جنسی تعلیم یا سزاؤں کا اطلاق

قصورمیں 7 برس کی معصوم زینب کوبدترین جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعداس کا اندوہناک قتل، نہ صرف پاکستان میں سب سے بڑے واقعہ کے طورپرسامنے آیا بلکہ اس کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دی اورسوشل ویب سائٹ ٹوئٹرپر#JusticeForZainab کا ہیش ٹیگ ورلڈ وائڈٹاپ ٹرینڈ کے طورپردیکھا گیا۔اس واقعہ کے بعد جہاں عوام الناس اورمذہبی قوتوں کی جانب سے قاتلوں کوعبرت کا نشان بنانے اورسرعام پھانسی کے مطالبات سامنے آئے وہیں سیکولراور لبرل قوتیں بھی زینت کے قاتلوں کوسرعام پھانسی کے مطالبات کرتی نظرآئیں۔اس واقعہ کے بعد جہاں قاتلوں کوبے نقاب کرنے اورسزاکے مطالبات سامنے آئے وہیں نصاب میں جنسی تعلیم کے نہ ہونے کونشانہ بناتے ہوئے اسے شامل کرنے کے حوالے سے نئی بحث کا آغازہوگیا ہے دلیل کے طورپر برطانیہ سمیت دیگرمغربی ممالک کی مثال پیش کی جارہی ہے کہ وہاں نصاب میں بچوں کو نصاب میں جنسی تعلیم دی جاتی ہے جس سے وہاں ایسے واقعات رونمانہیں ہوتے ۔لیکن جب میں نے مذکورہ ممالک کے بارے میں معلومات حاصل کرنا شروع کیں توصورتحال اس کے بالکل برعکس نظرآئی ،وہاں کے سرکاری ذرائع کے مطابق بچوں کے جسمانی وجنسی استحصال میں قابل توجہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔جرمنی کے وفاقی محکمہ پولیس کے مطابق گزشتہ سال بچوں کے ساتھ جسمانی وجنسی استحصال کے 11ہزار395واقعات ریکار ڈ کئے گئے ،اوران واقعات میں5فیصداضافہ دیکھنے میں آیا ہے، نشانہ بننے والے ان بچوں کی اکثریت 6برس سے کم بتائی جاتی ہے۔برطانیہ میں بھی اس وقت وہاں کی پولیس بچوں کے استحصال کے واقعات کی اطلاع پر 1400افرا د کے خلاف تفتیش کررہی ہے ۔ان حقائق کی روشنی میں کم ازکم یہ جواز توختم ہوجانا چاہیے کہ جنسی تعلیم سے اس گھناؤنے کام کی روک تھام ممکن ہے ہاں البتہ ایک طریقہ ہے اس کی روک تھا م کا، اوروہ ہے اسلامی سزاؤں کا اطلاق اوراسلامی تعلیمات پر عمل درآمد ،کیونکہ جب ایک بچی باپردہ ہوگی اورسیکنڈ یہ کہ جرائم پیشہ عناصر کو سرعام سنگسارہوجانے کا ڈرہوگا تویقیناًوہ کسی گھناؤنی حرکت کرتے ہوئے سوبارسوچیں گے،اس لیے پاکستانی کمیونٹی کواب جنسی تعلیم کی بجائے اسلامی نظام کے قیام کیلئے اپنا کرداراداکرنا چاہیے تاکہ مغرب کی گندی تہذیب جوہمارے معاشرے میں کافی حدتک رچ بس چکی ہے اس کا خاتمہ ہواورپھرہماری کوئی زینب درندگی کا نشانہ نہ بنے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں