سوشل میڈیا کے معاشرے پر اثرات

جب بھی سوشل میڈیا کا لفظ آتا ہے، ذہن میں فوری طور پر فیس بک اور ٹویٹر ہی کا نام آتا ہے۔ حالانکہ واٹس ایپ اور وائبر بھی اسی میں شامل ہیں۔ یہ ابلاغ کے بہت طاقتور، موثر اور بہترین ذرائع ہیں۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے کمیونیکیشن بہت آسان ہو گیا ہے۔ساری دنیا سمٹ کر آپ کی انگلی کی پور اور ہتھیلی پر آ چکی ہے۔آپ لمحہ بھر میں دنیا کے کسی بھی حصّے سے رابطہ کر سکتے ہیں۔اور صرف بات ہی نہیں بلکہ وڈیو کال کے ذریعے وہاں کا نظارہ بھی کر سکتے ہیں۔ اس کے اور بھی کئی مقاصد ہو سکتے ہیں اور کچھ اصول وضوابط بھی ہیں۔
مثبت کے ساتھ اس کے منفی پہلو بھی ہیں۔ جن کا بحیثیت مسلمان ہمیں بہت خیال رکھنا چاہیے اور حد درجہ محتاط رویہ اختیار کرناچاہیے۔
ہماری اپنی بنائی ہوئی پوسٹ ہو یا ہم نے کسی کی پوسٹ شیئر کی ہو، یا کسی پوسٹ پر کوئی کمینٹ کیا ہو،یا ہمارا بات کرنے کا انداز، جس کو،chat کہا جاتا ہے، یا ہماری ڈی پی ہو ، یہ سب ہماری شخصیت، مزاج اور کردار کو کھول کھول کر بتا رہے ہوتے ہیں۔ چاہے ہم مکمل پردہ کرنے والے ہی کیوں نہ ہوں۔
پاکستان میں نیٹ کا استعمال 1990 کی دہائی میں شروع ہوا۔ اور سوشل میڈیا بھی بہت پرانہ نہیں ہے۔ یہی کوئی 15 سال ہو رہے ہیں اس کو آئے ہوئے۔ یہ انٹرنیٹ کے ذریعے بہت ہی آسان اور سستا ذریعہ مواصلات ہے۔ جس سے پوری دنیا سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ یہی اس کی خوبی بھی ہے اور غلط استعمال ہوا تو خامی بھی۔ اس کے توسط سے اچھی باتیں ، دین، قرآن اور احادیث سکھائے جا سکتے ہیں۔ بہت سے واٹس ایپ گروپ ایسے بنے ہیں جن میں روزانہvoice massages کے ذریعے تجوید ،تلاوت اور تفسیرپڑھائی جا رہی ہے۔ اور دنیا بھر میں بہت سے مرد و خواتین جو روزانہ گھر سے نکل کر دین کا علم حاصل نہیں کر سکتے وہ استفادہ کر رہے ہیں۔ بہت سے ادبی گروپس ہیں جو واٹس ایپ سے تربیت اور ادبی نشستیں بھی آن لائن وائس میسج کے ذریعے کرتے ہیں اور کیا خوب کرتے ہیں۔ اس کی مدد سے بہت سی خوش خبریاں بھی منٹوں میں پہنچ جاتی ہیں۔ ابھی بچہ پیدا ہوا اور فوراً اس کی تصاویر وائرل ہو جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ بچے کے کان میں بزرگوں سے اذان بھی دلائی جاتی ہے۔
لیکن جس طرح چھری سے پھل کاٹے جاتے ہیں، آپریشن کیا جا سکتا ہے اسی چھری سے کسی کو قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔یعنی کہ استعمال کرنے والے کی نیت اور صوابدید پر اس کا عمل منحصر ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا مغربی ممالک میں علم اور معلومات حاصل کرنے کے لیے ایجاد ہوا تھا۔ مگر پاکستانی معاشرے میں اس کو زیادہ تر تفریح اور وقت گزاری یعنی ٹائم پاس کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
کچھ سالوں پہلے تک خبروں کا ذریعہ صرف اخبارات، ریڈیو تھے اور نیوز چینلز کے آنے کے بعد وہ کوئی خبر نشر کرتے تھے۔ مگر اب ہر فرد کے پاس یہ طاقت آ گئی ہے۔جس کا جو دل چاہے وہ لکھے اور پوسٹ بنا کر پھیلا دے۔ اگر یہ دلچسپ بات ہوگی تو منٹوں میں وائرل ہو جاتی ہے یعنی پھیل جاتی ہے۔ اور اتنی مرتبہ ہمارے پاس آتی ہے کہ ہم اس کو سچ ماننے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ وہ صریحاً افواہ بھی ہو سکتی ہے۔ چاہے وہ عمران خان کی تیسری شادی کی خبر ہو یا میرا کی کوئی بات یا پھر ہالی وڈ، بالی وڈ کی کوئی خبر ہو۔بہت جلد زبان زد عام ہو جاتی ہے۔ اس طرح کا پروپیگنڈا کرنے کے لیے سوشل میڈیا کو استعمال کیا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا نے بہت سی ایسی ویب سائٹس متعارف کروائی ہیں جن کی مدد سے دنیا کی ہر زبان کی کتب، رسائل اور اخبارات کا مطالعہ آسان ہو گیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ خرابی ہوئی کہ کتاب خرید کر پڑھنے کے رجحان میں کمی ہوئی کیونکہ نیٹ پر کتاب پڑھنا اور ہاتھ میں کتاب لے کر پڑھنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
ان سب کے علاوہ سوشل میڈیا سے بہت سے اچھے کام بھی لیے جا رہے ہیں۔ جیسے دین کی دعوت و تبلیغ ، خیر کی باتوں کا پھیلاؤ،کسی بھی موضوع کا علم یا تربیتی کلاس لی جاتی ہیں۔ کسی بھی مسئلے پر مفتی صاحبان سے مشورہ یا فتوی لیا جاتا ہے۔
اب ہر ادارہ اپنے ملازمین کا ایک گروپ بنا لیتے ہیں اور اس پر اطلاعات اور ہدایات جاری کرتے ہیں۔ اس طرح تمام افراد تک پیغام ایک ساتھ پہنچ جاتا ہے۔ یہ بہت موثر ذریعہ ہے۔ جو سیاسی جماعتوں کے لیے بھی ناگزیر ہو گیا ہے۔انتخابات میں ان کی ساری (کمپین) انتخابی مہم ٹویٹر اور فیس بک پر چلائی جاتی ہے۔ آپ یہاں اپنی پسند کے مطابق پیج بنا کر ہم مزاج لوگوں سے روابط بڑھا سکتے ہیں۔ اور تو اور کوئی بھی کاروبار کر سکتے ہیں۔ آج کل آن لائن شاپنگ بہت عام ہو گئی ہے جو اس سوشل میڈیا کا ہی تحفہ ہے۔ ہر ٹی وی چینلز کا بھی پیج ہوتا ہے وہاں جا کر آپ اپنی پسند ناپسند ، آرا ، تجاویز دے سکتے ہیں۔ یہی کام مختلف مصنوعات کے پیجز پر جا کر بھی کیا جا سکتا ہے۔
ہم نے تو یہاں تک دیکھا کہ ایک خاتون شادی کے لیے عروسی ملبوسات کی خریداری کر رہی تھیں۔ دکاندار کا چھوٹا اپنی کمر پر شرارہ پھنسا کر اور دوپٹا اوڑھ کر بلکل دلہن کی طرح کھڑا ہوتا اور وہ خاتون اس کی تصویر لیتی اور کہیں واٹس ایپ سے بھیج دیتی پھر وہاں سے جواب آتا، یہ ہے کون اور یہ سلسلہ چلتا رہا۔ہر شے کا ایک فیس بک پیج موجود ہے اس پر آپ کمنٹس بھی دال سکتے ہیں اور اپنی پسند نا پسند کا اظہار بلا جھجک کر سکتے ہیں۔
اسکے علاوہ خرابیا بھی بہت ہیں سب سے پہلے تو یہ جو اسٹیٹس کی بلا ہے اس پر بات کرتے ہیں۔ یہ امیری غریبی والا اسٹیٹس نہیں ہے بلکہ اس وقت آپ کا موڈ کیا ہے خوش ہیں یا اداس یا پھر آپ کے خاندان میں کوئی اضافہ ہوا ہے یا کوئی شادی بیاہ ہے یا آپ باہر گھومنے جا رہے ہیں یا کھانا کھا رہے ہیں ہر چیز کی خبر ڈھیروں افراد تک پہنچ جاتی ہے۔
اس کے بھی برے نتایج سامنے آتے ہیں کہ اسٹیٹس ہے کہ پورا خاندان کہیں گھومنے گیا ہے اور پیچھے سے اطمینان سے پورے گھر کا صفایا ہو گیا۔ یا اگر کچھ نہیں تو آپ لوگوں کی بری نظر اور حسد کا ہی شکار ہو جاتے ہیں۔
