عوام کے درد کامداوا،مگر کیسے ؟؟

’’طبقہ اشرافیہ ملکی خزانے پر ناگ بن کر بیٹھاہے
حکمرانوں کے غیر ملکی دور ے عیاشی کاسامان ہیں‘‘
روشن ماضی پر نظر بہت کچھ عطاکرسکتی ہے
’’ہر شہری یہ تمنا دل میں رکھنے میں حق بجانب ہے کہ اسے معاشرتی آزادی میسر ہو،چادر اور چار دیواری کا تحفظ ملے ،صحت،علاج و معالجے کی سہولتیں دستیاب ہوں،حکومت ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم کے بہترین مواقع فراہم کرے ،غریب اور نادار طلبہ اسکالر شپ سے محروم نہ ہوں۔اگر یہ سب ہورہاہو تو کوئی بعید نہیں کہ وہ معاشرے کا فرد اچھاشہری بن کر ملک وقوم کی خدمت کرسکے اور اس طرح ملکی معیشت کاپہیہ تیزرفتاری کے ساتھ چلے ،خوشحالی کادور دورہ ہو،مالی بحران کا دور دور تک کوئی نام ونشان نہ ہو ،لیکن یہ اسی صورت ممکن ہو گا جب طبقہ اشرافیہ مراعات ترک کردے ،عام لوگوں کو بھی انسان سمجھیں ،عیاشی کواوڑنابچھونابنانے کے بجائے غریبوں کو بھی خوشیوں کاحقدار سمجھیں،حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے بجائے بنیادی سہولتیں دیں تو اس معاشرے سے غلاظت کاخاتمہ ہوسکتاہے ۔روزمرہ کی اشیا عوام کی دسترس میں سستے داموں آجائے تو وہ بھی سکون کاسانس لے سکتے ہیں،عوام ذریعہ معاش کی فکر سے آزاد ہوکر بے فکر ی کی زندگی اپنے لیے چن سکتے ہیں لیکن یہ طبقہ اشرافیہ ملکی خزانے پر ناگ بن کر بیٹھاہوا ہے کہ جس خزانے کی ذمہ دار ی یہ تھی کہ اس کے ذریعے عام عوام کی دادرسی ہوتی ، انہیں سکون واطمینان کی دولت میسر ہوتی لیکن اس کے برعکس ملکی خزانہ حکمرانوں کی رنگینیوں کاسامان کررہاہے ،ذاتی خواہشات اور مقاصد کیلئے استعمال ہورہاہے ،افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ حکمرانوں کے اندر شرم و غیرت نام کی کوئی چیز نہیں،بیرون ملک کے دورے سیرسپاٹے کرتے ہیں جیسے ایک محلے سے دوسرے محلے جارہے ہوں،دورے کے نتیجے میں حاصل کچھ ہویانہ ہو ان کے دورے انہیں اور اہل خانہ کی عیاشیاں اور سیرسپاٹے کاپورا سامان کررہے ہوتے ہیں ،اسی طرح معمولی سے علاج کیلئے بھی بیرون ملک جانے کو ہی ترجیح دیتے ہیں وہ الگ بات ہے کہ وہاں گھومیں پھریں وہاں کے ماحول سے لطف اندوزہوں شاپنگ کریں گھروالوں کو مطمئن کریں اور لوگوں کے سامنے فخریہ یہ بات بتاسکیں کہ میں فلاح فلاح ممالک گیا،میرااسٹیٹس یہ ہے ،اس کے مقابلے میں ہم اگر ان عیاشیوں کا مقابلہ کسی امیرملک کے حکمرانوں کے ساتھ کریں تو وہاں بھی یہ سیرسپاٹے نظر نہیں آئیں گے نہ ہی ملکی خزانہ ذاتی خواہشات پر قربان ہوتانظر آئیگا،بے دریغ لٹتاہواخزانہ جوعوام کی امانت ہوتاہے ،ماضی کے آئیڈیل حکمران اس طرح خزانے کو خود اپنے اوپر ممنوع سمجھتے تھے ،آپ ان کی زندگی پر نظردوڑائیں تو آپ کو محسوس ہوگا وہ بہت اصول پسند لوگ تھے ،یہاں کے نااہل حکمرانوں کو طرز حکمرانی دیکھنی ہوتو انہیں سے کچھ سیکھ لیں کہ جن کے پاس مال ودولت کی فراوانی ہونے کے باوجود وہ رعایا کے خدمت گار ہونے کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے تھے یہی وجہ ہے اس شاندار دور میں عوام اور ان کے اہلخانہ ایک اچھی زندگی بسر کرتے تھے اور خوابوں اور سرابوں میں زندگی بسر نہیں کرتے تھے بلکہ حقیقت کو اپنی نظرسے دیکھتے اور لطف اندوز ہوتے تھے ۔حضرت عمرؓ کے دور میں خوشحالی کادور دورہ تھاکہتے ہیں لوگ زکوٰہ دینے نکلتے تھے لیکن لینے والاکوئی نہیں ہوتاتھا،عمربن عبدالعزیزؓ کادور دیکھ لیں کس قدر خوشحالی تھی اسی طرح اور اسلامی ادوار دیکھ لیں تو بحران مالی تنگی بدامنی کہیں نہیں دکھے گی ،قتل وغارت کہیں نظرنہیں آئیگا ،بیروزگاری کانام ونشان نہیں ہوگا ۔اسلام کانظام اس قدر مثالی ہے کہ اگر آج بھی اس کے اصولوں کے اپنالیاجائے تو کوئی بعید نہیں کہ معاشرہ دوبارہ سے خوشحال ہوجائے ، ایمان اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ایک جدید دور کاآغاز ہوجائے۔

حصہ
mm
محمد سمیع الدین انصاری نے جامعہ کراچی سے ابلاغ عامہ میں ماسٹرز کیا ہے۔انہوں نے سندھ مدرسۃ الاسلام سے نیوز پروڈکشن کورس بھی کیا ہے۔صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں،روزنامہ دنیا کراچی میں بطور اسسٹنٹ سٹی ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں