وارفتگی 

اہلیہ کو غمگین دیکھا تو میں سوال کر بیٹھا : “عمرہ ہوگیا ہے تو خوش ہونا چاہیے کہ منھ بِسورنا چاہیے _”
کہنے لگیں :” کرسی پر بیٹھ کر عمرہ کوئی عمرہ ہوتا ہے _ دور دور سے طواف کرلیا ، نہ غلافِ کعبہ کو چھوا، نہ رکنِ یمانی کا استلام کیا ، نہ ملتزم سے چمٹے، نہ حجر اسود کو بوسہ دیا، مجھے تو لگتا ہے کہ میرا عمرہ ہوا ہی نہیں _”
 میں نے تسلّی دینی چاہی: ” معذوروں کا عمرہ ایسے ہی ہوتا ہے، جیسے کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے والوں کا سجدہ پیشانی زمین پر ٹِکایے بغیر ہوجاتا ہے _”
  وہ خاموش ہوگئیں، لیکن چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ میرا جواب انھیں مطمئن نہیں کرسکا ہے _
دو روز کے بعد گروپ لیڈر نے اطلاع دی کہ آج مسجد عائشہ جائیں گے ، جو لوگ دوسرا عمرہ کرنا چاہیں وہ وہاں سے احرام باندھ سکتے ہیں _ یہ سن کر اہلیہ خوش ہوگئیں _ کہنے لگیں کہ اب کی بار میں پیدل چل کر اور خانہ کعبہ کے قریب جاکر طواف کروں گی اور پیدل ہی سعی بھی کروں گی _
 مجھے بہ خوبی اندازہ تھا کہ اہلیہ کے لیے پیدل طواف اور سعی کرنا تکلیف کی وجہ سے ممکن نہیں ، اس لیے میں نے ہمّت شکنی کرتے ہوئے کہا :” ایک مرتبہ دو طواف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت نہیں _ آپ نے اپنی حیاتِ طیبہ میں 4 مرتبہ عمرہ کیا ہے ، کبھی ایک سے زاید عمرہ نہیں کیا _”
 ” لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اجازت دی تھی کہ وہ اپنے بھائی عبد الرحمن کے ساتھ مقام ‘ تنعیم’ تک جائیں ( اب وہیں ایک مسجد بنا دی گئی ہے جو مسجد عائشہ کے نام سے مشہور ہے) اور وہاں سے احرام کی نیت کرکے آئیں اور طواف کریں _” اہلیہ نے دلیل پیش کی _
میں نے جواب دیا : ” حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایک عذر(حیض) پیش آگیا تھا ، جس کی بنا پر وہ دوسروں کے ساتھ عمرہ نہیں کرسکی تھیں، اس وجہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے لیے ایک گنجائش پیدا کی تھی ، یہ عام لوگوں کے لیے اجازت نہ تھی _”
 اہلیہ میری کوئی بات سننے کو تیار نہ تھیں _ انھیں تو دوسرا عمرہ کرنا تھا اور وہ بھی پیدل _ ان کا ساتھ دینے کے لیے میں بھی دوسرا عمرہ کرنے کے لیے مجبور تھا _
احرام ہوٹل ہی سے باندھ لیا تھا _ مسجدِ عائشہ پہنچ کر عمرہ کی نیت کی _ بس ڈرائیور نے واپسی میں حرم کے قریب لاکر چھوڑ دیا
 آج کل حرم میں خانہ کعبہ کے قریب زمزم کے کنویں کی مرمّت کا کام چل رہا ہے، اس لیے مطاف کا صحن تنگ کردیا گیا ہے اور وہاں صرف عمرہ کرنے والوں کو داخل ہونے کی اجازت ہے _ ہم حرم کے ایک دروازے سے داخل ہوئے ، مگر صحنِ مطاف تک نہ پہنچ سکے ، بلکہ مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے پھر باہر نکل آئے _ لیکن اہلیہ نے ہمّت نہ ہاری اور پھر کوشش کرنے پر اصرار کیا _ ہم دوبارہ گیٹ نمبر 94 سے (جسے ان دنوں عمرہ کرنے والوں کے لیے خاص کردیا گیا ہے) اندر داخل ہوئے _ اس بار ہم خانہ کعبہ کے بالکل قریب پہنچ گئے تھے _
 اہلیہ نے طواف شروع کیا _ مجھے اس پر حیرت ہو رہی تھی کہ جس عورت کو دو روز قبل چند قدم چلنے میں دشواری ہو رہی تھی اور جس نے وہیل چیر پر طواف اور سعی کی تھی وہ آج اپنے پیروں پر پُھرتی سے طواف کر رہی تھی _ میں باڈی گارڈ کی طرح ان کو ہجوم سے بچاتا رہا اور وہ شانِ بے نیازی سے طواف کرتی رہیں _ ایک بار میں نے دیکھا کہ وہ بیت اللہ سے قریب ہوتی گئیں ، یہاں تک کہ انھوں نے رکن عراقی کے قریب غلافِ کعبہ پکڑ لیا اور اسے چھونے لگیں ، پھر آگے بڑھیں اور رکنِ یمانی کے پاس دوبارہ غلاف پکڑ کر اس سے اپنا منھ رگڑنے لگیں _اس وقت ان کی وارفتگی اور بے خودی دیدنی تھی _ انھیں کسی چیز کا ہوش نہ تھا _ ایک بار وہ حجر اسود کی طرف بڑھیں ، اس کی طرف ہاتھ لپکایا ، ایسا لگا کہ وہ اسے چھو ہی لیں گی _ میں نے زور سے کہا  : ” اگر ابھی شہید ہونا نہیں چاہتی ہیں تو یہ کوشش نہ کیجیے _ حجر اسود کا بوسہ لینے کی ہمّت صحت مند مرد بھی کم ہی کر پاتے ہیں، آپ کے لیے تو ممکن ہی نہیں _”  وہ مان گئیں _
     طواف مکمل کرنے کے بعد اہلیہ نے اسی طرح پیدل چل کر سعی بھی کی _ میں نے احتیاطاً فولڈنگ کرسی لے لی تھی _ جب وہ تکلیف محسوس کرتیں تو میں کرسی بچھا دیتا اور وہ کچھ دیر سُستا لیتیں _ آخر میں میں نے حلق کرایا اور ہم ہوٹل لوٹ آئے _
       اتنی خدمت اور تعاون کرنے کے بعد بھی اہلیہ کی شکایت باقی تھی کہ اگر میں نے انھیں نہ روک دیا ہوتا تو وہ حجر اسود کا بوسہ لینے میں ضرور کام یاب ہو جاتیں
حصہ
mm
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی صاحبِ طرز قلم کار ،مصنف اور دانش ور ہیں۔ وہ تصنیفی اکیڈمی، جماعت اسلامی ہند کے سیکریٹری اور سہ ماہی مجلہ تحقیقات اسلامی کے نائب مدیربھی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں