اس ملک کو ضرورت ہے ایک ایسے نظام کی

وہ لمحہ کتنا ہی پُر مسرت اور خوشگوار ہوگا کہ جب ہند کے مسلمان باسیوں کی سماعت رات 12بج کر 4منٹ پر ایک ایسے اعلان سے لطف اندوز ہو رہی ہوگی کہ جس میں ان کی برسوں کی خواہش اور دن و رات کی انتھک محنت بارشوں کے بعد قوس قزاع کے دلفریب رنگوں کی طرح رنگ لا رہی ہوگی۔ ان کے دل اس گوش گزار سے بلّیوں اچھل پڑے ہونگے جو ان کے دلوں پہ پڑی صدیوں کی اداسی کی واپسی کے سفر باندھنے کا ذریعہ بنا ہوگا۔ وہ خبر کہ جس کے سنتے ہی لوگوں کے سر ربِّ کعبہ کے حضور سجدہ ریز ہوچکے ہونگے اور آنکھوں سے تشکر کے آنسوؤں کا ایک سیلاب رواں ہوگا۔ جسم میں ایک ایسی حرارت برق رفتاری سے محو گردش ہوگی کہ جس کی گرمائش سے جوانوں کے سر فخر سے بلند ہوچکے ہونگے اور ان کے عزم کا یہ عالم ہوگا کہ جس کے سامنے بلند و بالا پہاڑ بھی ایک کنکر نظر آنے لگے ہونگے۔ وہ خبر کہ جس میں اقبالؒ کا ایک خواب شرمندۂ تعبیر ہوکر دنیا کے نقشہ پر ایک کبھی نہ ختم ہونے والا اثر چھوڑ چکا ہوگا۔ اس وقت کے باسیوں کا قائداپنے جوانوں سے یہ کہہ رہا ہو گاکہ تمہاری محنت تو رنگ لے آئی لیکن اب تمہیں ایک ایسے لا متناہی امتحان سے گزرنا ہے کہ جس کے سامنے گزشتہ کوششیں بہت چھوٹی نظر آئیں گی۔ تمہیں اس ملک میں ایک ایسا نظام قائم کرنا ہے کہ جس سے ہر طرف امن و آشتی کا دور دوراں ہو۔ تمہیں اپنے آپ کو اس قابل بنانا ہے کہ دنیا کہ سامنے سر اٹھا کہ کھڑے ہو سکو اور وقت کے نمرودوں کا مقابلہ علم کی تلوار سے کر سکو۔ تمہیں لوگوں کے دلوں میں امیدوں کے وہ دیپ جلانے ہیں کہ جس سے انہیں اپنا مستقبل تابناک نظر آنے لگے ۔ تمہیں وہ حالات پیدا کرنے ہیں کہ جس سے اس ملک کا ہر باشندہ بلاخوف و خطراور رضامندئ دل سے احکام الٰہی کا پابند ہوسکے اور اپنے ہر دل عزیز ہستیؐ کے ارمانوں کا عملی نمونہ پیش کر سکے۔ تمہاری علمی قابلیت کا یہ عالم ہو کہ جواپنوں کے ساتھ ساتھ غیروں کی بھی پیاسی روح کی تسکین کا ذریعہ بن سکے۔ وہ قائد جو اس قوم کی ترقی و تعمیر کا بوجھ اپنے جوانوں کے کندھوں پر کہ جس پر اسے بے پناہ اعتبار تھا، منتقل کرکے اس عارضی و فانی دنیا سے اپنے جوانوں کوہمیشہ ہمیشہ کیلئے داغِ مفارقت دے گیا۔
آج اس قائد کا بنایا ہوا ملک اپنے ۷۰ویں سال میں داخل ہو چکا ہے۔آج اس قائد کے ملک میں ایک ایسا نظام رائج ہے جسے شاید جمہوری نظام کے نام سے جانا جاتا ہے اور آج اس ملک میں یہ نظامِ جمہوریت پورے آب و تاب کے ساتھ اپنے کرشمے دکھا رہاہے۔ یہ نظام اپنے اندر ایسی ایسی خوبیاں پنہا کئے ہوئے ہے کہ جسے سمجھنے کی استطاعت شاید ہی اس ملک کے کسی باسی میں ہو۔ اس نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس جمہوری نظام میں حکومت کی ڈور عوام کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ اب عوام تو عوام ہوتی ہے اوربالخصوص پاکستانی عوام کی تو کیا بات ہے۔ ان میں پڑھے لکھے، قابل اورسمجھدار لوگ بھی ہوتے ہیں اور ان میں جہلاء کی ایک ’بڑی‘ تعدادبھی دیکھنے میں آتی ہے۔ ان میں ڈاکٹرز اور انجینئرز بھی ہوتے ہیں اور ان میں ایک ان پڑھ کسان بھی ہوتا ہے۔ ان میں کالے کوٹوں میں موجود لوگ بھی ہوتے ہیں اور ان کوٹ والوں کے دفتر کے باہر بیٹھا چپڑاسی بھی ہوتا ہے۔ ان میں ایک سائکل سوار اسکول ٹیچر بھی ہوتا ہے اور ان میں ٹویوٹا کرولا میں سیرو تفریح کرنے والے انگوٹھا چھاپ بھی ہوتے ہیں۔ ان میں مسجد و محراب کے رکھوالے بھی ہوتے ہیں اور ان میں سیاسی شعبدہ بازی دکھا کر لوگوں کو محظوظ کرنے والے ’گرو‘ بھی ہوتے ہیں۔ غرض اس عوام میں لوگوں کی ایک ان گنت ورائٹی پائی جاتی ہے ۔ سب سے مزے کی بات جو اس نظام کی جان ہے وہ یہ کہ اس نظام میں ہر ایک کی رائے کا وزن ایک دوسرے کے برابر ہوتا ہے، چاہے وہ جاہل کی رائے ہو یا بہت ہی قابل فردکی۔گو کہ یہ نظام اپنے اندران تمام ورائٹیوں کو ایک ہی کٹہرے میں کھڑا کرنے کا فن رکھتا ہے۔ یہ تو تھیں اس نظام کی کچھ خوبیاں ۔ اب اگر اس نظام کی کچھ فنکاریوں کی تعریف نہ کی جائے تو شاید تشنگی باقی رہ جائے گی اور اس نظام کو قائم رکھنے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے میں کمی رہ جائے گی۔ اس نظام کی بدولت اور عوامی ورائٹیوں کی رائے سے ایک شاندار محل تعمیر ہوتا ہے کہ جس میں ملک کے کونے کونے سے آئے ہوئے وی آئی پی لوگوں کیلئے آرامدہ کرسیا ں لگی ہوتی ہیں۔ اب ظاہر سی بات ہے ورائٹی شدہ لوگوں کی’ قیمتی‘ رائے سے منتخب کئے گئے لوگ تو وی آئی پی ہی ہونگے۔پُر لطف بات تو یہ ہے کہ ان لوگوں کے انتخاب کیلئے گریجویٹ ہونے کی شرط رکھی جاتی ہے چاہے وہ کسی بھی مضمون میں ہواور تو اور ان گریجویٹ لوگوں کو ملک کے مختلف اداروں میں کام کرنے والے ماہر معاشیات، صنعت کار، ڈاکٹرز، انجینئرز، پروفیسرز غرض ہرماہر شعبہ جات کے سروں پہ بٹھا دیا جاتا ہے۔ اب اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے اس کا اندازہ آپ اپنی عقل کے مطابق خود لگا سکتے ہیں۔ آپ ایک لمحے کیلئے یہ بھی تصور کریں کہ کس طرح ان کے جاری کردہ مضحکہ خیز بیانات بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانیوں کی جگ ہسائی کا باعث بنتے ہونگے۔ ان کے فیصلے کس طرح ملک میں بسے خداداد صلاحیتوں کے حامل لوگوں کی صلاحتیوں کو زنگ آلود کرنے کا سبب بنتے ہونگے۔ ان کی دور اندیشی کا عالم تو یہ ہے کہ ان کی نظریں ملک میں پائے جانے والے قیمتی ذخائر کو نظر انداز کر کے غیروں کی تیار کردہ مصنوعات پر ایسے مرکوز رہتی ہیں جیسے ایک بچہ اپنی پاکٹ میں اعلی قسم کی چاکلیٹ کے ہوتے ہوئے سامنے کھڑے بچے کی ہاتھ میں ایک معمولی لالی پاپ پہ لالچی نظروں سے دیکھ رہا ہو ۔ایک تابناک ’مستقبل‘ کی امید تو کجا، ان سے ایک بہتر ’حال‘ کی توقع کرنا بھی ایسا ہے جیسے ایک بانجھ مرغی سے انڈوں کی آس لگائے رکھنا۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ تھوڑی اور آگے بڑھتی ہے۔ ایسے لوگوں کی بالواسطہ پشت پناہی میں ان لوگوں کا بھی بڑا کردارہوتا ہے جو مذہب کے نام پر اپنی الگ الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنائے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے اپنا ایک الگ حلقہ بنایا ہوا ہے جس میں ناپختہ ذہن کے حامل لوگوں کی اس انداز سے تربیت کی جاتی ہے کہ جس کے بارے میں ابلیس بذات خود اپنے چیلوں سے کہتا ہے کہ:
مست رکھو ذکر و فکرِ صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کر د و مزاجِ خانقاہی میں اسے
ان تمام لوگوں کا بحیثیت مجموعی اس ملک کے موجودہ حالات میں اہم کردارہوتا ہے اور اس جمہوری نظام کی خاص خاص خوبیوں کا اندازہ بھی آپ کو اب تک اچھی طرح سے ہوچکا ہوگا۔
یہ تمام بحث اپنی جگہ لیکن یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سا نظام ہے کہ جس کی اس ملک میں شدید ضرورت محسوس کی جا رہی ہے؟ کیسے اس ملک کو حقیقی ترقی کی راہوں پرگامزن کیا جا سکتا ہے؟ کس طرح اس ملک کے باشندے امن و سکون اور باعزت زندگی گزار سکتے ہیں؟ ان تمام سوالوں کے تشنہ طلب جواب ایک ایسے نظام میں پوشیدہ ہے کہ جس میں فیصلوں کا اختیار اس ملک کے نہایت ہی عقل و دانش رکھنے والے لوگوں کے ہاتھ میں ہو۔ جس میں ان پڑھ لوگوں سے یہ نہ پوچھا جائے کہ اس ملک میں تعلیم کے نظام کوچلانے کیلئے کس فرد کا انتخاب کیا جائے۔ جس میں فیکٹریوں میں کام کرنے والے کاریگروں سے یہ رائے نہ لی جائے کہ اس ملک کا وزیرصنعت کون ہوگا۔ جس میں گاؤں میں کھیتی باڑی کرنے والے کسانوں سے یہ توقع نہ رکھی جائے کہ وہ ملک کے معاشی نظام کی باگ ڈور چلانے والوں کا انتخاب کریں۔ گو کہ ایسا نظام ہوکہ جس کی بنیاد اُس ’نسخۂ کیمیاء‘ کے ایک سادہ سے کلیہ پر مضبوطی سے قائم ہوکہ ’’ علم والے اور جاہل ہرگزبرابر نہیں ہوتے‘‘۔ایک ایسا نظام کہ جس میں ملک کے ہر شعبے کا ذمہ دار ایک ایسا فرد ہو جو اپنے شعبہ میں کمال کاعلم اور تجربے کا حامل ہو۔ جسے اقتدار کی ہوس کے بجائے اس بات کا غم ہو کہ وہ اپنے عہدے کیلئے سب سے نا اہل فرد ہے۔ جسے اس بات کی فکر کھائی جا رہی ہو کہ وہ کیسے اپنے ادارے کو ایک مثالی ادارہ بنا سکے۔ ایک ایسا نظام کہ جس میں ہر فرد کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ اپنے اوپر بیٹھے لوگوں کا احتساب کر سکیں۔ایک ایسا نظام کہ جس میں ملک کے ہر اندرونی اور بیرونی معاملات کے با رے میں فیصلوں کیلئے ایک ایسابورڈ بنایا جائے جس میں ملک کے ذہین اور قابل افراد شامل ہوں اور ان کے انتخاب کا معیار علمی قابلیت اور تجربہ ہو۔ ایک ایسا نظام جو ملک کے جوانوں میں اپنے قائد کی روح کو ایک بار پھر زندہ و جاوید کر دے۔ ایک ایسا نظام جو اقبالؒ کی اپنے شاہینوں کیلئے کی گئی اس دعا کو شرمندۂ تعبیر کرسکے ، جس میں اس نے کہا تھا کہ:
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
آج اس ملک کا ذرہ ذرہ اس بات کا تقاضا کر رہا ہے کہ

اس ملک کو ضرورت ہے ایک ایسے نظام کی
کہ جس میں راج ہو اہل علم و دانش کا
نہ ہو جس میں دخل کوئی، بو جہل کے چیلوں کا
جہان کی ہر خوشی میسر ہر آدمی کو ہو
چلو وعدہ کریں ہم لائیں گے اس ملک میں اک دن
ضرور ایسا نظام جس سے بدل دیں ملک ہم سارا

حصہ
ڈاکٹرریحان احمد صدیقی ابھرتے ہوئے قلم کار ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے مالیکیولر میڈیسین میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ریحان صدیقی ان نوجوانوں میں شامل ہیں جو سماج کے بڑھتے ہوئے مسائل کا درد اپنے سینے میں رکھتے ہیں اور اپنے قلم سے اس کے تدارک کے لیے کوشاں ہیں۔

جواب چھوڑ دیں