”ننھا فرشتہ۔۔۔۔۔۔”

وہ آج مجھے راہ چلتے ملا، اس نے مجھے دیکھتے ہی آواز دی
انکل
وہ پاس آیا سلام کیا۔
بیٹا! مسجد کیوں نہیں آپ؟ میں نے پوچھا۔
انکل وہ وہ۔۔۔۔ وہ ہکلایا۔
مجھے نماز نہیں آتی، نہیں میں چھوٹا ہوں۔ اس نے ایک دم سے دوباتیں بتائیں، جو کسی سیانے نے اس کے کچے ذہن میں بٹھا دیں تھیں۔ میں نے حسبِ عادت جیب سے چند سکے نکال کر ھدیۃ اس کی ہتھیلی پر رکھے۔ اور کہا: چاکلیٹ لینا۔ اچھا!!! نماز کے لیے آیا کرو، آپ آؤ گے تو سیکھو گے ناں۔۔۔
میں نے اسے پیار سے سمجھایا۔ انکل وہ کہہ رہے تھے تم ؟ تم چھوٹے ہو، مسجد نہ آیا کرو۔ شرارتیں کرتے ہو، ”بڑے خود تو آتے نہیں اور بچوں کو بہلانے، سر سے اتارنے مسجد بھیج دیتے ہیں، جنہیں ابھی ناک صاف کرنی نہیں آتی”۔ مجھے ایک صاحب کی باتیں یاد آنے لگیں۔ یقیناً اس بچے کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہوگا۔ اچھا ہم مغرب میں، مسجد ساتھ جائیں گے۔ میں نے کچھ سوچتے ہوئے اس بچے سے کہا۔
وہ میرا ہی منتظر تھا۔ اس کے بازو گیلے تھے۔ ننھا چہرہ سامنے سے دھلا تھا۔ صاف دکھ رہا تھا کہ ابھی ابھی پانی کی چھینٹیں ماری ہیں۔ پاؤں پر پلاسٹک کی چپل گیلی تھی، پاؤں دھلے لگ رہے تھے۔ ٹوپی اس کے ہاتھ میں تھی۔ مجھے دیکھتے ہی وہ مسکرایا۔ مجھے اس پر بہت پیار آیا۔ کیسے اللہ جی کا ننھا مہمان اس سے ملاقات کے لیے تیار تھا۔ خوشی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ مگر افسوس کوئی اس کے اور اللہ کے درمیان ملاقات میں خلل ڈال رہا تھا۔ آج جب میں نے اسے کہا:”ہم مسجد ساتھ جائیں گے” وہ خوش ہوا تھا۔ ساتھ ہی اس نے اپنے ننھے دوستوں کی طرف دوڑ لگائی تھی۔ ”مجھے انکل مسجد ساتھ لے کر جائیں گے پھر دوسرے انکل مجھے نہیں روکیں گے” میرے کانوں کے پردوں سے یہ آواز ٹکرائی تھی۔
ہم دونوں مسجد میں داخل ہوئے۔ وہ میری داہنی جانب تھا۔ اچانک وہ بجلی کی سرعت سے باہنی جانب ہوگیا۔ مجھے اس کے یوں جگہ بدلنے پر حیرت ہوئی۔ میں نے اس کی آنکھوں کو دیکھا وہ سامنے صف میں بیٹھے ایک بزرگ پر جمی تھیں۔ میں اسے بازو سے پکڑ کر سامنے لایا، اسے ماتھے پر پیار کیا۔ صف میں بٹھایا اور خود ان صاحب کی طرف بڑھ گیا۔ سلام مسنون کے بعد اپنا مدعا گوشِ گزار کیا۔ انہوں نے توجہ سے بات سنی اور معذرت کرتے ہوئے کہا:”ہاں واقعی! مجھے بچوں کو روکنا نہیں چاہیے تھا بلکہ انہیں نماز، وضو سکھانا چاہیے تھا۔ بڑے آتے ہیں ۔۔۔نہیں آتے۔۔۔ بچے تو آتے ہیں ناں۔۔!! انہیں اللہ جی سے تعلق میں پختگی، اس عمر میں نصیب ہوگئی تو پوری زندگی در در کی ٹھوکریں کھانے سے بچ جائیں گے۔ اللہ جی سے تعلق نصیب پختہ ہو گیا، دل میں محبت پیدا ہوگئی تو آخرت کے ساتھ دنیا بھی بن جائے گی۔
انہوں نے اسے پاس بلایا۔ پیار کیا، بچے سے اپنے رویے پر معافی مانگی اور اسے گلے سے لگاتے ہوئے کہا: اب میں اپنے بچے کو خود لے کر آیا کروں گا۔ اب وہ بچہ، اور اس جیسے بہت سے بچے روز ان کی معیت میں مسجد آتے ہیں۔ وہ روزانہ انہیں مسجد کے آداب، وضو کا طریقہ، اللہ جی سے مانگنے کا طریقہ سکھاتے ہیں اور اللہ جی اور بچوں کے درمیان تعلق کی مضبوطی کا سبب بنتے ہیں۔ میں اور آپ بھی اللہ جی اور ان ننھے بچوں کے درمیان تعلق کی سیڑھی بن سکتے ہیں۔ ممکن ہے خدا تعالیٰ اپنے ان ننھے مہمانوں کے طفیل ہمیں بھی قبول فرما لیں اور اپنی رضامندی کا اعلان فرما دیں۔ کیا خیال ہے؟

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں