سیاسی تماشہ

خبر یہ ہے کہ سترہ جنوری سے کینیڈین شہری کی قیادت میں ٹڈی دل لشکر ملک گیر شورش برپا کرے گا جس کا جواز ماڈل ٹاؤن کی لاشوں کا حساب وصولنا بتایا جارہا ہے اور اس کے الزام میں آج سے قبل وزیراعلی پنجاب شہباز شریف اور وزیر قانون پنجاب رانا ثنااللہ کے استعفی کا مطالبہ کیا جارہا تھا.لیکن آج بلی کھل کر تھیلے سے باہر آگئی ہے اور واضح طور پر انتشاریوں نے بتادیا ہے کہ ان کا اصل مقصد ن لیگ کا خاتمہ ہے۔
دوسری جانب بلوچستان سے بھی خبر ہے کہ وہاں اپنے ہی وزیراعلی کے خلاف دو درجن کے قریب ایم پی ایز کا ضمیر ساڑھے چار سال بعد اچانک جاگ گیا ہے اور انہیں الہام ہوا ہے کہ موجودہ وزیراعلی صوبے کی پسماندگی اور کم مائیگی کے یکاوتنہا ذمہ دار ہیں اور اگر بلوچستان کی قسمت پھیرنی ہے اور اسے بام عروج پر پہنچانا ہے تو ہر صورت ایوان بالا کے چناؤ سے پیشتر صوبائی اسمبلی کو تارپیڈو مارنا ہوگا.
ظلم,جبر,قہر,خوف,وسوسے,حبس اور گھٹن کے ماحول میں اقوام کی وحدت پارہ پارہ ہوجاتی ہے.چند مٹھی بھر انتشار پسند افراد کے حق اظہار اور حق احتجاج کے لئے بیس کروڑ افلاس اور غربت کے مارے لوگوں کو صحت,روزگار اور آفدورفت جیسی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا جارہا ہے.ان کی سوچ پر پہرے بٹھائے جارہے ہیں جس کی وجہ سے کسی بڑی تخریب کے بادل امڈتے نظر آرہے ہیں.
پچھلے ساڑھے چار سال سے اس ملک پر نجانے کس خوف کے آسیب کا سایہ ہے کہ چھٹنے میں نہیں آرہا.بات بے بات یہاں دھرنے,جلاؤ گھیراؤ,ہڑتال اور مارکٹائی سے کام لیا جانے لگا ہے.ہر تیسرے دن کوئی نا کوئی گروہ ریاست کو گلے سے دبوچ لیتا ہے اور ڈندے کے زور پر تمام نظام مملکت اور کار جہاں معطل کرکے رکھ دیتا ہے.پھر کسی میں ہمت نہیں ہوتی کہ انہیں ہلاکر دکھا دے.کوئی مائی کا لعل کبھی ایسے خوارج کا بال تک بیکا نہیں کرسکا.کچھ نا خوشگوار واقعات اور ماضی کے تجربات کے باعث حکومت اب کسی صورت طاقت کے استعمال کی جرات نہیں کرسکتی.
آخر کار حکومت کو ان کی ہر شرط پر گھٹنے ٹیکنے پڑتے ہیں.بعد از معافی تلافی, ہاتھ باندھ کر اور”ہرجانہ” دیکر جان چھڑانا پڑتی ہے.کسی کو فکر نہیں کہ ریاست تباہی کی جانب گامزن ہے.دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچ رہی ہے.ہم اپنا کیا تشخص اجاگر کر رہے ہیں.یہی کہ اس ملک میں حکومت نام کی چیز بالکل ناپید ہوچکی ہے.ریاست اپنی رٹ اور اخلاقی جواز کھوچکی ہے.یہاں پر کوئی ایگزیکٹو اتھارٹی نہیں رہی.واپس ہم قبائلی نظام کی جانب جارہے ہیں.جمہوریت تمام منظر نامے سے غائب ہوکر جانے کہاں چھپی بیٹھی ہے.
عملاً یہاں گروہوں کا راج ہے اور انہی کا سکہ چل رہا ہے.جس کے پاس دو چار ہزار بندے جمع کرنے کی صلاحیت ہے اسی کا یہاں بول بالا ہے.جسے تھانے کچہری سے نمٹنے کے لئے چند سو ہاتھوں کا سہارا حاصل اس کے لئے تمام خون معاف ہیں.سب کے ذہن میں یہ سوچ راسخ ہوچکی ہے کہ آگے بڑھنے کے لئے دوسرے کی گردن پر پاؤں رکھنا ہوگا.جو بھی اس دیس کی سلامتی کا ذمہ دار اور اس کے لئے فکرمند ہے سب کو سوچنا ہوگا یہ صورتحال قومی سلامتی کے حوالے سے نہایت سنگین ثابت ہوگی.
پہلے ہی عالمی رائے ہمارے خلاف ہے کیا ان حالات میں مزید ہم پر دباؤ میں اضافہ نا ہوگا کہ آئے روز مسلح جتھے اٹھتے ہیں اور دارلخلافہ کو یرغمال بناکر بیٹھ جاتے ہیں.کل کلاں اسے جواز بناکر یہ نا کہا جائے گا کہ ایسا ہی کوئی گروہ جوہری اثاثوں پر بھی قابض ہوسکتا ہے.یہ مطالبہ نا کیا جائے گا کہ ہم بطور ریاست ناکام ہوچکے ہیں,ہماری نااہلی دنیا پر واضح ہوچکی ہے چنانچہ دنیا کے امن کو قائم رکھنے کی خاطر ہمیں یہ اثاثے اقوام متحدہ کے حوالے کرنے ہونگے.
افسوس کے پیشگی اظہار کے ساتھ کہنا پڑتا ہے محض اپنی ناک اونچی رکھنے اور ایک فرد واحد کو نیچا دکھانے کے لئے یہ تمام تر خطرناک کھیل کھیلا جارہا ہے.کسے علم نہیں گزرے تمام عرصے میں دھرنوں,ہڑتالوں اور سازشوں کا مقصد کیا تھا.کس کے اشارہ ابرو پر سب کیا جارہا ہے,پردہ غیب میں کون ہے,جو پس پردہ بیٹھ کر ڈوریں ہلاتا رہا, اس کے بارے میں کسی کو کچھ علم نہیں ہے.ناچنے,تھرکنے والے جسم,اور تالیاں پیٹنے والے ہاتھ مگر سب کے سامنے ہیں.
مجھے نواز شریف کی سیاست اور حکومت سے کوئی غرض نہیں کہ وہ رہے یا نا رہے.اگر اس نے کوئی جرم کیا ہے تو اسے اپنا کیا دھرا بھگتنا پڑے گا,بڑی حد تک بھگت چکا مزید بھی بھگتائے گا.مگر یہ بھی سچ ہے کہ جبر کے ذریعے کسی کی طاقت تو ختم کی جاسکتی ہے مگر,اس کے چاہنے والوں کے دل سے اس کی محبت نہیں نکالی جاسکتی.اس ملک میں محض الزام لگا کر کسی بھی حکومت کو چلتا کیا جاسکتا ہے مگر یہ ہرگز ممکن نہیں کہ یہاں ”غداری”ثابت کرکے بھی کسی پر سیاست کے دروازے بند کئے جاسکیں.
ضیاالحق نے بھٹو کو پورے اعتماد سے پھانسی دی تھی.پھر اک طویل عرصے تک ظلم,جبر اور ہتھکنڈوں کے ذریعے بھٹو کے نام کو دفن کرنے کی کوشش کی جاتی رہی.اس کی طاقت کو تحلیل اور سیاست کو ختم کرنے کے لئے انتخابات بھی غیر جماعتی بنیادوں پر کرائے گئے.پھر بھی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں جونہی مگر موقع ملا بھٹو کا نام پہلے سے زیادہ شدت سے ابھر کر سامنے آیا.
اگر یہ سب کچھ اتنا ہی آسان ہوتا تو ”غدار وطن الطاف حسین”کا چیپٹر کب کا بند ہوچکا.یہ بھی کوئی راز کی بات ہے کہ فاروق ستار کی تمام تر اچھل کود اور مصطفی کمال کی ڈرائی کلیننگ فیکٹری مطلوبہ نتائج فراہم کرنے میں کیوں ناکام رہی ہے.
خواہ کسی کو برا لگے یا اچھا,حقیقت مگر یہی ہے کہ نواز شریف اس وقت بھی پنجاب میں بڑی سیاسی قوت کا مالک ہے.اس نے اپنے پچھلے پینتیس سالہ سیاسی کیریئر میں پنجاب میں اپنی جڑیں مستحکم کرلی ہیں.دیہی پنجاب میں تقریبا ہر دوسرا خاندان سرکاری نوکریوں اور دیگر مراعات کی صورت مسلم لیگ کی حکومت سے فوائد سمیٹ چکا ہے.اس لئے جتنی بھی کوشش کرلی جائے اس کی عوامی حمایت ختم کرنے کی کسی کوشش کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا.اور آج کل ایک غیر ملکی شہری کی سرپرستی میں بھان متی کا کنبہ تشکیل پارہا یہ سوائے انتشار بڑھانے کے اور کچھ حاصل نا کرپائے گا.جبکہ اس کینیڈین مولوی کے ہاتھ پر جو بے جوڑ سیاسی نکاح پڑھائے جارہے ہیں ان کا بھی زیادہ دیر ایک دوسرے کے ساتھ چلنا مشکل نظر آرہا ہے.
کسی نے یہ سوچنے کی زحمت محسوس کی ہے کہ اگر بالفرض دھرنوں اور استعفوں سے حکومت کو گھر بھیجنے میں کامیابی حاصل ہو بھی گئی تو پھر کیا ہوگا.اگلے انتخابات میں مسلم لیگ پھر منتخب ہوکر آجائی گی.اور اگر کسی طور اسے اکثریت حاصل کرنے اور حکومت بنانے سے روک بھی دیا گیا تو پھر کیا وہ کسی دوسری جماعت کی حکومت کو ٹھنڈے پیٹوں ہضم کرلیں گے.خواجہ سعد رفیق تو پہلے ہی اشارہ دے چکے ہیں کہ اگر ہم نہیں ہوں گے تو پھر یہاں کوئی بھی نہیں ہوگا.یہاں جو پچھلے ساڑھے چار سال میں انتشار کی نظیر قائم ہوچکی ہے کیا یہ آئندہ سب کے لئے جواز نا ہوگا.کیسے کسی دوسرے کو پھر بغاوت اور شورش سے روکنا ممکن ہوا کرے گا.نظر یہی آرہا ہے کہ یہ رجحان خدانخواستہ ملکی سلامتی کے لئے نہایت نقصان دہ ثابت ہوگا.پہلے ہی اس دھرنا سیاست سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہوچکا ہے اگر اب بھی اس عمل کی حوصلہ شکنی نا کی گئی تو کسی بڑے سانحے کا اندیشہ ہے.

حصہ

جواب چھوڑ دیں