نعرے نہیں ،آؤ اردو کے لئے کام کرتے ہیں

اردو ایک لطیف زبان ہے ۔ اس کی شیرینی اور پیرائے اظہار کی نزاکت ہی اس کی مقبولیت کا سب سے اہم راز ہے۔ اردو کا لہجہ جہاں پیار و محبت سے دھلاہے وہیںیہ حسن و عشق کے سوز و گداز سے مزین بھی ہے۔اردو کی سرشت میں مختلف تہذیبوں، فرقوں، زبانوں کی آمیزش ، اختلاط اور میل جول شامل ہے۔اس کے خمیر میں اتحاد و یکجہتی اور رواداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔تقسیم ہند کے بعد اردو کو ہندوستان میں وہ مقام حاصل نہیں ہوسکا جس کی وہ مستحق تھی۔ لیکن یہ ایک سچائی ہے کہ گلزار جہاں آج بھی اردو کی خوشبو سے معطر ہے۔اردو ایک زبان کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک زندہ چلتی پھرتی تہذیب کا نام ہے۔ اسے بدقسمتی سے ہندوستان میں قومی زبان کا درجہ نہیں دیا گیا لیکن اس کے باوجود گفت و شنید اور بول چال میں آج بھی اسے قومی زبان کا درجہ حاصل ہے۔ اسی لئے اگر اسے قومی تہذیب و تمدن اور شائستگی کا نام دیا جائے تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔مادری زبان کی تعلیم کے ذریعہ بچہ سماجی طرز فکر کو سمجھنے کی کوشش کر تا ہے۔درحقیقت ہم بچوں کو زبان نہیں پڑھاتے ہیں بلکہ انھیں سماجیات کی تعلیم فراہم کرتے ہیں۔بچے اپنے گھروں سے جذبہ عزت و احترام ،تعظیم و تکریم کی روایات حاصل کرتے ہیں۔بچوں میں پرورش پانے والا یہ جذبہ احترام سماجی شراکت داری کے فروغ کا باعث بنتا ہے اور اجتماعی کلچر و ثقافت کی بنیادیں بھی اسی جذبے کے تحت وجود میں آتی ہیں۔ہمیں اپنے ذہنوں سے اس بات کو اکھاڑ پھینکناچاہئے کہ ہم یا ہمارے بچے اردو نہیں جانتے ہیں۔حقیقتاًہم سب اردو جانتے ہیں نہ صرف اردو مادری زبان والے اردو جانتے ہیں بلکہ ہندوستان کی ایک کثیر ی آبادی آج بھی اردو بولتی اور جانتی ہے۔مگر یہ بھی ہماری بد بختی ہے کہ ہم نے صرف اسے فطری طور پر بولنے کی حد تک محدود کر رکھا ہے۔ہم کیا تقریباً تمام ہندوستانی اپنے روز مرہ کے کام اردو زبان ہی میں انجام دیتے ہیں۔ اسے تجاہل عارفانہ کہئے کہ مجرمانہ غفلت یا پھر کور چشمی، ہم جس زبان کو ہندوستانی کہتے ہیں وہ اردو نہیں تو اور کیا ہے۔ ملک کے سبھی علاقوں کی بول چال کی زبان بلالحاظ مذہب ،رنگ و نسل اور ذات پات آج بھی ہندوستانی ہے۔اس ہندوستانی زبان نے آج ملک کے تقریباً ایک سو پچاس کروڑ عوام جو الگ الگ زبانیں بولتے ہیں کو ایک دوسرے سے جوڑکررکھاہے۔تعصب ،تنگ نظری یا پھر کسی وجہ سے ہم جسے ہندوستانی کا نام دے رہے ہیں وہ ہندوستانی کیا ہے؟ایسے متعصب ذہنوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اردو دراصل اسی ہندوستانی بول چال کی معیار ی شکل کا نام ہے۔اردو آج بھی بول چال کی شکل میں ہمارے معاشرے کے قریب بلکہ اس میں رچی بسی ہوئی ہے۔یہ اردو کا حسن اور اس کی کشادہ دامنی ہے کہ یہ عصری اور فطری رجحانات کو بلامزاحمت اپنے میں جذب کرنے کا خوب ظرف رکھتی ہے۔آج بھی ملک کے سبھی علاقے اردو کے ہیں ۔آج جو علاقے ہندی کے کہلاتے ہیں وہ اب بھی اردو کے ہی ہیں کیونکہ آج بھی ان علاقوں میں وہی زبان بولی جاتی ہے جو پہلے بولی جاتی تھی۔مختصراً کہا جاسکتا ہے کہ جو ہندی کا علاقہ ہے وہی اردو کا علاقہ ہے۔ ہندی سے مراد ہرگز اس جدید ہندی سے نہ لیا جائیجسے گزشتہ سات دہائیوں سے سرکاری طور پر رابطے کی زبان کے طور پر فروغ دینے کی ناکام کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس کے باوجود اس جدید ہندی کا کوئی علاقہ آج تک معروض وجود میں نہیں آسکااور نہ ہی یہ آج تک لاکھ کوششوں کے باوجودکسی علاقے کی بول چال کی زبان کا درجہ حاصل کر سکی ہے۔زبان کوروزمرہ کے کام کاج تک محدود رکھنا ہی کافی نہیں ہو تاہے۔ بول چال کے علاوہ اس کا لکھنا پڑھنا بھی زبان والوں کے لئے بے حد ضروری ہوتا ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جن کی یہ مادری زبان ہوتی ہے۔یہ ہمارا معاشرتی المیہ ہے کہ ہم اردو بول سکتے ہیں لیکن اس کے لکھنے اور پڑھنے سے معذور ہیں۔انگریزی پڑھ اور لکھ سکتے ہیں لیکن اس کے فہم سے ناآشنا ہیں۔ حالانکہ اردو لکھنا اور پڑھنا کوئی خاصہ مشکل کام نہیں ہے۔ یہ انتہائی آسان اور سہل کام ہے خاص طور پر ہم اردو مادری زبان والوں کے لئے تو یہ اور بھی آسان کام ہے۔کیونکہ ہم سبھی اردو زبان جانتے ہیں ہمیں زبان سیکھنا نہیں ہے بلکہ صرف اردو لکھنا اور پڑھنا سیکھنا ہے۔اپنے تدریسی تجربات کی روشنی میں یہ بات میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ روزانہ ایک گھنٹہ ایک مہینے کی مشق کے ذریعے آسانی سے اردو لکھنا ،پڑھنا سیکھا جاسکتا ہے اور تین ما ہ میں ہم زبان میں اچھی خاصی مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔اس مضمون کے ذریعہ حالات مسائل اور وسائل کا رونارونے کے بجائے اردو کے فروغ میں معاون اسباب و علل پر روشنی ڈالی گئی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر ہم اردو کی عظمت رفتہ کو بحال کرسکتے ہیں۔
زبانیں سرکاری سرپرستی اور تحفظ کی محتاج نہیں ہوتیں؛۔
زبان ،کلچر اور ثقافت کا تحفظ ہمارا اپنا فریضہ ہوتا ہے ۔اپنے فرائض سے پہلو تہی کرتے ہوئے حکومتوں اور سیاستدانوں سے سرپرستی اور تحفظ کی توقع کرنا گویا خود زبان کا گلہ گھونٹنے کے مترادف ہے۔جب ہم خود اپنے کلچر اور زبان کی حفاظت نہیں کرسکتے ہیں تو کسی اور سے اس کی توقع ایک حماقت نہیں تو کیا ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اردو کو لسانی جبر اور تہذیبی مخاصمت کا گزشتہ ستر سالوں سے سامنا کرنا پڑرہاہے جس کی وجہ سے ایک ثقافتی اور ترسیلی خلا پیدا ہوگیاہے۔لسانی اور تہذیبی جبر و تعصب کی وجہ سے ایک ایسی زبان کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی جس کی لفظیات ثقیل ، تلفظ غیر معیاری اور جو معاشرے کے لئے اجنبی ہے۔اردو والے اپنی زبان کے تحفظ کے لئے سیاسی اور سرکاری سرپرستی اور تحفظ پر تکیہ نہ کرتے ہوئے اس کے فروغ کے لئے خو د کمر بستہ ہوجائیں۔اردو والے انفرادی طور پر بیدار ہوجائیں تو ایک انقلابی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے۔اس تبدیلی کا آغاز ہم کو اپنے گھر وں سے کرنا ہوگا۔جب تک ہم اپنے بچوں اور گھر والوں کو اردو لکھنے پڑھنے کے لائق نہیں بنائیں گے تب تک اردو کے روشن مستقبل کی سب تدبیریں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ہمیں انفرادی طور پر اردو کے استعمال کو لازمی کرنا ہوگا۔جب تک ہم انفرادی طور پر اردو کے استعمال کو لازمی نہیں کریں گے اردو کا تحفظ اور فروغ ممکن نہیں ہے۔آج ہماری مادری زبان جب ہمارا مسئلہ نہیں رہی تو پھر کیسے یہ ہمارے بچوں کا مسئلہ رہے گی۔بچے اردوکوایک بے کار اور اضافی چیز تصور کر رہے ہیں اور یہ فکر ونظریہ ہم نے اپنے فکر و عمل سے بچوں کو ورثے میں دیا ہے۔زبان و ادب جب ہمارے لئے ناکارہ ہیں تو پھر بچوں کے لئے بھی یہ بے کار اور مضحکہ خیز ہی ثابت ہوں گے۔چلئے اردو کا ذکر چھوڑیئے میں پوچھتا ہوں کہ ہم میں سے کتنوں کو انگریزی آتی ہے۔کیا آپ نے چار الفاظ کی ترتیب کو زبان آشنائی کا نام تو نہیں دے دیا ہے۔آج اردو سے ناآشنائی کو فخریہ طور پر پیش کرنے کا ایک غلط رویہ عام ہوگیا ہے۔بچے تو بچے بڑے بزرگ اور نام نہاد دانشوران قوم و ملت بھی اردو سے لاعلمی پر شرمسار ہونے کے بجائے اپنی جہالت کو فخریہ اندا ز میں پیش کر رہے ہیں۔یہ مزاج اردو کے بڑے ادبا ،شعرا اورسیاستدانوں اور دانشوروں کے گھرانوں میں بہت زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔اس ضمن میں ایک واقعہ بیان کر رہاہوں جو اردو والوں کے لئے تازیانہ عبرت سے کم نہیں ہوگا ۔فیض احمد فیض اردو کے ایک نامور ،ممتاز اور صاحب طراز شاعر گزر رہے ہیں۔شاید ہی کوئی اردو کا طالب علم ایسا نہ ہوگا جو فیض احمد فیض کی شاعرانہ عظمت سے واقف نہ ہو۔فیض صاحب کی چھوٹی صاحبزادی منیزہ جو فیض صاحب کی یاد میں منعقدہ محفل میں شریک و مدعوتھیں۔فیض کے شاعری اور ان کی عظمت پر اظہار خیال کے لئے جب انھیں مدعو کیا گیا تو وہ فخریہ انداز میں کہنے لگیں کہ میری اردو بہت کمزور ہے۔مصنوعی پن سے کہا کہ وہ انگریزی جانتی ہے پھر بھی وہ اردو میں بات کرنے کی کوشش کریں گے۔اسٹیج پر آنے کے بعد محترمہ منیزہ کے اس جملے کا جواب عارفہ سیدہ نے یوں دیا کہ’’فیض صاحب جو زبان لکھ کر اور بول کر دنیا میں تہذیب یافتہ کہلائے،آج وہی زبان نہ لکھ کر اور نہ بول کر ان کی بیٹی تہذیب یافتہ کہلارہی ہیں۔‘‘یہ بات بڑی تشویش نا ک ہے کہ آج ہمارے بچے بھی اردو سے لاعلمی کو فخریہ طور پر پیش کررہے ہیں۔کیا اس بات کے لئے والدین کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہ ہوگا؟زبان بچوں کے لئے والدین کا ایک عظیم تحفہ ہوتا ہے۔جو والدین اپنے بچوں کو ان کی مادری زبان تحفے میں نہیں دے سکتے ہیں وہ اپنی تہذیب اور ثقافت کو کس طر ح ان تک منتقل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔مادری زبان کی عدم فراہمی سے بچوں میں سطحی پن اور فکر بنجر پن لازمی طور پر پیدا ہوگا۔مادری زبان سے لاعلمی قد�آور بونوں کی کثرت کا سبب بنے گی۔ستھری زبان اور سلیس لہجہ و تلفظ سیکھنے کے لئے عرب اپنے نومولود بچوں کو دائیوں کے حوالے کردیتے تھے۔نبی اکرم ﷺ کو بھی ولادت کے فوری بعد حضرت دائی حلیمہ کے گھر بھیج دیا گیا۔اس واقعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ والدین اپنی مادری زبان بچوں کو بہتر انداز میں سکھانے کا التزام کریں۔ماں باپ اپنے بچوں کو اپنی ثقافت (کلچر) اور زبان ورثے میں دیتے ہیں ۔ اس لئے والدین خود اپنی زبان کی حفاظت کریں تاکہ بچوں کے لئے روشن مثال بن سکیں۔زبان گھر سے سیکھی جاتی ہے۔مادری زبان دانی کا اولین مدرسہ والدین ہوتے ہیں۔اردو زبان و ثقافت کے تحفظ میں فکر مند سیاستدان،دانشوران ،ادیب ،شعرا،اساتذہ جو مشرقی روایات اور اردوکے فروغ اور اس کے احیاء کی باتیں کرتے ہیں انھیں خود احتسابی کی سخت ضرورت ہے جو اس بات کو فراموش کر بیٹھیں ہیں۔
زبان کا استعمال؛۔زبان کی اہمیت اس کے استعمال سے قائم و برقرار رہتی ہے ۔ہمیں اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ کوئی زبان کسی بھی زبان سے بہتر نہیں ہوتی ہے۔ہم اردو کی تباہی کا واویلا تو مچاتے رہتے ہیں اور اس کی تباہی اور پسماندگی کے اسبا ب کا بھی سراغ لگانے میں کامیاب ہوچکے ہیں لیکن مقامی سطح پر پائے جانے والے مسائل میں سے ایک کو بھی آج تک حل نہیں کر پائے ہیں۔معاشرے میں اردو کو رابطے کی زبان کے طور پر رواج دینے کی سخت ضرورت ہے۔ریاست آندھرا پردیش ،تلنگانہ اور جہاں کہیں اردو کو دوسری زبان کا درجہ فراہم کیا گیا ہے وہاں اپنے تمام دفتری امور اردو زبان میں انجام دیں۔اردو کے استعمال کو کسر شان تصور نہ کریں۔ جہاں تک ممکن ہو اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لئے اردو زبان کا استعمال کریں۔اسکول دفاتر،عدالتوں،بینکوں،کچہریوں اور دیگر سرکاری،نیم سرکاری اور خانگی دفاترمیں اردو زبان کو استعمال کریں۔اپنی عرضیاں اور درخواستیں اردو زبان میں پیش کریں۔آپ کی سعی اور کاوش یہی ہونی چاہئے کہ آنے والی نسلوں میں اردو زبان سے لگاوٹ ،محبت اور الفت کو فروغ دیں۔اسکولوں میں اردو کی تدریس کو معیار ی بنائیں۔بچوں کو اگر چہ کہ غیر اردو میڈیم مدارس میں تعلیم فراہم کر رہے ہوں تب بھی ایک زبان کی حیثیت سے اردو کو بہر صورت اور لازمی طور پر اختیار کریں۔اردو اگر آپ کی مادری زبان ہے تو اپنی زبان کی حفاظت بھی آپ ہی کی ذمہ داری ہے۔اپنے فرائض سے پہلوتہی کرتے ہوئے اغیار سے اس کے تحفظ اور فروغ کی ہرگز توقع نہ کریں۔اردو میڈیم مدارس میں کام انجام دینے والے اساتذہ اپنے تمام رجسٹرس اور اپنی تمام کوائف کو اردو میں تحریر کریں۔ ریاست تلنگانہ میں تمام دفتری امور کی انجام دہی کے لئے تلگو یا پھر ریاست کی دوسری سرکاری زبان کے استعمال کی پابندی لگائی گئی ہے۔ اردو والے ان مراعات سے مکمل استفاد ہ کریں۔آپ کی غفلت اور لاپروائی زبان کے لئے سم قاتل ثابت ہوگی۔اپنی زبان کے استعمال پر دوسری زبان کو ہرگز ترجیح نہ دیں۔اس ضمن میں چین کے صدر ماوزئے تنگ کا ایک واقعہ ہماری آنکھیں کھول دینے کے لئے ضروری ہے۔ماوزئے تنگ چینی کے علاوہ انگریزی کے بھی عالم تھے۔اس کے باوجود وہ اپنے تمام بیرون اسفار اور اندرون ملک صرف چینی زبان کو ہی استعمال کرتے تھے۔حتی کہ جب ان کو انگریزی میں لطیفہ سنایا جاتا وہ اس وقت تک نہیں ہنستے تھے جب تک کہ اس کا چینی میں ترجمہ پیش نہیں کیا جاتا۔انھوں نے انگریزی زبان پر مکمل عبور رکھنے کے باوجود کبھی بھی چینی پر انگریزی کو ترجیح نہیں دی۔ایک مرتبہ اخبار کے نمائندے نے ان سے سوال کیا کہ وہ بہترین انگریزی جاننے کے باوجود بھی صرف چینی میں ہی کیوں گفتگو کرنا پسند کرتے ہیں۔ماوزئے تنگ کا جواب ہمارے لئے ایک بہترین مثال ثابت ہوسکتا ہے۔ انھوں نے اخباری نمائندے کو جواب دیا کہ ’’میں دنیا کو بتانا چاہتا ہوں کہ چینی عوام گونگے نہیں ہیں۔‘‘آج ہمیں بھی اپنی مادری زبان اردو کے استعمال کے ذریعے دنیا کو بتانا چاہئے کہ اردو والے گونگے نہیں ہیں۔
خانگی مدارس کا رویہ ؛۔اردو کی موجودہ زبوں حالی کے لئے اقلیتی خانگی مدارس کی کارکردگی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ اقلیتی خانگی مدارس جو اکثر منافع خواری کے مقصد کے تحت قائم کیے گئے ہیں نے اردو کو بحیثیت زبان اول اختیار کرنے پر اردومادری زبان والے طلبہ اور اولیا ئے طلبہ پر کبھی دباؤ نہیں بنایا ۔برخلاف اس کے ہندی کو قومی زبان قرار دے کر اس کی تدریس کو اپنے مدارس میں یقینی بنانے لگے اور حکومت کی جانب سے فراہم کردہ زبان کو اختیار کرنے کے حق کا جان بوجھ کر استعمال نہیں کیا۔مدارس میں طلبہ کی تعدا د میں اضافے کے لئے ایسے نعرے اور حربے اختیار کیے جس سے اردو کا نقصان اور زوال یقینی ہوگیا۔اگر بعض مدارس نے اردو کو بحیثیت زبان اول کی اگر جگہ بھی دے دی تب بھی اس کی تدریس کے لئے منظم منصوبہ بندی اور بہترین اساتذہ کی فراہمی میں ناکام رہے۔جس کا خمیازہ گزشتہ دو دہائیوں میں اردو کی ایک ایسی نیم تعلیم یافتہ نسل تیار ہوئی جس نے اردو لکھنے پڑھنے اور سیکھنے کو کبھی بھی درخور اعتناء نہیں سمجھا۔ شہر حیدرآباد میں تقریبا 1500تا 2000 اردو اقلیتوں کے خانگی مدارس پائے جاتے ہیں اگر ان مدارس میں اردو کو بحیثیت زبان اول اور ابتدائی تعلیم مادری زبان میں فراہم کرنے کی کوشش کی جائے تو یقیناً ہم اپنے زوال پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ اردو زبان کی عظمت رفتہ بھی بحال ہوجائے گی۔
حکومت ،اردوادارہ جات،انجمنوں کا رول؛۔زبانیں بے جان ہوتی ہیں ان سے سیاسی کھیل کسی بھی طورمناسب نہیں لگتا۔اردو کے ساتھ سیاسی تعصب و جبر پر پابندی لگنی ضروری ہے۔اردو ایک زندہ زبان ہے اور اپنی ساخت میں بین الاقوامی مزاج کی حامل ہے۔اردو کو اگر لسان الارض کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔اردو اپنے بین الاقوامی مزاج کی وجہ سے نہ تو مغرب کے لئے اجنبی ہے اور نہ مشرق کے لئے۔حکومت کی جانب سے اس کی سرپرستی نہایت ضروری ہے اس ضمن میں حکومت کی توجہ مبذول کروانے میں اردو کے ادارے انجمنیں اپنا تعاون پیش کریں۔ اپنے نام نہاد کارناموں سے توبہ کرتے ہوئے ٹھوس اقدامات کی جانب توجہ کریں۔اردو زبان میں الفاظ سازی اور اصطلاحا ت سازی کی عظیم گنجائش موجود ہے۔زبان کی ترقی کا انحصار اس کی الفاظ سازی کی گنجائش اور اسے برتنے کی قوت پر منحصر ہوتا ہے۔اردو میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ اردو زبان میں عام طور پر استعمال ہونے والے لفظوں کی تعداد تین لاکھ سے بھی متجاوز ہیں ۔اصطلاحی الفاظ اس کے علاوہ موجود ہیں۔الفاظ کا اتنا بڑا ذخیرہ انگریزی زبان کے علاوہ غالباًکسی اور زبان میں موجود نہیں ہے۔یہی صفت اس کو بین الاقوامی مزاج عطا کرتی ہے۔ اردو میں وسعت پذیر کی بے پناہ طاقت ہے۔آج غیر زبانوں کے تکنیکی ،سائنسی ،علمی اور فنی کتب کو زیادہ سے زیادہ اردو قالب میں ڈھالنے کی ضرورت ہے تاکہ زبان کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔اردو کے اداروں،انجمنوں کو چاہئے کہ وہ ضلعی اور منڈل سطحوں پر اردو ادب کے علاوہ اردو میں معلوماتی علوم(سائنسی علوم) کے ورکشاپس،سیمنارس برائے فروغ اردو ادب و سائنسی علوم اور طلبہ کے لئے انعامی مسابقے منعقد کروائیں۔نئی نسل میں اردو زبان بالخصوص سائنسی علوم کے فروغ کو اولین ترجیحات میں شامل کریں۔علم و ادب و سائنسی علوم پر منعقدہ سیمناروں،ورکشاپس اور پروگرامس میں متعلقہ موضوعات پر اردو کے پروفیسرس،دانشوروں کے علاوہ طلبہ کو بھی اپنے مقالہ جات پیش کرنے کامواقع فراہم کیاجائیں۔سرکاری رقومات کو صرف مشاعروں اور ادبی محافل کے انعقاد پر ضائع نہ کیا جائے بلکہ تعمیری ادب کی تشکیل میں ان گرانٹس کو استعمال میں لائیں۔اردو اکیڈیمی کی جانب سے اردو کے ارلی چائلڈ کئیر اسکولس اور اردو کے فاصلاتی کورسس کا آغاز کیا جائے۔دیگر زبانوں کے تکنیکی ،سائنسی ،فنی اور ادبی شہ پاروں کو اردو میں منتقل کیا جائے۔اردو اکیڈیمی اپنے آپ کو صرف اردو شعر و ادب تک محدود نہ رکھے بلکہ اردو میں معاشراتی اور سائنسی علوم کے فروغ میں اپنا سرگرم رول انجام دے۔اردو اکیڈیمیز اشاعتی زرتعاون حاصل کرنے کے لئے شائع ہونے والے کتابوں کو (جو پچیس ،تیس کی تعداد میں شائع ہوتی ہیں اور صرف اردو اکیڈیمی کے دفتر کے علاوہ کہیں دستیاب نہیں رہتیں) جنھیںGhost Publications(فریبی اشاعتیں )کہاجائے تو بیجا نہ ہوگا، پر اپنا بجٹ ضائع نہ کریں۔مشاعروں اور غیر تعمیری امور میں اردو کی گرانٹس کو ضائع ہونے سے محفوظ رکھیں۔
انٹرنیٹ پر اردو کا فروغ ؛۔فی زمانہ اور آنے والے وقتوں میں انسان کا سوفیصد ی انحصار انٹرنیٹ پر ہوگا۔اگرآج انٹرنیٹ پر مواد فراہم نہ کیا گیا تو آنے والے وقتوں میں بہت سے مسائل کا اردو والوں کو سامنا کرنا پڑے گا۔اردو کے تکنیکی ،سائنسی،فنی اور معاشرتی علوم کو انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کیا جائے۔فیس بک ،ٹوئیٹر،واٹس ایپ،سوشل میڈیا پر اردو میں لکھا جائے۔اردو میں ویب سائٹس کی تلاش (سرچ) کا کام انجام دیں۔انگلش ویب سائٹس کا اردو ورژن بھی بنایا جائے۔اردو کے بلاگز تشکیل دیئے جائیں۔
رومن اردو سے اجتناب ؛۔اردو زبان سے عدم شناسی کی وجہ سے بیشتر اردو مادری زبان والے لوگ رومن اردو کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر اپنائے ہوئے ہیں۔اس طریقہ کار سے اجتناب کی سخت ضرورت ہے۔اردو مشکل سے ایک تا تین ما ہ کے دورانیہ میں مہارت کے ساتھ سیکھی جاسکتی ہے۔ اردو سیکھنا اور لکھنا خو د پر لازم کر لیں۔پبلیشرس رومن اردو میں کتابیں نہ شائع کریں۔ان کی آج کی فراہم کردہ یہ سہولت مستقبل میں اردو کے لئے زہر قاتل ثابت ہوگی۔ کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ اکثر آسان راستہ ہی مشکل ثابت ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گا۔ایک شخص کیڑوں سے بھرا ڈبہ لیئے جنگل سے گزر رہاتھا۔ایک پرندے نے پوچھا ’’تم کہاں جارہے ہو‘‘؟آدمی نے کہا میں بازار جارہاہوں ’’اس ڈبے میں کیڑے ہیں جنہیں بیچ کر میں پرندوں کے پر خرید لاؤں گا۔‘‘پرندے نے کہا تم کیڑے مجھے دے کر میرا ایک پر لے لو‘‘آدمی نے پرندے کو کیڑے دے کر اس کا ایک پر لے لیا۔اسی طرح اگلے دن بھی آدمی نے کیڑے دے کراس سے پر لے لیا اور اسی طر ح پھر اگلے دن بھی ہوا۔آخر ایک دن ایسا آیا کہ پرندے کے پاس دینے کے لئے پر نہیں رہے۔اب وہ نہ صرف بد صورت نظرآنے لگا بلکہ اپنی پرواز کی طاقت بھی گنوا بیٹھا۔اس واقعہ سے ہم کو سبق ملتا ہے کہ پرندے نے غذا کے حصول کے لئے جو آسان طریقہ اختیار کیاتھا اصل میں وہ سب سے مشکل اور خطرناک عمل تھا۔اسی لئے اردو والے رومن اردو سے بہر صورت اجتناب کریں اور ساتھ ہی ساتھ پبلیشرس بھی اس طریقہ کار کو فروغ نہ دیں بلکہ کلی طور پر اجتناب کریں۔بہت مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم آسان راستہ ڈھونڈتے ہیں لیکن آخر میں ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہی سب سے مشکل اور خطرناک راستہ تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اردو ایک جامع زبان ہے۔لیکن اس کے تحفظ ،فروغ او راس کی اہمیت تسلیم کروانے کے لئے مذکورہ بالا نکات پر غور کرنا ضروری ہے اور مذکورہ نکات پر عمل پیرائی کے لئے لائحہ عمل مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اردو والوں کے لئے پہلاکام اردو لکھنا اور پڑھنا سیکھنے کے ساتھ غیر ملکی زبانوں کے سائنسی علوم و فنون کو اردو قالب میں ڈھالنا ہوگا جو کہ آج وقت کی اہم ضرورت ہے۔دوسرا اہم کام حکومت کی سرپرستی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔اردو انجمنیں،ادارے ،مدارس اور اردو اکیڈیمیز اس سلسلے میں اپنا مثبت کردار انجام دیں تاکہ عالمی سطح پر اردو کی اہمیت واضح ہو اور وقار قائم رہے۔اردو سے دشمنی کے رویوں اور رجحانات کا سدباب کریں۔اردو کے مستقبل سے ناامید نہ ہوں ذہن اور نظر کھلی رکھیں۔وقت کتنا ہی پرآشوب کیوں نہ ہو گزر جاتا ہے لیکن کامیاب وہی ہوتے ہیں جن کے پائے استقامت میں لغزش نہیں پیدا ہوتی ہے۔کوئی کتنا طاقتور کیوں نہ ہو دوسروں کے حقوق کو زیادہ دیر تک دبائے نہیں رکھا سکتا اور نہ ہی پامال کرسکتا ہے۔اردو والوں کو اپنی زبان کے فروغ و تحفظ میں سب سے پہلے اپنا گرانقدر رول نبھانا ہوگا۔بقول رالف رسل برطانوی اردو داں ومعلم کے’’اردو والوں کو خود کفیل ہوکر اور اپنے ہی وسائل کے بھروسے پر اپنی زبان کی حفاظت خودہی کرنی ہوگی‘‘۔

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔

جواب چھوڑ دیں