لائن پر آؤ یا لائن بناؤ

الن کلن کی باتیں
’’ہمارے یہاں عقلمندوں کی کمی نہیں، ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔‘‘
’’جب ہزار ملتے ہیں تو پھر ڈھونڈنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
’’اسی لئے ڈھونڈنے کی زحمت نہیں کی جاتی بلکہ جو مل جائے اسی سے کام چلا لیا جاتا ہے۔‘‘
’’ایسا کیا ہوگیا، کچھ بتاؤ گے بھی یا پہیلیاں ہی بھجواتے رہو گے؟‘‘
’’اب دیکھو ناں ہمارے ملک میں جو عقلمند ملتے ہیں وہ عوام کے خادم نہیں بلکہ عوام کے حاکم ہوتے ہیں۔ اسی لئے وہ عقلمندی کے ایسے جوہر دکھاتے ہیں کہ جس سے عوام کے چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں۔‘‘
’’ ایسا کیا ہوگیا جو تم ایسی بہکی بہکی باتیں کررہے ہو؟‘‘
وارداتیں ہورہی ہیں یا ہونے کا خطرہ ہے تو ڈبل سواری پر پابندی لگا دو۔ موبائل سے ریکی کی جاتی ہے تو موبائل کا نیٹ ورک بند کردو۔ بجلی کی ادائیگی کسی علاقے میں کم ہورہی ہے تو وہاں پر لوڈ شیڈنگ کرو۔ آٹا مہنگا ہے تو ڈبل روٹی کھا لو۔ ‘‘
’’واقعی یہ بات تو تم نے ٹھیک کہی، لیکن اصل بات کیا ہے؟ وہ بتاؤ، یہ پرانی باتیں ہیں۔‘‘
’’عوام کے نصیب میں دربدر کی ٹھوکریں کھانا لکھا ہے۔ کبھی یوٹیلٹی بلوں کے لئے لائن میں لگایا جاتا ہے، کہیں گیس بھروانے کی لائن میں لگایا گیا، کہیں پیٹرول نایاب کرکے لائن میں لگایا گیا، کہیں سم رجسٹریشن کے نام پر لائن میں لگایا گیا، کہیں ووٹ ڈالنے کے لئے لائن میں لگایا، کہیں لائسنس کے لئے لائن میں لگایا اور کہیں شناختی کارڈ کے حصول کے لیے نادرا کی لائن میں لگایا۔‘‘
’’جو قوم لائن پر نہیں آتی پھر اسے اسی طرح لائن میں لگایا جاتا ہے۔ تم یہ بتاؤ کہ ابھی کون سی لائن لگنے والی ہے؟‘‘
’’سنا ہے چھ ماہ میں شناختی کارڈ کی دوبارہ تصدیق ہوگی۔‘‘
’’ٹھیک سنا ہے۔‘‘
’’مطلب ایک بار پھر دوبارہ سے لائن میں لگ کر تصدیق کرنی ہوگی؟‘‘
’’اب تک تو آپ کو لائن میں لگنے کی عادت ہوجانی چاہیئے تھی۔ لیکن چونکہ یہ قوم لائن میں لگنے کی عادی نہیں اس لیے یہ عمل بار بار دہرایا جاتا ہے۔‘‘
’’اب آپ کیا چاہتے ہو بغیر لائن کے تمہارا کام ہوجائے؟ بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟ آپ زرداری کے بیٹے بلاول تو نہیں ہیں یا آپ شریف خاندان سے تو تعلق نہیں رکھتے جو آپ بغیر لائن میں لگے اپنا کام کروا سکیں۔‘‘
’’تو پھر ایک کام کیوں نہیں کرتے۔ سب کو لائن میں لگا کر چار چار جوتے کیوں نہیں لگائے جاتے تاکہ سب کی عقل ٹھکانے آجائے۔‘‘
’’ایسی ذلت بھلا کون پسند کرے گا؟‘‘
’’ذلت عوام کا مقدر ہے کیونکہ ان کے پاس شعور نہیں۔ انہوں نے اس کو اپنا نصیب سمجھ لیا ہے اور کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہ عقلمند ہم پر کیوں حکومت کررہے ہیں جو ہمارے ووٹ لے کرآتے ہیں اور ہمارے ہی پیسوں پر پلتے ہیں اور ہمارے درمیان اس طرح وی آئی پی انداز میں نکلتے ہیں، جیسے یہ انسان ہیں اور ہم سب گدھے۔ ان کی جان کی قیمت ہے اور ہم چیونٹیاں ہیں جس کے جی میں ا?ئے پاؤں تلے روند جائے۔‘‘
’’تو تمہارے خیال میں عوام کیا کرسکتی ہے؟‘‘
’’کہہ تو رہا ہوں چار جوتے سب کو لگائے جائیں کیونکہ سب کو جلدی ہے۔ کسی کے پاس ان حکمرانوں سے پوچھنے کا وقت نہیں کہ یہ سب ہمارے لئے ہی کیوں ہے؟ کیا حکمران بھی اس لائن میں لگتے ہیں؟‘‘
’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، آج تو تم لیڈروں جیسی باتیں کررہے ہو۔ کہیں الیکشن لڑنے کا پروگرام تو نہیں؟‘‘
’’شناختی کارڈ کی تصدیق توضروری ہے یہ ملکی سالمیت کا معاملہ ہے۔‘‘
’’جن لوگوں نے جعلی شناختی کارڈ تصدیق کرکے بنوا لیے ہیں کیا وہ دوبارہ تصدیق نہیں کرواسکتے؟ بجائے نظام ٹھیک کرنے کے آپ نظام الدین کو ٹھیک کرنے میں لگے ہیں بھلا اس طرح بھی کچھ حاصل ہوگا؟‘‘
’’جب تک یہ عقلمند موجود ہیں یہ نظام کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتا، یہ بات نظام الدین کو سمجھنی ہوگی۔ لائن پر آؤ یاپھر لائن بناؤ۔‘‘

حصہ

جواب چھوڑ دیں