ایک اور بہت بڑی برائی معاشرے پر اثر انداز ہو رہی ہے کہ مرد اور عورت کا اختلاط بہت آسان اور عام ہو گیا ہے۔ حالانکہ خواتین اور مردوں کی محافل ہوں یا تعلیمی ادارے کی ۔اسلام مخلوط ملاپ کی اجازت نہیں دیتا۔مگر یہاں تو کوئی بھی کسی پیج پر جا کر اپنے لنکس ، اسمائل یا دل بنا ہوا پھول سینڈ کر سکتا ہے۔پھر وہاں سے جواب آتا ہے اور یہ سلسلہ چل پڑتا ہے کبھی کبھی تو ملاقات بھی ہو جاتی ہے اور کبھی شادی تک بات پہنچ جاتی ہے۔
پھر سلفی کلچر ایک اور بلا ہے ، ہر نوجوان تصویر لیتا ہے یا لیتی ہے پھر اس کو ہر جگہ شیر کیا جاتا ہے جب کہ تصویر کی اجازت بہت ضروری حالت میں ہے اور بہت کراہیت کے ساتھ دی گئی ہے جیسے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ۔اس وجہ سے پردہ بھی بہت متاثر ہو رہا ہے۔ایک نقصان یہ ہوا کہ آج کے نو جوان اور بچے جسمانی ورزش والے گیم کھیلنا چھوڑ چکے اور دن بھر اور رات دیر تک بیٹھ کر سوشل میڈیا استعمال کر رہے ہوتے ہیں بلکل پاس بیٹھے ماں باپ تک کو پتہ نہیں چلتا کہ کیا کر رہا ہے وہ میلوں دور لوگوں سے رابطے میں ہوتا ہے مگر گھر والوں سے دور ہوتا جا رہا ہے۔آنکھیں اور دماغ کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ کیونکہ نیند پوری نہیں ہو پاتی اور چھوٹی سی اسکرین پر آنکھیں گڑھ کر کئی گھنٹے بیٹھنے سے طبیعت سست اور بوجھل رہتی ہے اور توند الگ نکل رہی ہے۔پھر اکثر لوگ اپنی فیک آئی ڈیز بنا لیتے ہیں جس کی وجہ سے بہت سی غلط فہمیاں پھیلتی ہیں لوگوں کا ایک دوسرے پر سے یقین اٹھتا جا رہا ہے۔کئی ایسے کیسز بھی سامنے آئے ہیں جس میں لڑکے یا لڑکی کے فیس بک پروفائل کو دیکھ کر بنتے ہوئے رشتے ٹوٹ گئے ۔
ایک اور مثلا یہ بھی ہے کہ سوشل میڈیا میں غلط اور غیر تحقیق شدہ مسیج بھیجنے کا بہت رواج ہو گیا ہے اور اس کے سب سے زیادہ شکار علامہ اقبال اور مرزا غالب کے اشعار ہوتے ہیں اس کے علاوہ غیر مستند احادیث اور اقوال زریں بڑے پیمانے پر گردش کر رہے ہوتے ہیں اور کبھی تو دو چار سال پرانی کوئی خبر تلاش گمشدہ یا ہمارے نبیؐ کی گستاخانہ خاکوں کی خبریں چلتی ہیں اس سے گریز کرنا چاہیے اچھی اور با مقصد چیزیں جو تصدیق شدہ ہو وہ شیر کرنی چاہیے لطائف اور غیر ضروری مسیج پھیلانے سے بچنا چاہیے کیونکہ اس کا دوہرا عذاب ہوگا ایک دوسروں کا وقت زیاں کرنے کا اور دوسرا جھوٹ میں حصّہ ڈالنے کا۔
سوشل میڈیا کا سب سے زیادہ اثر ہمارے معاشرے پر یہ ہو رہا ہے کہ ہمارے کار آمد وقت کا بہت زیادہ زیاں ہو رہا ہے ، ہم کسی کام کے لیے موبائل اٹھاتے ہیں اور سوشل میڈیا پر آنے والے پیغامات میں الجھ کر اصل کام بھول جاتے ہیں جب احساس ہوتا تو بہت سا وقت گزر چکا ہوتا ہے اس لئے پوری منصوبہ بندی کہ ساتھ تعوذ اور تسمیہ پڑھ کر اس کو استعمال کرنا چاھیے تاکہ لہو لعب میں وقت ضایع نہ ہو۔ ہمارا اور دوسروں کا وقت امانت ہے اس امانت میں ہم سے کسی بھی قسم کی خیانت ہو گئی تو اللہ کی پکڑ بھی ہو سکتی ہے ۔اس طرح سوشل میڈیا کے کچھ اچھے اور کچھ برے اثرات معاشرے مرتب ہو رہے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ بہت سوچ سمجھ کر اور احتیاط کہ تقاضے پورے کرتے ہوئے اس سمندر میں چھلانگ لگائی جائے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں