اے انسان! پلٹ اپنے ربّ کی طرف۔۔۔۔۔

کیا کسی نے غور کیا کہ اب انسان کا اپنے پیدا کرنے والے ربّ سے رشتہ بہت حد تک کمزور پڑ چکا ہے، بلکہ تقریباً ٹوٹ ہی چکا ہے۔ اب اسے کوئی تکلیف، رنج اور غم پنہچے تو وہ کوئی ایسا فرد یا ادارہ تلاش کرتا ہے جس پر اس مصیبت کا الزام دھر سکے۔ یہ مغربی طرززندگی اور طرزفکر ہی کا کمال ہے کہ اب ہر بات کا موجب ’’حکومت‘‘ کو سمجھا جاتا ہے۔ جب کہ اس سے قبل ہم حضورصلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنھم کی زندگیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ ہر راحت، خوشی، تکلیف یا غم کے معاملہ میں اللہ ہی کی ذات کی طرف پلٹتے تھے۔
اب آپ، قصور واقعہ ہی کو لے لیجیے۔
کتنے انسان ہوں گے جن کا ذہن اس واقعہ کے بعد اپنے اعمال اور انسانوں کے اجتماعی گناہوں کی طرف گیا ہوگا؟۔
ٹھیک ہے حکومت، نالائق ہے۔۔۔ برے اور خائن لوگ ہم پر مسلط ہیں۔۔۔ ہر چیز بگاڑ کا شکار ہے۔۔۔ کہیں عافیت اور خیر نظر نہیں آتا۔۔۔ مگر یہ سب بھی تو اللہ کے عذاب کی ایک شکل ہے کہ وہ ہماری بداعمالیوں، برے کرتوتوں اور نافرمانیوں کی بنا پر ہم پر ایسے لوگ مسلط کر دیتا ہے جو ہمارا جینا دوبھر کر دیتے ہیں۔
دو تین روز قبل قرآن کی تفسیر احسن البیان کا مطالعہ کر رہا تھا کہ سورہ الانعام کی آیت نمبر 65 پر سے گزر ہوا۔
یہ آیت میں نے پہلے تو متعدد بار پڑھی ہے مگر اس کی تشریح کے اس پہلو کی طرف ذہن نہیں گیا تھا جو فاضل مفسر نے یہاں بیان کی ہے۔ پہلے آپ آیت کا ترجمہ پڑھیں پھر تشریح:
’’کہو، وہ اِس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کردے، یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کردے، یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کرکے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوادے۔ دیکھو، ہم کس طرح بار بار مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں شاید کہ یہ حقیقت کو سمجھ لیں.‘‘..الانعام: ۵۶
مفسر احسن البیان، ’’اوپر سے عذاب‘‘ کی تشریح میں لکھتے ہیں:
’’یعنی آسمان سے، جیسے بارش کی کثرت، ہوا، پتھر کے ذریعہ سے عذاب یا امراء و حکام کی طرف سے ظلم۔ (نوٹ: امراء و حکام کی طرف سے ظلم کو ’’اوپرسے عذاب‘‘ میں شامل کرنے کی بات میں نے پہلی بار جانی)۔‘‘
’’قدموں کے نیچے سے عذاب‘‘ کی تشریح میں لکھتے ہیں: ’’جیسے دھنسایا جانا، طوفانی سیلاب، جس میں سب کچھ غرق ہو جائے یا مراد ہے ماتحتوں، غلاموں اور نوکروں چاکروں کی طرف سے عذاب کہ وہ بددیانت اور خائن بن جائیں۔ (یہ پہلو بھی پہلی بار آشکار ہوا کہ خائن نوکر اور ماتحت ملازمین بھی عذاب کی ایک صورت ہے)۔‘‘
پھر مسلم شریف کی ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حدیث میں آتا ہے، نبیؐ نے فرمایا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کیں، پہلی یہ کہ:
۔۔۔۔ میری امت غرق کے ذریعے سے ہلاک نہ کی جائے، دوسری یہ کہ
۔۔۔۔ قحط کے ذریعہ سے اس کی تباہی نہ ہو اور تیسری یہ کہ
۔۔۔۔آپس میں ان کی لڑائی نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ نے پہلی دو دعائیں قبول فرما لیں اور تیسری دعا سے مجھے روک دیا۔ (صحیح مسلم)
انسانی معاشروں میں اللہ کو کیا مقام حاصل ہے، اس کا تعلق انسان کے عقیدے اور لائف اسٹائل سے ہے۔ مغربی معاشرے، بے عقیدہ و بے خدا معاشرے ہیں، یا اگر خدا وہاں موجود بھی ہے تو محض چرچ و کلیسا کی حد تک۔ بدقسمتی سے مسلمانوں نے جب سے ان کی نقالی اختیار کی ہے، ان کے معاشرے بھی رفتہ رفتہ ویسے ہی بنتے جا رہے ہیں، بلکہ تقریباًَ بن چکے ہیں جیسے کہ ’بے خدا‘ معاشرے ہوا کرتے ہیں۔ ہمارا اپنے ربّ، اللہ سے تعلق ٹوٹ چکا ہے اور اب ہم بھی غیر مسلموں کی طرح اپنے برے حالات پر بجائے اپنے گریبانوں میں جھانکنے اور اجتماعی و انفرادی توبہ کرنے کے، ہر چیز کا الزام کسی دوسرے فرد، ادارے یا حکومت پر ڈال کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔
اگر، لبرل جماعتیں یہ کام کریں (کہ ہر چیز کا ملبہ حکومت پر ڈالیں) تو بات سمجھ میں آتی ہے، کہ ان کا نظریہ ہی یہ ہے کہ اللہ کو ’’سیاست‘‘ سے کیا دلچسپی۔ لیکن اگر وہ جماعتیں اور مذہبی رہنما، جن کا اصل کام انسانوں کو اللہ سے جوڑنا ہے، وہی طرز سیاست اختیارکریں جو لبرل پارٹیوں کا ہے، تو پھر بہتری کی امید کہاں سے آئے گی؟ کیا کسی کو یاد ہے کہ کسی مذہبی لیڈر کا کوئی ایسا بیان کسی اخبار میں آخری بار کب چھپا تھا جس میں اس نے عوام سے کہا ہو کہ وہ اللہ کی معصیت سے باز آ جائے، انفرادی و اجتماعی توبہ کرے اور دورنگی و منافقت کی طرز زندگی چھوڑ کر خالص مسلمان بن جائے؟
اصلاحِ احوال کی شاہِ کلید یہ ہے کہ ہمارے قومی سطح کے مذہبی لیڈروں کی یہ اپیل میڈیا میں باربار گردش کرتی نظر آئے کہ:
اے انسان! پلٹ اپنے ربّ کی طرف۔۔۔۔۔ تیرا دھیان کدھر ہے؟

حصہ

جواب چھوڑ دیں