جانتے ہیں نہ صرف اردو مادری زبان والے اردو جانتے ہیں بلکہ ہندوستان کی ایک کثیر ی آبادی آج بھی اردو بولتی اور جانتی ہے۔مگر یہ بھی ہماری بد بختی ہے کہ ہم نے صرف اسے فطری طور پر بولنے کی حد تک محدود کر رکھا ہے۔ہم کیا تقریباً تمام ہندوستانی اپنے روز مرہ کے کام اردو زبان ہی میں انجام دیتے ہیں۔ اسے تجاہل عارفانہ کہئے کہ مجرمانہ غفلت یا پھر کور چشمی، ہم جس زبان کو ہندوستانی کہتے ہیں وہ اردو نہیں تو اور کیا ہے۔ ملک کے سبھی علاقوں کی بول چال کی زبان بلالحاظ مذہب ،رنگ و نسل اور ذات پات آج بھی ہندوستانی ہے۔اس ہندوستانی زبان نے آج ملک کے تقریباً ایک سو پچاس کروڑ عوام جو الگ الگ زبانیں بولتے ہیں کو ایک دوسرے سے جوڑکررکھاہے۔تعصب ،تنگ نظری یا پھر کسی وجہ سے ہم جسے ہندوستانی کا نام دے رہے ہیں وہ ہندوستانی کیا ہے؟ایسے متعصب ذہنوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اردو دراصل اسی ہندوستانی بول چال کی معیار ی شکل کا نام ہے۔اردو آج بھی بول چال کی شکل میں ہمارے معاشرے کے قریب بلکہ اس میں رچی بسی ہوئی ہے۔یہ اردو کا حسن اور اس کی کشادہ دامنی ہے کہ یہ عصری اور فطری رجحانات کو بلامزاحمت اپنے میں جذب کرنے کا خوب ظرف رکھتی ہے۔آج بھی ملک کے سبھی علاقے اردو کے ہیں ۔آج جو علاقے ہندی کے کہلاتے ہیں وہ اب بھی اردو کے ہی ہیں کیونکہ آج بھی ان علاقوں میں وہی زبان بولی جاتی ہے جو پہلے بولی جاتی تھی۔مختصراً کہا جاسکتا ہے کہ جو ہندی کا علاقہ ہے وہی اردو کا علاقہ ہے۔ ہندی سے مراد ہرگز اس جدید ہندی سے نہ لیا جائیجسے گزشتہ سات دہائیوں سے سرکاری طور پر رابطے کی زبان کے طور پر فروغ دینے کی ناکام کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس کے باوجود اس جدید ہندی کا کوئی علاقہ آج تک معروض وجود میں نہیں آسکااور نہ ہی یہ آج تک لاکھ کوششوں کے باوجودکسی علاقے کی بول چال کی زبان کا درجہ حاصل کر سکی ہے۔زبان کوروزمرہ کے کام کاج تک محدود رکھنا ہی کافی نہیں ہو تاہے۔ بول چال کے علاوہ اس کا لکھنا پڑھنا بھی زبان والوں کے لئے بے حد ضروری ہوتا ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جن کی یہ مادری زبان ہوتی ہے۔یہ ہمارا معاشرتی المیہ ہے کہ ہم اردو بول سکتے ہیں لیکن اس کے لکھنے اور پڑھنے سے معذور ہیں۔انگریزی پڑھ اور لکھ سکتے ہیں لیکن اس کے فہم سے ناآشنا ہیں۔ حالانکہ اردو لکھنا اور پڑھنا کوئی خاصہ مشکل کام نہیں ہے۔ یہ انتہائی آسان اور سہل کام ہے خاص طور پر ہم اردو مادری زبان والوں کے لئے تو یہ اور بھی آسان کام ہے۔کیونکہ ہم سبھی اردو زبان جانتے ہیں ہمیں زبان سیکھنا نہیں ہے بلکہ صرف اردو لکھنا اور پڑھنا سیکھنا ہے۔اپنے تدریسی تجربات کی روشنی میں یہ بات میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ روزانہ ایک گھنٹہ ایک مہینے کی مشق کے ذریعے آسانی سے اردو لکھنا ،پڑھنا سیکھا جاسکتا ہے اور تین ما ہ میں ہم زبان میں اچھی خاصی مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔اس مضمون کے ذریعہ حالات مسائل اور وسائل کا رونارونے کے بجائے اردو کے فروغ میں معاون اسباب و علل پر روشنی ڈالی گئی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر ہم اردو کی عظمت رفتہ کو بحال کرسکتے ہیں۔
زبانیں سرکاری سرپرستی اور تحفظ کی محتاج نہیں ہوتیں؛۔
زبان ،کلچر اور ثقافت کا تحفظ ہمارا اپنا فریضہ ہوتا ہے ۔اپنے فرائض سے پہلو تہی کرتے ہوئے حکومتوں اور سیاستدانوں سے سرپرستی اور تحفظ کی توقع کرنا گویا خود زبان کا گلہ گھونٹنے کے مترادف ہے۔جب ہم خود اپنے کلچر اور زبان کی حفاظت نہیں کرسکتے ہیں تو کسی اور سے اس کی توقع ایک حماقت نہیں تو کیا ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اردو کو لسانی جبر اور تہذیبی مخاصمت کا گزشتہ ستر سالوں سے سامنا کرنا پڑرہاہے جس کی وجہ سے ایک ثقافتی اور ترسیلی خلا پیدا ہوگیاہے۔لسانی اور تہذیبی جبر و تعصب کی وجہ سے ایک ایسی زبان کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی جس کی لفظیات ثقیل ، تلفظ غیر معیاری اور جو معاشرے کے لئے اجنبی ہے۔اردو والے اپنی زبان کے تحفظ کے لئے سیاسی اور سرکاری سرپرستی اور تحفظ پر تکیہ نہ کرتے ہوئے اس کے فروغ کے لئے خو د کمر بستہ ہوجائیں۔اردو والے انفرادی طور پر بیدار ہوجائیں تو ایک انقلابی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے۔اس تبدیلی کا آغاز ہم کو اپنے گھر وں سے کرنا ہوگا۔جب تک ہم اپنے بچوں اور گھر والوں کو اردو لکھنے پڑھنے کے لائق نہیں بنائیں گے تب تک اردو کے روشن مستقبل کی سب تدبیریں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ہمیں انفرادی طور پر اردو کے استعمال کو لازمی کرنا ہوگا۔جب تک ہم انفرادی طور پر اردو کے استعمال کو لازمی نہیں کریں گے اردو کا تحفظ اور فروغ ممکن نہیں ہے۔آج ہماری مادری زبان جب ہمارا مسئلہ نہیں رہی تو پھر کیسے یہ ہمارے بچوں کا مسئلہ رہے گی۔بچے اردوکوایک بے کار اور اضافی چیز تصور کر رہے ہیں اور یہ فکر ونظریہ ہم نے اپنے فکر و عمل سے بچوں کو ورثے میں دیا ہے۔زبان و ادب جب ہمارے لئے ناکارہ ہیں تو پھر بچوں کے لئے بھی یہ بے کار اور مضحکہ خیز ہی ثابت ہوں گے۔چلئے اردو کا ذکر چھوڑیئے میں پوچھتا ہوں کہ ہم میں سے کتنوں کو انگریزی آتی ہے۔کیا آپ نے چار الفاظ کی ترتیب کو زبان آشنائی کا نام تو نہیں دے دیا ہے۔آج اردو سے ناآشنائی کو فخریہ طور پر پیش کرنے کا ایک غلط رویہ عام ہوگیا ہے۔بچے تو بچے بڑے بزرگ اور نام نہاد دانشوران قوم و ملت بھی اردو سے لاعلمی پر شرمسار ہونے کے بجائے اپنی جہالت کو فخریہ اندا ز میں پیش کر رہے ہیں۔یہ مزاج اردو کے بڑے ادبا ،شعرا اورسیاستدانوں اور دانشوروں کے گھرانوں میں بہت زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔اس ضمن میں ایک واقعہ بیان کر رہاہوں جو اردو والوں کے لئے تازیانہ عبرت سے کم نہیں ہوگا ۔فیض احمد فیض اردو کے ایک نامور ،ممتاز اور صاحب طراز شاعر گزر رہے ہیں۔شاید ہی کوئی اردو کا طالب علم ایسا نہ ہوگا جو فیض احمد فیض کی شاعرانہ عظمت سے واقف نہ ہو۔فیض صاحب کی چھوٹی صاحبزادی منیزہ جو فیض صاحب کی یاد میں منعقدہ محفل میں شریک و مدعوتھیں۔فیض کے شاعری اور ان کی عظمت پر اظہار خیال کے لئے جب انھیں مدعو کیا گیا تو وہ فخریہ انداز میں کہنے لگیں کہ میری اردو بہت کمزور ہے۔مصنوعی پن سے کہا کہ وہ انگریزی جانتی ہے پھر بھی وہ اردو میں بات کرنے کی کوشش کریں گے۔اسٹیج پر آنے کے بعد محترمہ منیزہ کے اس جملے کا جواب عارفہ سیدہ نے یوں دیا کہ’’فیض صاحب جو زبان لکھ کر اور بول کر دنیا میں تہذیب یافتہ کہلائے،آج وہی زبان نہ لکھ کر اور نہ بول کر ان کی بیٹی تہذیب یافتہ کہلارہی ہیں۔‘‘یہ بات بڑی تشویش نا ک ہے کہ آج ہمارے بچے بھی اردو سے لاعلمی کو فخریہ طور پر پیش کررہے ہیں۔کیا اس بات کے لئے والدین کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہ ہوگا؟زبان بچوں کے لئے والدین کا ایک عظیم تحفہ ہوتا ہے۔جو والدین اپنے بچوں کو ان کی مادری زبان تحفے میں نہیں دے سکتے ہیں وہ اپنی تہذیب اور ثقافت کو کس طر ح ان تک منتقل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔مادری زبان کی عدم فراہمی سے بچوں میں سطحی پن اور فکر بنجر پن لازمی طور پر پیدا ہوگا۔مادری زبان سے لاعلمی قد�آور بونوں کی کثرت کا سبب بنے گی۔ستھری زبان اور سلیس لہجہ و تلفظ سیکھنے کے لئے عرب اپنے نومولود بچوں کو دائیوں کے حوالے کردیتے تھے۔نبی اکرم ﷺ کو بھی ولادت کے فوری بعد حضرت دائی حلیمہ کے گھر بھیج دیا گیا۔اس واقعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ والدین اپنی مادری زبان بچوں کو بہتر انداز میں سکھانے کا التزام کریں۔ماں باپ اپنے بچوں کو اپنی ثقافت (کلچر) اور زبان ورثے میں دیتے ہیں ۔ اس لئے والدین خود اپنی زبان کی حفاظت کریں تاکہ بچوں کے لئے روشن مثال بن سکیں۔زبان گھر سے سیکھی جاتی ہے۔مادری زبان دانی کا اولین مدرسہ والدین ہوتے ہیں۔اردو زبان و ثقافت کے تحفظ میں فکر مند سیاستدان،دانشوران ،ادیب ،شعرا،اساتذہ جو مشرقی روایات اور اردوکے فروغ اور اس کے احیاء کی باتیں کرتے ہیں انھیں خود احتسابی کی سخت ضرورت ہے جو اس بات کو فراموش کر بیٹھیں ہیں۔
زبان کا استعمال؛۔زبان کی اہمیت اس کے استعمال سے قائم و برقرار رہتی ہے ۔ہمیں اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ کوئی زبان کسی بھی زبان سے بہتر نہیں ہوتی ہے۔ہم اردو کی تباہی کا واویلا تو مچاتے رہتے ہیں اور اس کی تباہی اور پسماندگی کے اسبا ب کا بھی سراغ لگانے میں کامیاب ہوچکے ہیں لیکن مقامی سطح پر پائے جانے والے مسائل میں سے ایک کو بھی آج تک حل نہیں کر پائے ہیں۔معاشرے میں اردو کو رابطے کی زبان کے طور پر رواج دینے کی سخت ضرورت ہے۔ریاست آندھرا پردیش ،تلنگانہ اور جہاں کہیں اردو کو دوسری زبان کا درجہ فراہم کیا گیا ہے وہاں اپنے تمام دفتری امور اردو زبان میں انجام دیں۔اردو کے استعمال کو کسر شان تصور نہ کریں۔ جہاں تک ممکن ہو اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لئے اردو زبان کا استعمال کریں۔اسکول دفاتر،عدالتوں،بینکوں،کچہریوں اور دیگر سرکاری،نیم سرکاری اور خانگی دفاترمیں اردو زبان کو استعمال کریں۔اپنی عرضیاں اور درخواستیں اردو زبان میں پیش کریں۔آپ کی سعی اور کاوش یہی ہونی چاہئے کہ آنے والی نسلوں میں اردو زبان سے لگاوٹ ،محبت اور الفت کو فروغ دیں۔اسکولوں میں اردو کی تدریس کو معیار ی بنائیں۔بچوں کو اگر چہ کہ غیر اردو میڈیم مدارس میں تعلیم فراہم کر رہے ہوں تب بھی ایک زبان کی حیثیت سے اردو کو بہر صورت اور لازمی طور پر اختیار کریں۔اردو اگر آپ کی مادری زبان ہے تو اپنی زبان کی حفاظت بھی آپ ہی کی ذمہ داری ہے۔اپنے فرائض سے پہلوتہی کرتے ہوئے اغیار سے اس کے تحفظ اور فروغ کی ہرگز توقع نہ کریں۔اردو میڈیم مدارس میں کام انجام دینے والے اساتذہ اپنے تمام رجسٹرس اور اپنی تمام کوائف کو اردو میں تحریر کریں۔ ریاست تلنگانہ میں تمام دفتری امور کی انجام دہی کے لئے تلگو یا پھر ریاست کی دوسری سرکاری زبان کے استعمال کی پابندی لگائی گئی ہے۔ اردو والے ان مراعات سے مکمل استفاد ہ کریں۔آپ کی غفلت اور لاپروائی زبان کے لئے سم قاتل ثابت ہوگی۔اپنی زبان کے استعمال پر دوسری زبان کو ہرگز ترجیح نہ دیں۔اس ضمن میں چین کے صدر ماوزئے تنگ کا ایک واقعہ ہماری آنکھیں کھول دینے کے لئے ضروری ہے۔ماوزئے تنگ چینی کے علاوہ انگریزی کے بھی عالم تھے۔اس کے باوجود وہ اپنے تمام بیرون اسفار اور اندرون ملک صرف چینی زبان کو ہی استعمال کرتے تھے۔حتی کہ جب ان کو انگریزی میں لطیفہ سنایا جاتا وہ اس وقت تک نہیں ہنستے تھے جب تک کہ اس کا چینی میں ترجمہ پیش نہیں کیا جاتا۔انھوں نے انگریزی زبان پر مکمل عبور رکھنے کے باوجود کبھی بھی چینی پر انگریزی کو ترجیح نہیں دی۔ایک مرتبہ اخبار کے نمائندے نے ان سے سوال کیا کہ وہ بہترین انگریزی جاننے کے باوجود بھی صرف چینی میں ہی کیوں گفتگو کرنا پسند کرتے ہیں۔ماوزئے تنگ کا جواب ہمارے لئے ایک بہترین مثال ثابت ہوسکتا ہے۔ انھوں نے اخباری نمائندے کو جواب دیا کہ ’’میں دنیا کو بتانا چاہتا ہوں کہ چینی عوام گونگے نہیں ہیں۔‘‘آج ہمیں بھی اپنی مادری زبان اردو کے استعمال کے ذریعے دنیا کو بتانا چاہئے کہ اردو والے گونگے نہیں ہیں۔
خانگی مدارس کا رویہ ؛۔اردو کی موجودہ زبوں حالی کے لئے اقلیتی خانگی مدارس کی کارکردگی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ اقلیتی خانگی مدارس جو اکثر منافع خواری کے مقصد کے تحت قائم کیے گئے ہیں نے اردو کو بحیثیت زبان اول اختیار کرنے پر اردومادری زبان والے طلبہ اور اولیا ئے طلبہ پر کبھی دباؤ نہیں بنایا ۔برخلاف اس کے ہندی کو قومی زبان قرار دے کر اس کی تدریس کو اپنے مدارس میں یقینی بنانے لگے اور حکومت کی جانب سے فراہم کردہ زبان کو اختیار کرنے کے حق کا جان بوجھ کر استعمال نہیں کیا۔مدارس میں طلبہ کی تعدا د میں اضافے کے لئے ایسے نعرے اور حربے اختیار کیے جس سے اردو کا نقصان اور زوال یقینی ہوگیا۔اگر بعض مدارس نے اردو کو بحیثیت زبان اول کی اگر جگہ بھی دے دی تب بھی اس کی تدریس کے لئے منظم منصوبہ بندی اور بہترین اساتذہ کی فراہمی میں ناکام رہے۔جس کا خمیازہ گزشتہ دو دہائیوں میں اردو کی ایک ایسی نیم تعلیم یافتہ نسل تیار ہوئی جس نے اردو لکھنے پڑھنے اور سیکھنے کو کبھی بھی درخور اعتناء نہیں سمجھا۔ شہر حیدرآباد میں تقریبا 1500تا 2000 اردو اقلیتوں کے خانگی مدارس پائے جاتے ہیں اگر ان مدارس میں اردو کو بحیثیت زبان اول اور ابتدائی تعلیم مادری زبان میں فراہم کرنے کی کوشش کی جائے تو یقیناً ہم اپنے زوال پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ اردو زبان کی عظمت رفتہ بھی بحال ہوجائے گی۔
حکومت ،اردوادارہ جات،انجمنوں کا رول؛۔زبانیں بے جان ہوتی ہیں ان سے سیاسی کھیل کسی بھی طورمناسب نہیں لگتا۔اردو کے ساتھ سیاسی تعصب و جبر پر پابندی لگنی ضروری ہے۔اردو ایک زندہ زبان ہے اور اپنی ساخت میں بین الاقوامی مزاج کی حامل ہے۔اردو کو اگر لسان الارض کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔اردو اپنے بین الاقوامی مزاج کی وجہ سے نہ تو مغرب کے لئے اجنبی ہے اور نہ مشرق کے لئے۔حکومت کی جانب سے اس کی سرپرستی نہایت ضروری ہے اس ضمن میں حکومت کی توجہ مبذول کروانے میں اردو کے ادارے انجمنیں اپنا تعاون پیش کریں۔ اپنے نام نہاد کارناموں سے توبہ کرتے ہوئے ٹھوس اقدامات کی جانب توجہ کریں۔اردو زبان میں الفاظ سازی اور اصطلاحا ت سازی کی عظیم گنجائش موجود ہے۔زبان کی ترقی کا انحصار اس کی الفاظ سازی کی گنجائش اور اسے برتنے کی قوت پر منحصر ہوتا ہے۔اردو میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ اردو زبان میں عام طور پر استعمال ہونے والے لفظوں کی تعداد تین لاکھ سے بھی متجاوز ہیں ۔اصطلاحی الفاظ اس کے علاوہ موجود ہیں۔الفاظ کا اتنا بڑا ذخیرہ انگریزی زبان کے علاوہ غالباًکسی اور زبان میں موجود نہیں ہے۔یہی صفت اس کو بین الاقوامی مزاج عطا کرتی ہے۔ اردو میں وسعت پذیر کی بے پناہ طاقت ہے۔آج غیر زبانوں کے تکنیکی ،سائنسی ،علمی اور فنی کتب کو زیادہ سے زیادہ اردو قالب میں ڈھالنے کی ضرورت ہے تاکہ زبان کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔اردو کے اداروں،انجمنوں کو چاہئے کہ وہ ضلعی اور منڈل سطحوں پر اردو ادب کے علاوہ اردو میں معلوماتی علوم(سائنسی علوم) کے ورکشاپس،سیمنارس برائے فروغ اردو ادب و سائنسی علوم اور طلبہ کے لئے انعامی مسابقے منعقد کروائیں۔نئی نسل میں اردو زبان بالخصوص سائنسی علوم کے فروغ کو اولین ترجیحات میں شامل کریں۔علم و ادب و سائنسی علوم پر منعقدہ سیمناروں،ورکشاپس اور پروگرامس میں متعلقہ موضوعات پر اردو کے پروفیسرس،دانشوروں کے علاوہ طلبہ کو بھی اپنے مقالہ جات پیش کرنے کامواقع فراہم کیاجائیں۔سرکاری رقومات کو صرف مشاعروں اور ادبی محافل کے انعقاد پر ضائع نہ کیا جائے بلکہ تعمیری ادب کی تشکیل میں ان گرانٹس کو استعمال میں لائیں۔اردو اکیڈیمی کی جانب سے اردو کے ارلی چائلڈ کئیر اسکولس اور اردو کے فاصلاتی کورسس کا آغاز کیا جائے۔دیگر زبانوں کے تکنیکی ،سائنسی ،فنی اور ادبی شہ پاروں کو اردو میں منتقل کیا جائے۔اردو اکیڈیمی اپنے آپ کو صرف اردو شعر و ادب تک محدود نہ رکھے بلکہ اردو میں معاشراتی اور سائنسی علوم کے فروغ میں اپنا سرگرم رول انجام دے۔اردو اکیڈیمیز اشاعتی زرتعاون حاصل کرنے کے لئے شائع ہونے والے کتابوں کو (جو پچیس ،تیس کی تعداد میں شائع ہوتی ہیں اور صرف اردو اکیڈیمی کے دفتر کے علاوہ کہیں دستیاب نہیں رہتیں) جنھیںGhost Publications(فریبی اشاعتیں )کہاجائے تو بیجا نہ ہوگا، پر اپنا بجٹ ضائع نہ کریں۔مشاعروں اور غیر تعمیری امور میں اردو کی گرانٹس کو ضائع ہونے سے محفوظ رکھیں۔
انٹرنیٹ پر اردو کا فروغ ؛۔فی زمانہ اور آنے والے وقتوں میں انسان کا سوفیصد ی انحصار انٹرنیٹ پر ہوگا۔اگرآج انٹرنیٹ پر مواد فراہم نہ کیا گیا تو آنے والے وقتوں میں بہت سے مسائل کا اردو والوں کو سامنا کرنا پڑے گا۔اردو کے تکنیکی ،سائنسی،فنی اور معاشرتی علوم کو انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کیا جائے۔فیس بک ،ٹوئیٹر،واٹس ایپ،سوشل میڈیا پر اردو میں لکھا جائے۔اردو میں ویب سائٹس کی تلاش (سرچ) کا کام انجام دیں۔انگلش ویب سائٹس کا اردو ورژن بھی بنایا جائے۔اردو کے بلاگز تشکیل دیئے جائیں۔
رومن اردو سے اجتناب ؛۔اردو زبان سے عدم شناسی کی وجہ سے بیشتر اردو مادری زبان والے لوگ رومن اردو کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر اپنائے ہوئے ہیں۔اس طریقہ کار سے اجتناب کی سخت ضرورت ہے۔اردو مشکل سے ایک تا تین ما ہ کے دورانیہ میں مہارت کے ساتھ سیکھی جاسکتی ہے۔ اردو سیکھنا اور لکھنا خو د پر لازم کر لیں۔پبلیشرس رومن اردو میں کتابیں نہ شائع کریں۔ان کی آج کی فراہم کردہ یہ سہولت مستقبل میں اردو کے لئے زہر قاتل ثابت ہوگی۔ کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ اکثر آسان راستہ ہی مشکل ثابت ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گا۔ایک شخص کیڑوں سے بھرا ڈبہ لیئے جنگل سے گزر رہاتھا۔ایک پرندے نے پوچھا ’’تم کہاں جارہے ہو‘‘؟آدمی نے کہا میں بازار جارہاہوں ’’اس ڈبے میں کیڑے ہیں جنہیں بیچ کر میں پرندوں کے پر خرید لاؤں گا۔‘‘پرندے نے کہا تم کیڑے مجھے دے کر میرا ایک پر لے لو‘‘آدمی نے پرندے کو کیڑے دے کر اس کا ایک پر لے لیا۔اسی طرح اگلے دن بھی آدمی نے کیڑے دے کراس سے پر لے لیا اور اسی طر ح پھر اگلے دن بھی ہوا۔آخر ایک دن ایسا آیا کہ پرندے کے پاس دینے کے لئے پر نہیں رہے۔اب وہ نہ صرف بد صورت نظرآنے لگا بلکہ اپنی پرواز کی طاقت بھی گنوا بیٹھا۔اس واقعہ سے ہم کو سبق ملتا ہے کہ پرندے نے غذا کے حصول کے لئے جو آسان طریقہ اختیار کیاتھا اصل میں وہ سب سے مشکل اور خطرناک عمل تھا۔اسی لئے اردو والے رومن اردو سے بہر صورت اجتناب کریں اور ساتھ ہی ساتھ پبلیشرس بھی اس طریقہ کار کو فروغ نہ دیں بلکہ کلی طور پر اجتناب کریں۔بہت مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم آسان راستہ ڈھونڈتے ہیں لیکن آخر میں ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہی سب سے مشکل اور خطرناک راستہ تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اردو ایک جامع زبان ہے۔لیکن اس کے تحفظ ،فروغ او راس کی اہمیت تسلیم کروانے کے لئے مذکورہ بالا نکات پر غور کرنا ضروری ہے اور مذکورہ نکات پر عمل پیرائی کے لئے لائحہ عمل مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اردو والوں کے لئے پہلاکام اردو لکھنا اور پڑھنا سیکھنے کے ساتھ غیر ملکی زبانوں کے سائنسی علوم و فنون کو اردو قالب میں ڈھالنا ہوگا جو کہ آج وقت کی اہم ضرورت ہے۔دوسرا اہم کام حکومت کی سرپرستی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔اردو انجمنیں،ادارے ،مدارس اور اردو اکیڈیمیز اس سلسلے میں اپنا مثبت کردار انجام دیں تاکہ عالمی سطح پر اردو کی اہمیت واضح ہو اور وقار قائم رہے۔اردو سے دشمنی کے رویوں اور رجحانات کا سدباب کریں۔اردو کے مستقبل سے ناامید نہ ہوں ذہن اور نظر کھلی رکھیں۔وقت کتنا ہی پرآشوب کیوں نہ ہو گزر جاتا ہے لیکن کامیاب وہی ہوتے ہیں جن کے پائے استقامت میں لغزش نہیں پیدا ہوتی ہے۔کوئی کتنا طاقتور کیوں نہ ہو دوسروں کے حقوق کو زیادہ دیر تک دبائے نہیں رکھا سکتا اور نہ ہی پامال کرسکتا ہے۔اردو والوں کو اپنی زبان کے فروغ و تحفظ میں سب سے پہلے اپنا گرانقدر رول نبھانا ہوگا۔بقول رالف رسل برطانوی اردو داں ومعلم کے’’اردو والوں کو خود کفیل ہوکر اور اپنے ہی وسائل کے بھروسے پر اپنی زبان کی حفاظت خودہی کرنی ہوگی‘‘۔
اہم بلاگز
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
حیا ہی پروانہ خیر
ویمن یونیورسٹی کی بس میں سب سے پہلی سوار ہونے والی حنا امتیاز معمول کے مطابق آج بھی کسی کتاب کی ورق گردانی میں گم تھی اس لیے اسے اپنے ارد گرد ہونے والی غیر معمولی ہلچل کا علم ہی نہ ہوا۔
آج کی کتب بینی نے اسے خاصا الجھن میں مبتلا کیا ہوا تھا فرانسیسی انقلاب کے وقت وہاں کی عوام نے قلم کاروں کی جس طرح پیروی کی وہ حیران تھی کہ کیسے کوئی قوم اپنے ہی جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے افکار و نظریات کے پیچھے اندھا دھند چل پڑتی ہے چاہے وہ نظریات اخلاق سے کتنے ہی گرے ہوئے کیوں نہ ہوں۔
ڈرائیور کے ہارن کرنے پر اس نے کتاب سے سر اٹھایا تو بس مکمل خالی تھی اس کی ساتھی لیکچرار اور تمام طالبات بس سے پہلے ہی اتر چکی تھیں
یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ آج کیا دن ہے؟
کلاس میں داخل ہوکرحنا نے ابتدائی سلام دعا کے بعد طالبات کی طرف معنی خیز مسکراہٹ سے دیکھا
“ پیاری لڑکیو! آج خیر سے آپ میں سے بیشتر لڑکیوں نے سرخ رنگ کے دوپٹے اور بعض نے تو پورا لباس ہی سرخ پہنا ہے”
“جی میم! آج ویلنٹائن ڈے ہے نا” کسی ایک طالبہ نے جواب دیا
تو ساتھ ہی کسی دوسری طالبہ نے مزید وضاحت بھی پیش کردی “میم اب وہ جونا مناسب سا ویلنٹائن سب مناتے ہیں ویسا تو ہم کچھ نہیں کر رہے بس سب نے سوچا کہ ایک تہوار آرہا تو چلومنا لیا جائے تفریح ہو جائے گی”
ہممم۔۔تویہ باقی طالبات آپ کے ساتھ شامل کیوں نہ ہوئیں؟ جی نائلہ آپ کا اس دن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ حنا نے ایک طالبہ کو مخاطب کیا جوویلنٹائن ڈے منانے والی لڑکیوں میں شامل نہ تھی۔
میم میرے نزدیک ویلنٹائن اخلاقی لحاظ سے انتہائی نا مناسب تہوار ہے اوراس کا ایجنڈا حیا کے منافی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے
"جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے کرو"
نائلہ لیکن ہم کوئی نا مناسب حرکت تو نہیں کر رہے نا۔ ایک دوسری طالبہ نے نائلہ کو ٹوکا
جی جی ایسا ہی ہے میری شہزادی! آپ کی نیت بالکل صاف ہے آپ کا مقصد تفریح کے علاوہ کچھ نہیں ہے یہ مجھے معلوم ہے۔ حنا نے خوبصورتی سے دونوں کی بات چیت میں مداخلت کی اور بات کو مزید آگے بڑھایا۔
لڑکیو!بات دراصل یہ ہے کہ جب ہم خود کو اسلام کے دائرے میں داخل کردیتے ہیں نہ۔۔۔ تو شعوری طور پر حیا کا اختیار کرنا ہمارے لیے اس طرح ضروری ہوجاتا ہے جس طرح سانس لینے کے لیے ہوا میں آکسیجن کا ہونا ضروری ہے کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
” حیا ایمان کی شاخوں میں ایک شاخ ہے۔ “
لیکن اللہ کی پناہ ہم ایسے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں جہاں حیا کو کم اعتمادی اور ترقی پذیر عناصر کے برخلاف گردانا جاتا ہے اور یہ وہ نظریات ہیں جو ہمارے کچھ نامی گرامی مہذب طبقے نے مغربی معاشرے سے شاید عاریتاً لیے تھے اور اب سارے معاشرے میں تیزی سے سرایت کر تے جا رہے ہیں
اس...
مایوس مت ہونا
ڈاکٹر فہمیدہ آپ نے تو میرا ووٹ ضائع ہی کروا دیا۔ساجدہ بیگم اپنا چیک اپ کروانے آئی تو ساتھ ہی شکوہ کر بیٹھی،میرے شوہر نے کہا بھی تھا، کہ اس شہر میں جماعت کو کوئی نہیں جانتاووٹ ضائع ہوجائے گا،لیکن میں سمجھی کیا پتاقوم ایک موقع دے ہی دیں دین دار لوگوں کو، ساجدہ باجی تو گویا آج بھری بیٹھی تھیں۔ کیا آپ نےامیر جماعت سراج الحق صاحب کا بیان نہیں سنا؟ڈاکٹر فہمیدہ نے تمہید باندھی، جب ایک نیوز اینکر نے سراج الحق صاحب سےسوال کیا،لوگ جماعت اسلامی کو ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ تو سراج الحق صاحب کا جواب تھا: ہر صبح فجر کے وقت مسجد سے اذان کی آواز آتی ہے” *حَیّ عَلی الْفَلاحِ حیّ عَلی الْفَلاحِ* اس آواز کو سن کر اگر کروڑوں لوگ سوتے ہیں اور چند ہزار لوگ اٹھ کر مسجدوں میں جاتے ہیں، تو یہ اس آذان یا موذن کی کمی نہیں ہے۔یہ تو ان لوگوں کی کمی ہے جنہوں نے نیند نہیں چھوڑی اور مسجد کی طرف نہیں دوڑے۔ اس لیے ہم تو اذان دیتے رہیں گےاور پکارتےرہیں گے کہ آو تمہاری دنیا اور آخرت کی کامیابی اس نظام میں ہے،جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں پیش کرچکے ہیں۔
نہیں ڈاکٹر صاحبہ میں تو سوچ رہی تھی ساجدہ باجی نے بات کاٹی،اتنا وقت کا ضیاع ہوا اتنا پیسہ خرچ ہوا اور گھرگھر جاکےسمجھایا بھی لوگوں کو بس اسی لیے نتیجہ دیکھ کرمایوس ہوگئی۔ سادہ طبیعت کی ساجدہ باجی پھر سے گویا ہوئیں۔ ساجدہ باجی کیا آپ نے وہ آیت نہیں پڑھی" الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا"(مال اور اولاد تو دنیا کی زندگی کی رونق ہیں، اور تیرے رب کے ہاں باقی رہنے والی نیکیاں ثواب اور آخرت کی امید کے لحاظ سے بہتر ہیں۔) اس لیے میری بہن یہ ہرگز نہ سوچو کہ ہمارا پیسہ یا وقت ضائع ہوا،ارے اس کا اجر تو اللہ تعالٰی کے ذمہ ہے۔
ہماری ساری تگ ودو اللہ کے دین کو قائم کرنے اور اس ملک میں قرآن کا قانوں نافذ کرنے کے لیے ہے۔ہم نے بالکل مایوس نہیں ہونا اللہ کو ہماری یہی کوشش ہی درکار ہے۔اللہ پاک اپنے جن بندوں سے محبت کرتا انھیں آزمائش میں بھی ڈالتاہےتاکہ پتا چل سکے کون سخت وقت پہ ثابت قدم رہتاہےاور کس کے قدم ڈگمگاتے ہیں،ڈاکٹر فہمیدہ نے نرمی سے سمجھایا۔پھر تو ڈاکٹر صاحبہ ہمیں دوبارہ سے اس مہم کی تیاری میں جُت جانا چاہیے۔بالکل میری بہن!نظام کب نافذ ہوگا یہ تو اللہ ہی جانتا ہے،لیکن ہماری کوشش تو ہرحال میں جاری رہنی چاہیے۔ ہم تو اللہ کے سامنے عزر پیش کرنے والے بن سکیں، کہ اے اللہ میں نے اپنی پوری کوشش کی جہاں تک ہوسکا میں نکلی،جہاں مجھے پکارا گیا میں نے لبیک کہا، میرے مولا تو جانتا ہے،میں نےاپنی طرف سے کوئی کمی نہیں چھوڑی، ہر گھر پہ دستک دی، ہر فرد کودعوت دی، لیکن یارب تو گواہ رہنا میری اس ادنٰی سی کوشش پہ اور مجھے ہمت دے کہ میں اور زیادہ دین کی خدمت کرسکوں، ڈاکٹر فہمیدہ فرط جذبات سے بولیں۔ ساجدہ باجی شرمندگی سے...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...