قدرت کا حسین تحفہ،،سر زمین مانسہرہ

خیبر پختون خواہ بہت سی چیزوں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے. خیبر پختون خواہ کا ضلع مانسہرہ کی پورے ملک میں سبز ہ زاروں،جھیلوں اور چراگاہوں کی وجہ سے الگ پہچان ہے. یہاں کے لوگ مہمان نوازی میں پوری دنیا میں مشہور ہیں. یہ ضلع سن 1976ء کو معرض وجود میں آیا۔ موجودہ ضلع بالاکوٹ ، مانسہرہ ، شنکیاری، بٹل، چھترپلین، اوگی، ڈاڈر اور جبوڑی پر مشتمل ہے۔ضلع کی جغرافیائی خصوصیات پر نظر ڈالیں تو اِس کی سرحدیں ضلع ایبٹ آباد، اور کشمیر ،شمالی علاقہ جات و مالاکنڈ ڈویڑن سے ملی ہوئی ہیں. جبکہ دنیا کی بہترین سڑک شاہراہِ ریشم اسی ضلع سے گزرتی ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں ہمہ گیر ترقی ہونے کے باوجود یہاں آج بھی لوگوں کا اہم ذریعہ معاش جنگلات ہیں. جو لوگوں کی معاشی اور معاشرتی زندگی سنوارنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہاں کے لوگ رجعت پسند اور اپنی اخلاقی قدروں کے بارے میں بڑے حساس ہیں۔سیر وسیاحت اِس علاقے میں تیزی سے ترقی کرنے والی منافع بخش صنعت ہے۔ 8 اکتوبر 2005 کو قیامت خیز زلزلے نے اس ضلع کے انفرااسٹرکچر کو تباہ کر کے رکھ دیا تھا. بالاکوٹ سمیت کئی دیہات ملیا میٹ ہو گئے تھے۔ جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔
دنیا بھر سے سیاح قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لئے وادی کاغان، ناران، شوگران، بالاکوٹ اور جھیل سیف الملوک کا رْخ کرتے ہیں.
بالاکوٹ صوبہ خیبر پختونخوا، پاکستان کے ضلع مانسہرہ کا ایک شہر ہے. جس کو تحصیل کا درجہ بھی حاصل ہے. بالاکوٹ مانسہرہ شہر سے 38 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہے. سطح سمندر سے اس کی اوسط بلندی 971 میٹر (3188 فٹ) ہے۔ یہاں ہندکو زبان سب سے زیادہ بولی جاتی ہے جبکہ اردو زبان خاص و عام ہے۔یہ شہر تاریخی و سیاحتی اہمیت کا حامل ہے. بالاکوٹ کو سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی تحریک مجاہدین کے باعث تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ دونوں عظیم ہستیوں کے مزارات اسی شہر میں واقع ہیں۔ بالاکوٹ تحریک مجاہدین کا آخری پڑاؤ تھا اور سکھوں کے خلاف عظیم جدوجہد کا آخری مرکز۔ 6 مئی 1831ء کو ایک خونریز جنگ کے بعد سید احمد اور شاہ اسماعیل نے بالاکوٹ کی اسی سرزمین کو اپنے لہو سے سرخ کیا تھا۔ شہر کی مرکزی مسجد سید احمد شہید کے مزار سے ملحق دریائے کنہار کے کنارے پر واقع ہے جو سید احمد شہید مسجد کہلاتی ہے۔ 2005ء میں آنے والے زلزلے نے اس شہر کو بھی تباہ کر کے رکھ دیا تھا۔ زلزلے کی تباہی کے آثار اب بھی جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔ حکومت نے اس شہر کو تعمیرات کے لیے غیر موزوں اور خطرناک قرار دے رکھا ہے اور شہر سے چند کلومیٹر باہر “نیو بالاکوٹ سٹی” کے نام سے نیا شہر بسانے کا منصوبہ ہے جس پر کام کا آغاز ہو چکا ہے۔
دریائیکنہار کی بات کریں تو یہ وادی بالاکوٹ کی اوٹ میں بہتا ہے۔ اس کی لمبائی 166 کلومیٹر ہے۔جھیل لولوسر سے نکلنے والا یہ دریا بالاکوٹ شہر کے قلب سے گزرتا ہوا مظفر آباد کے قریب دریائے جہلم میں جا گرتا ہے. اس کے پانی میں عمدہ ٹراؤٹ مچھلی ملتی ہے. ٹراؤٹ مچھلی کا ذائقہ بہترین اور تمام مچھلیوں سے الگ ہے. بالاکوٹ سے ناران جانے والی سڑک اس کے کنارے سے گزرتی ہے۔ چٹانوں سے ٹکراتا ہوا اس کا پانی ایک خوبصورت منظر پیش کرتا ہے.کچھ ماہ قبل اس دریا کی خوبصورتی کو براہ راست دیکھنے کا اتفاق ہوا. میں دریا کے کنارے ایک چٹان پر بیٹھ گیا اور پاؤں دریا کے ٹھنڈے یخ پانی میں ڈال دیے،پاؤں پانی میں ڈال کر یوں محسوس ہوا کہ جیسے برف سے بنے موزے پہن لیے ہوں. ٹھنڈ کے ساتھ ایک راحت بھرے سکون کا احساس ہورہا تھا.
ایسا سکون دریا کی گود، سبزے کی چادر اوڑھے پہاڑوں کی اوٹ، ہرے بھرے ماحول، اور کھلے آسمان کے نیچے، یخ پانی میں ڈوبے پیروں سے ہی مل سکتا تھا. گرمیوں کا موسم تھا.. ہر طرف ہریالی ہی ہریالی پھیلی ہوئی تھی.وقفے وقفے سے دریا کی لہر اس چٹان سے ٹکرارہی تھی، جس پر میں بیٹھا تھا. دریا کا دودھیا شفاف پانی انتہائی پرسکون لگ رہا تھا. سردیوں میں اس کا رنگ نیلا اور گرمیوں اس کا رنگ مٹیالا ہوجاتا ہے، کیونکہ دریا کا بہاؤ زیادہ ہوجاتا ہے۔ دریا کی لہریں کبھی تیز تو کبھی ہلکی ہوجاتیں، جس طرح میرے دل میں بسی یادیں جو کبھی شدت اختیار کرتیں اور کبھی نرم رو۔ یہ دریا بھی نجانے کتنے ہی لوگوں کا رازدار ہوگا. میری یادوں کی طرح کئی اور لوگوں کی یادوں کو یہ اپنے سینے میں دفن کیے ہوئے ہوگا.کبھی کبھی مجھے یہ دریا خوف ناک اور قاتل لگتا کہ اس نے کتنے ہی انسانوں کو موت کی گھاٹ اتار دیا ہوگا.اور کبھی کبھی یہ مجھے بے حد پیارا لگنے لگتا جیسے اس وقت لگ رہا تھا.کیا یہ دریا بھی روتا ہنساتا قہقہے لگاتا ہوگا؟ جب کبھی اس کا بہاؤ تیز ہوتا ہو تو ہوسکتا ہے یہ رو رہا ہوں. سردیوں میں جب یہ سست روی کے ساتھ بہتا ہو تو ہوسکتا ہے یہ ہنستا مسکراتا ہوں.
دریا اور بہتے پانی سے پیدا ہونے والی یہ موسیقی یہ آواز رس گھولتی میری سماعتوں سے ٹکڑا رہی تھی. تو دل کے بند دریچے، یادوں کے بند دروازے اور کھڑکیاں کْھل جاتی ہیں. یوں جیسے ہوا کا ایک تیز جھونکا بند دروازے کے کواڑ کو کھول دیتا ہے.کسی کی یاد کے ساتھ اس دریا کے کنارے بیٹھنا کتنا راحت بھرا لمحہ تھا.. پل پل، سانس سانس، دھڑکن دھڑکن یادوں کو محسوس کرتا اور بڑھاتا چلا جارہا تھا.قدرت کی اس حسین تخلیق کو دیکھ کر میرے قلب میں بھی کسی کی یاد کے حسین پل بیدار ہورہے تھے.یہ بہت خوبصورت منظر تھا،کیمرے کی آنکھ تصورات کے ان حسین لمحوں کو قید تو نہیں کر سکتی تھی.البتہ یہ لمحات میرے دل کے میں ضرور قید ہوگئے تھے. قدرت کے بنائے ہوئے ان حسین و دلکش مناظر نے میرے ذہن پر ایک خوشگوار تاثر چھوڑا اور یوں دیوان زندگی میں ایک اور حسین مصرعہ کا اضافہ کیے میں دریائے کنہار سے رخصت ہوگیا. اگر آپ کو کبھی سر زمیں مانسہرہ آنا پڑے تو ان خوبصورت جگہوں پہ چکر لگا کے دلی سکون حاصل کریں۔

حصہ
mm
سید ثاقب شاہ اپنے قلمی نام ابن شاہ سے بھی لکھتے ہیں،گریجویٹ ہیں۔مانسہرہ کے رہنے والے ہیں لیکن ان دنوں کراچی میں مقیم ہیں۔

جواب چھوڑ دیں