امین صادق۔۔آپ تو بازی لے گئے

انتیس دسمبر کو ادارہء نور حق میں ہونے والے تعزیتی اجلاس کی روداد
________
نرم دمِ گفتگو،گرم دمِ جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز
اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دلفریب،اس کی نگہ دلنواز
سامنے دیوار پہ آویزاں بینر پہ نظر آنے والی تصویر سے ہی امین صادق بھائی کی شخصیت کی خاصی عکاسی ہو رہی تھی۔کچھ سوچتے ہوئے بات شروع کرنا اور مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ بولنے والے امین صادق بھائی کے لئے ان کے دوستوں کے دل میں ایسی محبت اور ایسی اپنائیت کا اظہار تو واقعی قابلِ رشک ہے۔ نظریاتی اور تحریکی تعلق کی روحانیت بھی کیا عجب ہے۔
ان کے خاندان کی کچھ خواتین اور مرد بھی سامنے والی نشستوں پر موجود تھے۔رنج اور ملال کی کیفیت ماحول پہ طاری تھی۔
دوستوں کے دل تو اسی وقت درد سے بوجھل ہوگئے تھے جب تقریباً ایک سال پہلے ان کی جان لیوا بیماری کی خبر ملی تھی۔اللہ تعالی کی مشیت اور مصلحت،تاہم انہوں نے کمال ہمت سے اس بیماری کا مقابلہ کیا اور کمزوری کے باوجود اپنے معمولات کو جاری رکھنے کی کوشش کی۔
جب قاضی حسین احمد تاریخی’’ کاروانِ دعوت و محبت‘‘ لے کر نکلے تو امین صادق کی تیار کردہ یادگار ترانوں کی کیسٹ ’’ہوتا ہے جادہ پیماں پھر کارواں ہمارا‘‘ گویا اس پورے قافلے کی جان بن گئی۔ ایک جوش اور ولولہء تازہ پیدا ہورہا تھا ۔
۔۔۔۔ تیز چلو دوستو سامنے منزل ہے وہ۔
۔۔۔۔ تحریکِ اسلامی کا اس ملک میں طوفاں آئے گا۔
۔۔۔۔ یہ دیس جگمگاِئے گا نورِ لا الہ سے۔
غرض ہر ترانہ امر ہوگیا اور دلوں میں نقش ہوگیا۔
عسید،امین صادق کے بڑے صاحب زادے ہیں،اپنے تاثرات لکھ کر لائے تھے اور ٹھیر ٹھیر کر اپنے ابو کی خوبیاں بتارہے تھے۔الطاف شکور بھائی نے ان تین سالوں کی روداد سنائی جب امین صادق نے پاسبان کے نوخیز پودے کو اپنے خون پسینے سے سیراب کیا تھا
جب انجنِئر اعجاز بھائی نے ان کے چھوٹے بھائی رحیم عادل کو بلایا تو بس ایک گہری خاموشی کے بعد سسکیوں اور ہچکیوں کی آوازیں بلند ہونے لگیں اور وہ صرف یہ کہہ کر بیٹھ گئے کہ ’’آج ہم یتیم ہوگئے‘‘۔
انکے بہنوئی ڈاکٹر بشیر لاکھانی کے مطابق امین صادق صحیح معنوں میں اپنے خاندان کے سرپرست اور مربی تھے۔اور جب ان کے بہت عزیز دوست نجیب ایوبی آئے بس وہ بھی رو رہے تھے اور بآوازِ بلند حاضرین کو بھی رلا رہے تھے اور کہہ رہے تھے ’’اب مجھے ڈانٹ ڈپٹ کرکے اپنی محبت کا اظہار کون کرے گا‘‘۔
ڈاکٹر آفاق اختر نے ان کی کمٹمنٹ بتائی اور اسامہ بن رضی نے ان خوابوں کا تذکرہ کیا جو ایک تحریکی ٹی وی چینل کے قیام کی خاطر تھا مگر نہ جانے وہ خواب کیوں اور کیسے بکھر گئے۔
طارق جمیل بھولا والے بزمِ شعرو سخن اور تبادلہء خیال گروپ کے حوالے سے ان کی یادیں تازہ کر رہے تھے۔برادر عبدالواحد شیخ نے گواہی دی کہ پاسبان کے لئے دیوانہ وار کام کرنے والے امین صادق نے ایک مشکل مرحلے پر محمد علی درانی کی موجودگی میں اپنے اس فیصلے کا برملا اعلا ن کیا کہ ہمیں شوریٰ کے فیصلے کی اطاعت کرنی چاہیے۔اور انہوں نے تحریک سے اپنی وابستگی اور وارفتگی تا دمِ آخر برقرار رکھی۔
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے

حصہ

2 تبصرے

  1. تبادلہء خیال گروپ میں مرحوم امین صادق کے حوالے سے تاثر انگیز تحریر لکھنے والے سرفراز عالم بھائ کو جب انجنئر اعجاز بھائ نے ڈائس پر بلایا تو انہوں نے معذرت کر لی -کبھی کبھاربوجھل دل کے سا تھ اظہارِ خیال مشکل ہو جاتا ہے !

جواب چھوڑ دیں