وکیلوں کے دیس میں کوئی منصف بھی تو ہو

ہمارے دیس میں عوام کی جذباتی وابستگی اپنے اپنے سیاسی رہنماؤں سے اس قدر زیادہ ہے کہ ہر ووٹر اپنے لیڈر کا وکیل دکھائی دیتا ہے۔ جو شخص بھی جس سیاسی رہنما سے وابستہ ہے وہ اس کے ہر سیاہ و سفید کو درست مانتا ہے۔ بلکہ اگر ایسے ووٹر حضرات سے اگر اتنا ہی پوچھ لیا جائے کہ کیا آپ کے سیاسی قائد سے کبھی کوئی غلطی بھی ہوئی تو کوئی بھی اس کا جواب دینے کی بجائے آپ کا سر پھوڑنے کو ترجیح دے گا۔ ایسے میں ہمارے ووٹر حضرات ووٹر کم اور وکیل زیادہ لگتے ہیں جو اپنے موکل کو ہمیشہ بیگناہ ثابت کرنے پر ہی تلے رہتے ہیں چاہے سارا شہر داستان جرم کا گواہ ہو۔
ایسے وکیل نما ووٹرز کے ہوتے ہوئے کون سا سیاسی رہنما پریشان رہ سکتا ہے کہ کوئی اس کی کارکردگی کو پرکھ کر ووٹ ڈالے گا۔ پھر نہ جانے ایسا کیوں ہوتا ہے کہ لوگ ملک کی زبوں حالی کا رونا بھی روتے رہتے ہیں، حالانکہ ملکی فیصلے کرنے والوں کا چناؤ وکیلانہ اور موکلانہ طرز پر کرنے والے لوگ بھی یہی ہوتے ہیں۔
کہتے ہیں ایک بادشاہ کا اپنے قافلے کے ہمراہ ایک دیہاتی علاقے سے گزر ہوا تو اچانک اس کی نظر بینگن کے پودوں پر پڑ گئی۔ بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا کہ دیکھو یہ کتنی خراب سبزی ہے۔ پھر کیا تھا وزیر سارے رستے بینگن کی وہ برائیاں بیان کرتا رہا جو قافلے میں شامل شاہی حکماء تک کو معلوم نہ تھیں۔
واپسی پر بادشاہ سلامت کا گزر پھر اسی رستے سے ہوا تو بادشاہ سلامت کو بینگن دوبارہ نظر آ گئے۔ لیکن اس بار بادشاہ سلامت نے عجب ارشاد فرمایا کہ دیکھو کتنی پیاری سبزی ہے یہ۔ پھر کیا تھا، وزیر موصوف نے بینگن کی وہ تعریف شروع کی کہ بادشاہ سلامت سمیت سب لوگ حیران رہ گئے۔ آخرکار بادشاہ سلامت نے وزیر سے پوچھ ہی لیا کہ آخر کیا ماجرہ ہے کہ جاتے ہوئے تم نے بینگن کی اتنی برائیاں بیان کیں اور اب آتے ہوئے اسی بینگن کی اتنی تعریفیں کر رہے ہو تو وزیر نے بھی ہمارے آج کل کے ووٹرز کی طرح عجب ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوے وہ تاریخی بات کہ ڈالی جو کم از کم ہمارے موجودہ وکیل نما ووٹرز کے لئے مشعل راہ ضرور ہے۔ وہ بولا،
“میں آپ کا نوکر ہوں، بینگن کا نہیں۔”
یہی صورتحال ہمارے موجودہ وکیل نما ووٹرز میں پائی جاتی ہے جو اپنا قیمتی ووٹ محض چند چھوٹے چھوٹے ذاتی فائدوں کے عوض گروی رکھ دیتے ہیں۔ ایسے میں علامہ اقبال کے اس فارسی شعر کا وہ ایک مصرعہ یاد آتا ہے جو انھوں نے انگریزوں کے ہاتھوں مہاراجہ گلاب سنگھ کو صرف پچھتر لاکھ کے عوض وادی کشمیر بشمول زمین، پہاڑ، انسان، حیوان، چرند، پرند کی فروخت کے بارے میں کہا تھا کہ:
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند
ترجمہ: قوم بیچ دی، اور کتنی سستی بیچ دی
نجانے کب ہمارے وکیل نما ووٹر بھائیوں کو ہوش آئے گا کہ ووٹ کتنی قیمتی شے کا نام ہے۔ نجانے کب ہماری قوم بیجا وکالت چھوڑ کر ایک غیرجانبدار منصف کی طرح پرکھ کر حقداروں کو ووٹ دے گی۔ جب تک ہمارے ووٹرز وکیلانہ طرزعمل ترک کر کے منصفانہ طرزعمل پر نہیں آ جاتے ملک و قوم کے مستقبل میں کوئی بہتری نہیں آ سکتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اب ہم لوگ مخصوص سیاستدانوں کے وکیل نما ووٹر بننا ترک کر دیں اور وکیل کی بجائے ایک منصف بن کر ووٹ کا فیصلہ کریں۔

حصہ
mm
چکوال کے رہائشی جواد اکرم نے بین الاقومی تعلقات میں ماسٹرز کیا ہے اور عالمی امور پر لکھتے رہتے ہیں۔ملک کے اردو اور انگریزی اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل میں ان کے تجزیے شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں