قصورواقعہ،کڑوا سچ ۔حصہ سوم

کیا پاکستانی معاشرہ غیر محفوط اور جنسی ہیجان کا شکار ہے؟

ریٹنگ کی دوڑ نے فی الوقت یہ بات قطعیت کے ساتھ ثابت کر دی ہے کہ میڈیا اداروں میں کونٹینٹ ڈیولپمنٹ کے نام پر جو لوگ بھرتی کیے گئے ہیں ان کو Social Sense نہ ہونے کے برابر ہے۔ بہت ضروری ہے کہ ان کو معاشرت، طرز معاشرت اور فلسفہ معاشرت پڑھایا جائے۔

قصور شہر کی حد تک دستیاب معلومات کے مطابق یہ تمام واقعات دو متصل تھانوں کی حدود میں ہوئے ہیں۔ یہ واقعات تسلسل کے ساتھ ایک جیسی عمر کی بچیوں کے ساتھ ہوئے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس معاملے میں ملوث ممکنہ طور پر کئی افراد نہیں بلکہ ایک ہی فرد ہے جو یہ سب کچھ کر رہا ہے۔

نفسیات کی دنیا میں اس کیفیت کو ایک بیماری کا نام دیا جاتا ہے اور اس کو Pedophilia کہتے ہیں ‘ جس میں مریض (مجرم) چھوٹے بچوں سے جنسی تعلق رکھتا ہے۔ یہ زنا کاری (Adultery) یا Rape نہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کوئی قبیح حرکت ہے۔

موخرالزکر حرکات تو کسی جنسی شہوت اور جنسی تحریک کا نتیجہ ہو سکتی ہیں مگراول الذکر تو ایک ویسی ہی نفسیاتی بیماری ہے جیسے ہم جنس پرستی۔ گو کہ یہ الگ بات ہے کہ ہم جنس پرستی کے طرف دار اس کو کسی ذہنی بیماری کہنے کے خلاف ہی نہیں بلکہ اس کو انسانی حقوق کے زمرے میں بھی لے آتے ہیں۔

سب سے زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ قصور کے واقعے کی آڑ میں معاشرے کے رشتوں کی بھد اور تحقیر کی جارہی ہے بلکہ ان کو مشتبہ بنایا جا رہا ہے۔ اب چچا، ماموں، پھوپھا، خالو، تایا، بہنوئی جیسے رشتے بھی شک کا شکار کیے جا رہے ہیں، ان کا تقدس ملیا میٹ کیا جا رہا ہے اور اس پلید فلسفے کو پروموٹ کرنے والے اس کے منفی اثرات کا سوچ بھی نہیں سکتے

اس وقت پاکستانی قوم اور معاشرے کی 207 ملین کی آبادی کو جنسی ہیجان کا شکار بتایا جا رہا ہے۔ گلوکار اور موسیقار شہزاد رائے کراچی پریس کلب میں فرماتے ہیں کہ ہر پانچ میں سے ایک بچہ جنسی زیادتی کا شکار ہے۔ نہیں معلوم کہ یہ اعداد و شمار ان کے پاس کہاں سے آئے ہیں، بصورت دیگر ہمارے تو محلے کے 500 گھر دائیں ہاتھ پر اور 500 گھر ادھر بائیں ہاتھ پر، ایسا کوئی کیس دہائیوں سے نہیں سنا۔ جو شرح شہزاد رائے نے بتائی ہے اس کے بعد تو مائیں اپنے بچے سڑک پر بھی نہ بھیجیں۔ الٹے سیدھے اعداد و شمار بتانا اور پھر اس کی میڈیائی تشہیر خود ایک نفسیاتی مسئلہ ہے۔

اس میں کیا شک ہے کہ یہ بیماری ہمارے معاشرے میں پھیل رہی ہے۔ مگر کیا کیا جائے کہ اسباب معلوم کیے بغیر عطائی طبیبوں کی طرح معاشرے کے بونے علاج کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ جن ملکوں میں جنسی تعلیم دی جارہی ہے کیا وہاں ریپ کی شرح کم ہوئ یا بڑھی؟

کیا ان ممالک میں Molesting یا بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کم ہوئی ہے؟ یا اس میں اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے؟

وہاں ہم جنس پرستی کم ہوئی یا بڑھی؟

وہاں شادیوں کی شرح کم ہوئی ؟

Single Parenting کی شرح کم ہوئی؟

بلکہ کیا ان ممالک میں اب Incestuous Relationships مزید نہیں بڑھ گئے؟

کیا اس تعلیم کے نتیجے میں AIDS جیسے مرض اور STDs کی شرح نہیں بڑھی؟

اس جنسی تعلیم کو دینے کے فوائد کیا ہیں اور نقصانات کیا ہیں؟ اس کی بیلنس شیٹ بننی چاہیے۔

ایک اہم سوال یہ ہے کہ یورپ میں جنسی تعلیم کو کس مقصد کے لیے نصاب تعلیم میں شامل کیا گیا اور ہمارے ہاں کس مقصد کے لیے شامل کیا جا رہا ہے؟

شرم و حیا سے عاری ذہن پاکبازی، عفت، عصمت جیسے لفظوں سے واقف اور آشنا تو ضرور ہیں مگر اس کے فہم، مضمرات اور اس کے تصورات سے آگاہ اور شناسا نہیں۔

سوال یہ بھی ہے کہ نصاب میں جنسی آداب کی تعلیمات کا مضمون شامل کرنے کا مطالبہ کرنے والے خواتین و حضرات میں “ماہر تعلیم” کس قدر ہیں؟ شرمین عبید چنائے، ملالہ یوسف زئی، شہزاد رائے، ماہرہ خان، جبران ناصر اور دیگرمیڈیا اور سوشل ایکٹیوسٹ تو ہیں مگر ماہر تعلیم نہیں

معاشرے میں ادب و آداب کے فروغ، انٹرنیٹ کے استعمال کی حدود اور اس کے تقاضوں پر مبنی بحث، سوشل میڈیا کا درست اور والدین کا چیک، سمارٹ فون پر موجود ایپس کا استعمال اور اس پر چیک۔ اسلامی تعلیمات کی منبر و محراب سے ترویج، میڈیا کے ذریعے پھیلتے فحاشی و عریانی کے طوفان کے روک تھام پر کوئی مثبت گفتگو نہیں۔

اگر سوال اٹھا ہے تو اس کا جواب اہل الرائے اور اہل علم سے معلوم کیا جائے گا نہ کہ معاشرے میں خرابی پھیلائے جانے والے لوگوں سے۔ ابھی پاکستانی معاشرہ علم کے موتیوں سے لبریز ہے، ان سے رجوع ان کو اس موضوع کے ڈسکشن کے Loop میں لینا ازحد ضروری ہے۔

سوال یہ بھی ہے کہ اس طرح کے جرائم کی روک تھام سزا کے حوالے سے کچھ سخت مثالیں قائم کرکے ہوگی یا نصاب میں جنسی تعلیم کے مضامین شامل کر کے؟

جواب آپ بھی تلاش کریں اور ہم بھی۔

حصہ
mm
کاشف حفیظ صدیقی ایک تحقیقاتی ادارے سے وابستہ ہیں ۔ کراچی کے مقامی روزنامے میں طویل عرصہ "منظر۔پس منظر" کے نام سے کالمز بھی لکھتے رہے ہیں ۔ 7 تحقیقی کتب کے مصنف بھی ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں