۔2018ء نئے سال پر کچھ میٹھا ہوجائے!!!۔

دو ہزار سترہ کو تو گزرنا ہی تھا سو وہ گزر گیا، اور حال ہمارا یہ ہے کہ “جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
جو گزر گیا اس پر شکر کیجیے اور جو گزر رہا ہے اس کی فکر کیجیے ۔آج کے تمام اخبارا ت خاص نمبر اور ضمیمے نکالیں گے۔ سال گزشتہ اور آنے والے نئے سال کے حوالے سے جائزے لیں گے اور امیدوں کے سپنے دکھائیں گے۔
کچھ کے خیال میں گزشتہ سال ہم نے کوئی ترقی نہیں کی۔ مطلب ہمارے سارے ماہرین معاشیات و اقتصادیات بھاڑ جھونکتے رہے۔
اور اس بری معاشی و اقتصادی کارکردگی کا سارا ملبہ “حکمرانوں” پر ڈالتے ہوئے اپنا دامن جھاڑ لیںگے۔لمبے چوڑے جدول اور تقابلی جائزے اور رنگ برنگے چارٹس کی مدد سے ہر ممکن طور پر ثابت کریں گے کہ اس گزر ے سال ہم نے من حیث القوم کوئی ترقی نہیں کی ، بلکہ ترقی کے نام پر “گلاس توڑا۔بارہ آنے” ثابت ہوئے۔ تجزیہ نگاروں کے تجزیے، زائچہ کھینچے والوں کی لکیریں دھرے رہ جاتے ہیں اور فال نکالنے والوں کے طوطے چشم زدن میں ہوا ہوجاتے ہیں جب قدرت “گردش لیل و نہار” کا پہیہ گھمانے پر آجائے۔
سال گزشتہ میں جو کچھ بھی ہوتا رہا اس پر کسی بھی راکٹ سائنس تجزیے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ہماری حکومت کے خزانے میں 2017ء سے پچھلے سال سوائے “وعدوں اور آئی۔ایم۔ایف کی رسیدوں” کے تھا ہی کیا؟ اگر تو خزانے میں کچھ ہوتا تب اس کے خالی یا بھرے ہوئے ہونے کے بارے میں بات اور تجزیہ کرتے اچھے بھی لگتے۔کون سا شعبہ ایسا ہے سوائے “کے۔ الیکٹرک” کے جس نے ریکارڈ ترقی کی ہو؟
البتہ تعلیم کا شعبہ خیر سے دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے مگر اس میں بھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا کوئی کردار نہیں ہے۔ پرائیویٹ اسکولز کی “مافیا” کمال ہوشیاری سے پیسے بٹورنے میں مصروف ہے اور یہ وائٹ کالر مافیا “اچھی تعلیم” کے نام پر طلبا و طالبات کے سرپرستوں کی کھال اتارنے میں مصروف ہے۔
غریب اور متوسط طبقہ اس وائٹ کالرمافیا کی “لوٹ مار” کے مقابلے پر حسب سابق”نعرے مار” کر فرض کفایہ ادا کر رہا ہے۔ اسی کو کہتے ہیں “لگے رہو منا بھائی”!
صحت کے شعبے میں ہم نے سال گزشتہ کی نسبت رواں سال زیادہ ترقی کی۔ سال گزشتہ چند کمانڈو ٹائپ بیماروں کو بیرون ملک بغرض بحالی مزاج بھیجا تھا مگر رواں سال حکومت پاکستان نے “بیمار سے محبت۔ اور بیماری سے نفرت” کے انٹر نیشنل سلوگن پر عمل کرتے ہوئے خوب فیاضی دکھائی۔ تقریبا پورا 2017ء معمولی پٹواری سے لے کر اے ڈی سی، ڈی سی اور ”تخت لاء اور” کے تخت نشین سمیت بہت سے نورتنوں اور “سیاسی بیماروں” کو بیرون ممالک ہسپتالوں میں بر وقت بلکہ عین وقت پر طبی سہولیات بہم پہنچائیں۔
اور پھر ایسا چمتکار ہوا کہ اعلی طبی سہولیات کے بروقت بہم پہنچا نے پر مریض چاروں پاؤں کھڑا ہوکر رقص تک کرلیتا ہے۔ اور تو اور۔۔۔ جدید سہولیات کے کیا کہنے کہ تنفس کی بحالی بھی اب تو نلکی اور آکسیجن کے بغیر ہی مل رہی ہے (کم از کم وزیر خزانہ ( سابق ) اسحاق ڈار کے معاملے میں تو ایسا ہی رپورٹ ہوا ہے)یہاں میں اس زیادتی کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا جو نیب کے ساتھ ہو رہی ہے۔ کتنی بڑی زیادتی ہے کہ قومی ادارہ برائے احتساب (نیب) کو بلاوجہ ہی مطعون کیا جارہا ہے کہ بلاجواز اور بناء ثبوت کے ہر کس و ناکس پر ہاتھ ڈال دیتا ہے!
میں تو سمجھتا ہوں کہ اس ادارے کا سرکاری سطح پر شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ اس ادارے کی “سوفٹ کا روائی” کی بدولت “مہلک ترین بیماریوں” کا قبل از وقت پتا چلانا بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ اس ادارے کے اہل ترین ذمہ داران نے بے شمار ہٹے کٹے سیاسی رہنماؤں اور حکومت کے اعلی ترین عہدیداروں کی مہلک بیماریوں کا قبل از وقت پتا چلایا۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ کم از کم اس کی تعریف تو بنتی ہے۔ شکریہ راحیل شریف۔
صحت کے شعبے میں اگر صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کی بات کی جائے تو سندھ حکومت سب پر بازی لے گئی۔ اس صوبائی حکومت نے “چندر گپت موریا” کے زمانے میں صحت عامہ کو دی جانے والی سہولیات جتنے فنڈز رکھتے ہوئے سندھ کے تمام سرکاری ہسپتالوں کو چندر گپت موریا کے زمانے میں پہنچا دیا ہے اب حالت یہ ہے کہ سوشل سیکورٹی کے تحت چلنے والے مزدوروں کے ہسپتال بند ہوچکے اور کراچی کے تمام سرکاری ہسپتال نجی اداروں کی بدولت چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عباسی شہید ہسپتال کراچی کے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف جذبہ حب الوطنی میں چھ ماہ سے بناء کسی تنخواہ کے کام کرنے پر “دل و جان” سے آمادہ ہیں۔
کراچی کے بلدیاتی اداروں میں “بھائی چارگی” کو نظر بد نے کھا لیا۔ رہی سہی کسر قانون نافذ کرنے والوں نے نکال دی۔ کہتے ہیں کہ ”بھائی چارگی” کی لعنت نے شہر کے منہ پر کا لک مل دی ہے۔ اس لیے شہر سے کالی پیلی تمام تصاویر کی کھلے بندوں نمائش پر پابندی بھی لگائی جا چکی ہے۔ یعنی شہر کے سیاسی منظر نامے سے بنیادی رنگ نکال دینے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ (یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی آٹے میں سے نمک نکال دے۔)
آٹے سے نمک نکا لنے میں نقصان صرف ذائقے کا ہے مگر اس کا دیرپا فائدہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ نمک کی روٹی سے نمک حرامی کا ڈر جاتا رہتا ہے۔
جائزہ کار اور تجزیہ نگار اور سیاسی پنڈت “مستقبل کی کنڈلی” نکلا نے والے کچھ بھی کہتے رہیں مگر میں اس گزرتے سال کو پچھلے برسوں کی نسبت زیادہ بہتر تصور کرتا ہوں۔ اس وجہ سے کہ ہم نے بہت سے شعبوں میں اگر نمایاں مقام حاصل نہیں کیا مگر نمایاں کارکردگی ضرور دکھائی ہے۔ اور قوم کی توقعات پر پورا اترنے کی حتی المقدور کوشش ضرور کی ہے۔ مثلا دھرنوں کے اعتبار سے یہ سال گزشتہ تمام برسوں سے بازی لے گیا۔ اسلام آباد کی تاریخ میں اسلا م آباد کو ایوب خان اور جنرل رانی نے وہ مقام نہیں دیا تھا جو “ڈی۔ چوک” کو عمران خان نے دیا۔ سب مل کر کہو “ہاں!”
ویسے کڑوی کسیلی بہت ہوچکی سچ تو یہ ہے کہ کیوں نہ “نئے سال پر کچھ میٹھا ہوجائے!!!”
لیکن اتنا ضرور ہے کہ 2017ء کو سیاسی بیداری کا سال ضرور کہا جاسکتا ہے۔ لٹیروں، قومی دولت لوٹنے والوں، اور بدعنوانی میں ملوث تمام ہی طبقات کے خلاف عوامی رائے عامہ ہموار ہو رہی ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ عوامی رائے عامہ کی بیداری ساتھ ہی ساتھ ہماری عدلیہ بھی بیدار ہوچکی ہے۔
کیونکہ عدلیہ ذرا دیر سے بیدار ہوئی اس لیے اس کے فیصلوں میں کہیں کہیں جھول بھی دکھائی دیے۔ اگرچہ بیداری کی یہ لہر پورے ملک میں نمایاں ہے مگر اس کا اچھا مظاہرہ کراچی میں دیکھنے میں آیا جہاں عوام نے بنیادی حقوق اور سہولتوں کی فراہمی کے لیے قدرے بلند انداز میں آواز بلند کی۔ مثال کے طور پر جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے ایماء پر بنیادی شہری و بلدیاتی مسائل اور حقوق کے لیے پبلک ایڈ کے نام پر کمیٹیز قائم کی گئیں اور کراچی میں پبلک ایڈ کمیٹی نے محض ایک سال میں عوامی مسائل اجاگر کرنے اور ان کے حل کے لیے نمایاں کام کیے۔ تیس برسوں سے کراچی کی تباہ حال صورت حال کے بعد پبلک ایڈ کمیٹی کراچی نے اپنی بساط سے بڑھ کر کام کیے۔ ’’یونیورسٹی روڈ تعمیر کرو مہم‘‘ چار ماہ تک بھرپور انداز میں چلائی جس کے نتیجے میں خصوصی فنڈ مختص ہوئے اور اس روڈ کی تعمیر ممکن ہوسکی۔ پانی کی عدم فراہمی اور گندے پانی کی شکایات پر عوامی قوت کو ساتھ ملاتے ہوئے بلدیہ کراچی اور واٹر بورڈ پر اپنا دباؤ بڑھایا اور اب صورت حال پہلے سے بہتر ہوئی ہے۔ جو سب سے بڑا معرکہ ہوا وہ یہ کہ پبلک ایڈ کمیٹی نے کے۔ الیکٹرک کی جعلی ترقی کی رپورٹس کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے پہلی مرتبہ عوام کو کے۔ الیکٹرک کی لوٹ مار اور عوام کی جیبوں سے پیسے بٹورنے کے جدید طریقوں سے آگاہ کیا۔
پبلک ایڈ کمیٹی ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کا بہترین نقطہ آغاز ہے۔ ابھی پبلک ایڈ کمیٹی نے عوامی رائے عامہ کو بیدار کرنے کے ساتھ عدالتی محاذ پر بھی کے۔الیکڑک کو گھیر رکھا ہے۔ جعلی میٹر ریڈنگ، اوور بلنگ۔ بلنگ ٹیرف میں اضافے کے خلاف اور کراچی کے شہریوں کے دو سو پچاس ارب روپے واپس دلانے کی اس عظیم جدوجہد کو جس خوب صورتی کے ساتھ لے کر چلے ہیں کراچی کے عوام ان کے ساتھ ہیں۔
معاشرتی بیداری کے اس نئے دور میں امید کی جاسکتی ہے کہ آنے والا سال ہمارے لیے بہتری اور تبدیلیوں کا سال ہوگا۔ ان شاء اللہ

حصہ

جواب چھوڑ دیں